تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     10-11-2015

غالبؔ بنام ظفراقبال

محترم جناب ظفراقبال صاحب‘ آداب!
فون پر عرض کیا تھا کہ ایک روزنامہ میں کالم لکھتا ہوں‘ زیرنظر گستاخانہ کالم ''غالب بنام ظفراقبال‘‘ صفحہ انچارج صاحب نے آپ کے احترام میں مسترد کیا‘ ملاحظہ کے لیے پیش خدمت ہے۔ آپ کے علمی و ادبی مقام اور مرتبے کا پورا پورا احساس ہے۔ یہ جسارت کسی بھی قسم کی توہین یا جناب کے مرتبے کو کم کرنے کی سعی ہرگز نہیں اور نہ ہی ایسی تحریروں سے اساتذہ کا احترام گھٹتا ہے‘ آپ جس طرح دوسروں پر تنقید کرتے ہیں اور جس خندہ پیشانی اور اعلیٰ ظرفی سے خود پر تنقید برداشت کرتے ہیں‘ اسی سے شہ پا کر طالب علم نے ہلکے پھلکے انداز میں یہ جسارت کی ہے۔
کالم ''خطوط غالب‘‘ کی نقل میں لکھا گیا ہے۔ ضرور اس میں غلطیاں ہوں گی۔ امید ہے کہ جناب اصلاح کرکے میری حوصلہ افزائی فرمائیں گے۔ آپ کی صحت اور دراز عمر کی لئے دعا گو۔
وقار خاں‘ چکوال‘ موبائل 0300-5780406
''غالب بنام‘‘ ظفراقبال
جمیل المناقب و بلند اقبال عزیز ظفراقبال کو خلد بریں سے غالب کا سلام پہنچے۔
دلنوازم! بعداز دعائے دوام حیات و ترقی درجات تمہیں معلوم ہو کہ دنیائے فانی میں میرؔ کے بعد میرؔ ہونے کی خواہش میں کئی فقیر ہوئے پر میرؔ نہ ہوئے۔ غالبؔ کے بعد جس نے بھی غالبؔ بننے کی سعی کی وہ مغلوب ہوا مگر غالبؔ نہ ہوا۔ اقبالؔ کے بعد کوئی وہ اقبال حاصل نہ کر سکا جو اقبال کا خاصہ تھا۔ ہر گلے را رنگ و بوئے دیگراست۔ تاریخ میں دور نہ جائیں‘ فیضؔ کے بعد فیضؔ کی مسند پر
خود کو فردکش دیکھنے کے کتنے ہی آرزومند بے فیض ہوگئے مگر فیضؔ نہ ہوئے۔ مختصر کرتا ہوں کہ اور تو اور تمہارے عہد کی بلبل حوش نوا اور حال اس فقیر کی ارادت مند و نور دیدہ و سرور دل پروین شاکر جس کے خدوخال پر حوران بہشتی بھی رشک کرتی ہیں‘ کے بعد جذبۂ محبت کی ترجمانی کا وہ فن کسی سخن ور کو آ ہی نہ سکا جو پروین شاکر کے ہنر کا شاہکار تھا۔ میاں! تمہیں یہ بھی آگاہی ہو کہ یہاں جنت میں جب بھی شہزادگانِ ادب جمع ہو کر محفل سخن برپا کرتے ہیں تو کرسی صدارت پر یہ عاجز ہی جلوہ افروز ہوتا ہے‘ گویا غالبؔ یہاں بھی غالبؔ ہی ہے۔ مردمِ چشمِ جہاں بینِ غالبؔ! تمہیں اپنے کلام پر اس قدر متوجہ پا کر اور قابل تحقیق و تنقید جان کر مسرور ہوں‘ میں نہیں جانتا کہ تم کو مجھ سے اتنی ارادت اور محبت کیوں ہے کہ کلامِ غالبؔ پر تضحیک نما تنقید کے نشتر چلاتے ہو‘ کبھی اسے فارسیت زدہ گردانتے ہو‘ کبھی کہتے ہو کہ غالبؔ اکثر ایسے اشعار کہنے پر آمادہ رہا جن کا بظاہر کوئی سر پیر ہی نہ ہو‘ کبھی میرے کلام کو لاینحل معمہ قرار دیتے ہو‘ کبھی اسے ایسی رسد شمار کرتے ہو جس کی طلب نہ ہونے کے برابر ہے اور ناچیز کی شاعری کے ایک حصے کو مزاحیہ کلام سے بھی تعبیر کرتے ہو‘ گویا تمہارے مقرر کئے ہوئے قاعدے کے موافق مرزا نوشہ متشاعر ہوا‘ پہلے اس قدر افزائی کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ حضرت نے اس ہیجمداں کو قابل خطاب اور اس کے کلام کو لائق نشترزنی جانا۔ پھر عرض کرتا ہوں کہ کاش تمہارے عہد میں جنم لیا ہوتا تو بیدلؔ کی بجائے تم سے رجوع کرتا‘ صبح و شام کورنش بجا لاتا اور اصلاح لیتا۔ اس طرح جہاں غالب بے نوا کے مصرعے ہم وزن ہوتے اور ردیف قافیہ میں بھی کوئی تال میل ہوتا وہاں تم اس کی مشکل پسند طبیعت کا بھی کچھ علاج کرتے۔ استادِ ممتاز! عائلہ تکلف و تملق آپ کا کلام معجز نظام ہے۔ ندرتِ خیال‘ رچائو‘ غنائیت اور بالخصوص عام فہمی‘ اللہ اللہ۔ مشتے از خروارے:
کلیاں بہہ کے کھاندا
ظفراؔ یار کریلے
اور تمہارے اس شعر کے جمالیاتی حسن‘ سادگی‘ گہرائی اور کشادگی فکر و نظر پر تو غالبِؔ ناتواں غش کھا گیا کہ ع
کس جنگل میں کھوئے اوئے اوئے اوئے
بے شبہ کوئی خیال افروز استاد ہی اس معجز نما کلام کا خالق ہو سکتا ہے۔ پھر شمس الرحمن فاروقی نے کیا غلط کہا کہ ظفراقبال غالب سے بڑا شاعر ہے۔ تم انتظار حسین اور ساقی فاروقی جیسے حاسدین کی باتوں پر دل چھوٹا مت کرو کہ ''یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے‘‘... یاد آیا کہ‘ مجھے ڈومنی کے عشق کے بھی تم خوب طعنے دیتے ہو۔ بے شبہ غالبؔ خستہ نے اس ستم پیشہ ڈومنی سے عشق کیا مگر یاد رہے کہ اب وہ حوروں کے جلو میں رہتا ہے۔ میاں! تمہاری تنقید سے تو غالبؔ کے مقام میں کوئی فرق آیا ہے یا نہیں مگر خطرناک بات یہ ہے کہ کچھ حوروں‘ ملائکہ اور خلد آشیانی سخن وروں کے تیور تمہارے بارے میں مناسب نہیں‘ جن سے چاروناچار تمہیں آنکھیں چار کرنی ہی پڑیں گی۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان سے ایک بڑا ہی پیارا شاعر محسنؔ نقوی تمہارے عہد علم و ہنر سے مناسب قدر افزائی کے سبب یہاں میرے حلقۂ رفاقت میں آیا ہے۔ بخدا مائل سخن ہوتا ہے تو ماحول پر وجد آفریں کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ کل سحردم شہد کی نہر کے کنارے میرے سامنے باادب‘ باملاحظہ‘ گوش برآواز بیٹھا تھا کہ میرے افکار و کردار اور شاعری پر تمہارے طعن و تشنیع کا ذکر چھڑ گیا۔ واللہ! پھر کلام شاعر بہ زبان شاعر اور نہر کی روانی ہم سفر ہوئے تو فقیر و حور و ملائکہ ہمہ تن گوش ہوئے‘ کیا خوب شعر سنائے کہ: ؎
مخلوق تو فنکار ہے اس درجہ کہ پل میں
سنگِ در کعبہ سے بھی اصنام تراشے
تو کون ہے اور کیا ہے ترا داغِ قبا بھی
دنیا نے تو مریم پہ بھی الزام تراشے
یکتائے زمانہ! ہمارے عہد کو بے شک تاریک اور فارسیت زدہ کہو مگر آگاہ رہو کہ غالبؔ بمشکل چند ارفع درجے کی اولڈ ٹام اور کاس ٹیلن کی بوتلیں چوبیس روپے درجن لے کر نوش جاں کرتا تھا۔ شنیدم کہ تقسیم ہند کے بعد اب تم لوگوں کو ٹھرے بھی خالص میسر نہیں۔ ایسے ناموافق حالات میں غالبؔ پر تنقید ہوگی یا پھر ایسا ہی کثیرتعداد میں ادب تخلیق ہوگا جیسا ہو رہا ہے۔ الامان! ہاتھی کی ضخامت کی کلیات ظفراقبال کی چار جلدیں‘ مضامین نو کے انبار اور ہر روز کالم‘ آفریں‘ ہزار آفریں‘ بندہ پرور! کچھ تھمنے میں آئو‘ خود بھی سانس لو اور بے چارے قاری کو بھی دم لینے دو۔ آگاہ رہو کہ اس عمر میں رعشہ وضعف بصر و دماغ‘ فکر مرگ اور غم عقبیٰ آدمی کو بقائمی ہوش و حواس خمسہ نہیں رہنے دیتے اور وہ خود کو میرو غالبؔ سے بڑا شاعر سمجھنے لگتا ہے۔
ہمہ صفت مصنف کتب کثیرہ! عریفہ ہٰذا کے توسط سے ایک مشورہ دیتا ہوں‘ اگر خفا نہ ہو جائو گے تو مفاد و حظ اٹھائو گے۔ قبر میں پائوں لٹکائے بیٹھے ہو۔ دو آدمی تمہیں تھام کر اٹھاتے ہیں اور پیرانہ سالی میں ضعف بصارت کا عارضہ بھی لاحق ہے۔ میری مانو تو مشق سخن کی مشقت ترک کرو اور خصائص بالا کی بنیاد پر بے دھڑک رویت ہلال کمیٹی میں شامل ہو جائو۔ ''دال دلیا‘‘ بھی چلتا رہے گا اور عید وبقر عید قوم کی دعائیں بھی لیتے رہو گے۔
دلدعا: تمہارا چچا اسد اللہ خان غالبؔ
شنبہ 24 محرم الحرام 1437ھ
نوٹ: میں نے وقار خاں کے فون پر ان سے کہا تھا کہ عزت افزائی کے لیے برادرم صفحہ انچارج صاحب کا شکریہ۔
آج کا مطلع
جو بوڑھا ہوں تو کیوں دل میں محبت زور کرتی ہے
میں جتنا چپ کراتا ہوں یہ اُتنا شور کرتی ہے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved