تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     10-11-2015

بھارت کا گوربا چوف

خورشید قصوری کی کتاب کی تقریب رونمائی میں کلکرنی کے چہرے پر پھینکی جانے والی آر ایس ایس کی سیا ہی نے جہاں ایک جانب بھارت کی اپوزیشن جماعتوں میں جان ڈال دی ہے وہیں بھارت کے سیکولر حلقے کو ہمت اور طاقت دے دی ہے تاکہ وہ اب کھل کر مودی کی انتہا پسندی کا ایشو اٹھا سکیں۔ بھارت سرکار کی جانب سے زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والوں نے بطور احتجاج اپنے ایوارڈز واپس کر نے شروع کر دیئے ہیں۔ ان میں شاعر بھی ہیں‘ دانشور بھی‘ علم و ہنر کے سکالر بھی اور فوج کے سابق افسران بھی۔ کل تک بی جے پی اور شیو سینا سمیت آرایس ایس کی بد معاشی اور غنڈہ گردی سے سہمے ہوئے دبی زبان میں بات کرنے والے اب سامنے آ کر کہہ رہے ہیں کہ نریندر مودی بھارت کا گوربا چوف ہے اور اس احتجاج میں جنوبی بھارت سب سے پیش پیش ہے۔ بابری مسجد کی مسماری سے گجرات کے مسلمانوں کے قتل عام پر جنوبی ہندوستان کی پر امن اور تعلیم یافتہ اکثریت کو شمالی حصے کی اس انتہا پسندی نے متنفر کر کے رکھ دیا ہے۔ کر ناٹک، اڑیسہ ، آندھرا پردیش اور تامل ناڈو سمیت دوسری جنوبی ریا ستیں شدت سے کہہ رہی ہیں کہ کسی بھی وقت پاک بھارت نیوکلیئر جنگ کی صورت میں شمالی ہندوستان کی پالیسیوں کا نشانہ انہیں بھی بننا پڑے گا جبکہ ان کا کشمیر یا پاکستان کے ساتھ کوئی جھگڑا ہی نہیں ہے۔ یہ تو براہمن پنڈتوں پر مشتمل شمالی ہند کی قیادت ہے جو اپنی انتہا پسندی کا انہیں بھی شکار بنانے پر تلی ہوئی ہے۔ جنوبی بھارت کو یقین ہے کہ چین یا پاکستان کی بھارت سے جنگ کی صورت میں سب سے پہلے بنگلور اور اڑیسہ کو نشانہ بنایا جائے گا جبکہ یہاں کے عوام کو پاکستان سے کوئی لینا دینا ہی نہیں۔
جنوبی بھارت کی تمام ریا ستوں کی جانب سے بر ملا کہا جا رہا ہے کہ ہمارے ہندوستان کا اجودھیا کی مسجد یا مندر سے کوئی تعلق نہیں۔ ہماراکسی ملک یا قوم سے کوئی جھگڑا نہیں‘ ہمارا مرکز نئی دہلی نہیں اور نہ ہی ہمیں ایسے سیا ستدانوں کی ضرورت ہے اور نہ ہی اس طرح کے لوگوں کیلئے معاشرے اور سیا ست میں کوئی جگہ ہے۔ شاید انہی وجوہ کی بنا پر وہاں مرکز گریز رجحانات پنپنا شروع ہو گئے ہیں۔کل تک کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ہندوستان کی قوتیں بھی دو حصوں میں الگ الگ ہونے کے متعلق سوچیں گی لیکن اب جنوبی بھارت کا تاجر، سرمایہ کار اور تعلیم یافتہ نوجوان ایک فیصلہ کر چکا ہے ۔ وہ ہمیشہ سے اپنے پرکھوں سے امن پسند رہتے چلے آ رہے ہیں جبکہ شمالی بھارت اور جنوبی بھارت صدیوں سے ایک دوسرے سے الگ الگ تھے۔ شمالی بھارت ہمیشہ سے ہی بیرونی حملہ آوروں کا شکار رہنے کی وجہ سے فوجی مزاج اور مزاحمتی سوچ کا مالک رہا جبکہ جنوبی بھارت جو دہلی سے کوسوں دور اور تین اطراف سے بحیرئہ ہند میں گھرا ہوا ہے‘ہمیشہ سے بیرونی تاجروں کیلئے پر کشش منڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔شمالی بھارت کے لوگوں میں ذات پات اونچ نیچ اور جنگی خصوصیات کی بھر مار رہی جبکہ جنوبی بھارت میں مدتوں سے مذہب کا سیا ست سے دور کا واسطہ بھی نہیں رکھا گیا ۔ جنوب صرف تجارت اور کاروبار کا دوست ہے‘ یہی وجہ ہے کہ اس نے مودی سرکار کو مجبور کر کے حیدر آباد اور بنگلور میں نئے جدید ترین ائیر پورٹس کی تعمیر کر دی تاکہ بیرونی سرمایہ کار نئی دہلی اور ممبئی کی بجائے سیدھا جنوب میں اترے۔ یہی وجہ ہے کہ ایچ ایس بی سی بینک اور دوسرے اداروں نے برودہ گجرات میں اپنی برانچیں کھولنے سے انکار کر دیا تھا۔
کبھی کبھی تو لگتا ہے کہ پورا بھارت شعلوں کی زد میں ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس میں مغالطہ ہو لیکن آج ہر دوسرے شخص کی زبان پر یہ بات ہے ۔ آئی ٹی سے متعلقہ عالمی کمپنیاں بنگلور میں اپنے پروجیکٹس کو دوگنا کر رہی ہیں۔ یہ بات اب اندرون بھارت ہی نہیں بلکہ بیرونی دنیا میں بھی یقین سے کہا جا رہا ہے کہ شمالی بھارت اور جنوبی بھارت دو الگ الگ ملک بنتے جا رہے ہیں۔ ایک جانب شمالی بھارت کی بے انتہا آبادی جہاں آئے دن کی مذہبی منافرت اور ہنگامے سرمایہ کاری کیلئے آنے والوں کیلئے وبال جان بن چکے ہیں اور نئے سرمایہ کار شمالی کی بجائے جنوبی بھارت کا رخ کرنے پر مجبور ہورہے ہیں اور جو پہلے سے یہاں سرمایہ کاری کر چکے ہیں‘ وہ بھی اب جنوب کی طرف بھاگ رہے ہیں کیونکہ جنوبی بھارت کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہاں کے لوگ ٹیکنیکل ایجوکیشن میں سب سے آگے ہیں۔ فیکٹریوں اور کارخانوں میں کام کرنے کیلئے دستیاب لوگ انتہائی ہنر ‘تعلیم یافتہ اور سب سے بڑھ کر وہاں کی قانون ساز اسمبلیوں کے ارکان انتہائی ترقی پسند اور اکثریت ر وشن پسند ہونے کی وجہ سے مذہبی اور علا قائی انتہا پسندی کی جانب مائل ہونے سے گریز کرتے ہیں۔ 
مہاراشٹر میں جنوب والوں کے خلاف نفرت کی یہ حالت ہے کہ کسی کالج اور یونیورسٹی میں داخلہ دیتے ہوئے انتہائی حقارت آمیز سلوک کیا جاتا۔راہ چلتے اکیلے دکیلے کو مارا پیٹا جاتا ہے۔ جنوبی بھارت کے لوگوں میں یہ تاثر عام ہو رہا ہے کہ انتہا پسند قیادت اپنی بقا اور اپنی جماعت کیلئے زیا دہ سے زیا دہ نشستوں کے حصول کیلئے بھارت کے وسائل کا سب سے زیا دہ استعمال اس کے شمالی حصوں سمیت گجرات اور نئی دلی میں کیا جا رہا ہے جبکہ سب سے زیا دہ کمائی جنوب دے رہا ہے ۔آندھرا پردیش کے وزیر اعلیٰ چندر بابو نائیڈو نے کہا تھا کہ جب تک ہمیں دلی کی غلامی سے نجات نہیں ملے گی ہم حقیقی معنوں میں معاشی ترقی نہیں کر سکتے۔ ہمیں تعلیم، روزگار، غربت کے خاتمے اور اپنا انفراسٹرکچر بہتر بنانے کیلئے ہر قسم کی مرکزیت سے چھٹکارا پانا ہو گا۔
ناس کام کمپنی کے صدر کرن کارنک گجرات کے مسلم کش فسادات کے چند ماہ بعد بھارت کی انفارمیشن ٹیکنالوجی کی صنعت کیلئے بزنس حاصل کرنے کیلئے جرمنی میں موجو دتھے۔ یہ وہ وقت تھا جب بھارت کے انتہا پسند اجو دھیا میں مندر تعمیر کرنے کیلئے ہر طرف آگ لگا رہے تھے۔ کرن کارنک کو ملنے والا ہر جرمنی سرمایہ اس سے ایک ہی سوال کررہا تھا '' کہ ایسا کیوں کیا جا رہا ہے؟ کیا یہ سلسلہ رکے گا یا مزید بڑھے گا؟‘‘ان کا کہنا تھا کہ ہر وقت بغیر کسی وقفے کے چوبیس گھنٹے جاری رہنے والے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے بزنس اور سرمایہ کاری کیلئے وہ اس قسم کا خطرہ اور ماحول پسند نہیں کر سکتے۔جب جرمن سرمایہ کار اٹھنے لگے تو کرن کارنک نے انہیں بتایا کہ یہ صرف شمالی بھارت میں ہے اور جہاں میں آپ کو سرمایہ کاری کی دعوت دینے آیا ہوں ہوں وہ جنوبی بھارت ہے‘ جہاں اس قسم کی انتہا پسندی کو انتہائی نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ پورے جنوب میں مودی اور بی جے پی جیسی جماعتوں کی شدت پسندی کا وجو دہی نہیں ہے۔
آج تامل ناڈو بھارت کی آٹو انڈسٹری کا آدھا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے۔ ہنڈائی موٹرز نے1998ء میں ہی تامل ناڈو میں615 ملین ڈالر کا پلانٹ لگا نا پسند کیا جبکہ واجپائی انہیں شمالی حصے کی جانب راغب کرتے رہے۔ یہی حال فورڈ موٹرز کا ہے۔ ہنڈائی موٹرز والوں کا کہنا ہے کہ ہم ادھر کیوں نہ سرمایہ کاری کریں جب ہمارے لئے پانی کی پائپ لائن بچھانے کا کام ریاستی حکومت بغیر کسی رشوت کے وقت سے چار دن قبل مکمل کر دے جبکہ جنوب میں رشوت، مذہبی منافرت اور جاہلیت پر مبنی سوچ کارکنوں کو آپس میں لڑاتی رہتی ہے ۔ ایک جانب شمال کی منافرت ہے تو دوسری جانب جنوب میں بنگال کا کمیونسٹ وزیر اعلیٰ اپنے صوبے کو IT Capital of India بنانے کا خواب دیکھ رہا ہے شائد یہی وجہ ہے کہ۔۔۔۔جنوبی انڈیا میں یہ سوچ پھیلتی جا رہی ہے کہ پرائی جنگ میں وہ اپنا گھر تباہ نہیں کریں گے...!!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved