تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     10-11-2015

New Dimensions

مشہور لطیفہ ہے ۔اپنے تئیں ایک شخص بہت خوش الحان تھا۔محفل میں اپنے''ہنر‘‘ کا اس نے مظاہرہ کیا تو دوبارہ اسی کلام کی فرمائش ہوئی۔ خوشی سے وہ پھولانہ سمایا۔ اب کی بار اس نے لمبی تان لگائی ، خوب گلا پھاڑا۔ ــ صدا بلند ہوئی ''ایک بار اور‘‘ ۔ وہ حیران ہو کر پوچھنے لگا کہ میری آوا زمیں ایسی بھی کیا خاص بات ہے ؟ '' جب تک صحیح نہیں سنائو گے، ہم دوبارہ سنتے رہیں گے‘‘ جواب ملا۔ 
پروفیسر احمد رفیق اختر کے بارے میں لکھتے ہوئے، کم و بیش یہی کچھ میرے ساتھ پیش آرہا ہے ۔ چند ماہ قبل استاد پہ مضمون لکھا تو ڈاکٹر ریحانہ ناصر ناراض ہوئیں : تمہارے والد کی چند سطریں کافی ہوتی ہیں ۔ تم نے پورا مضمون لکھ دیا لیکن پروفیسر صاحب کا درست تعارف نہ کرا سکے ۔ میں انہیں کیا بتاتا کہ بی بی انحطاط کا زمانہ ہے ۔ اُردو کالم نگاری زوال کاشکار ہے ۔ قلم کاغذ اب میرے ہاتھ آلگے ہیں اور ان معصوموں کے ساتھ کھلواڑ میں کرتا رہوں گا۔ 
یہ بات عجیب ہے کہ کسی شخص کا نام سن کر پروفیسر صاحب اس کے قد کاٹھ اور شکل و صورت سے لے کر عادات تک بتا ڈالتے ہیں لیکن کچھ باتیں عجیب تر ہیں ۔ لاکھوں لوگ ان سے عقیدت رکھتے ہیں۔ ایسے میں عام طور پر لوگ زعمِ تقویٰ کا شکار ہوتے ہیں ۔ وضع قطع بدلتے اور حبّ ِجاہ میں بہہ جاتے ہیں ۔ مذہبی رہنمائوں کی محفل میں اختلاف کی گنجائش نہیں ۔ ادھر ایک طالبِ علم یہ کہتا
ہے : پروفیسر صاحب آپ غلط کہہ رہے ہیں ۔ دم دار ستارہ زمین کے قریب سے ہرگز نہیں گزرا ۔ وہ تو چاند سے بھی تین گنا فاصلے پر تھا۔ وہ جیب سے موبائل نکالتا اور ناسا (Nasa)کی ویب سائٹ کھول کر دکھاتا ہے ۔ ''تصحیح کا شکریہ ‘‘ وہ انگریزی میں کہتے ہیں ۔ کھانا لایا جائے او راپنی پریشانی لے کر آنے والا کوئی شخص تکلف میں ہاتھ نہ بڑھائے تو اصرار کے ساتھ وہ اسے شریکِ طعام کرتے ہیں ۔لاکھوں لوگوں کی رہنمائی میں حسنِ اخلاق بذاتِ خود بڑی کرامت ہے ۔ 
پروفیسر صاحب کے نظریات پر ستائش کے ساتھ بحث اور تنقید بھی ہوتی رہی ہے ۔ ان میں سب سے اہم شاید جنت میں آدمؑ کی پیدائش کے ساتھ ساتھ متوازی طور پر اس نیلے سیارے میں ایک جسم کی تشکیل ہے ۔ استاد کا کہنا ہے کہ آدمؑ کو زمین پر اتارا گیاتو ان کی روح کو اس جسم میں قید کر دیا گیا ، جو کہ زمین پر موجود تھا۔ یہ رائج مذہبی نظریے کی نفی ہے ۔ صدیاں ہوئیں ، تحقیق کو مسلمانوں نے خیر باد کہا ۔ ادھر مسلمانوں کے باب میں متعصب ہونے کے باوجود (جس میں خود مسلمان بھی بڑی حد تک قصور وار ہیں ) مغرب کا طرزِ عمل یہ ہے کہ علمی تحقیق میں ایک ذرا سی بد دیانتی بھی اسے گوارا نہیں ۔ بڑی یونیورسٹیوں کے لاکھوں بڑے دماغ تحقیق میں لگے ہیں اور یہ تصور ہی مضحکہ خیز ہے کہ وہ سب مل کر کسی معاملے میں اقوامِ عالم کو دھوکا دینے کی کوشش کریں ۔ جھوٹے دعوے کرنے والوں کے پرخچے اڑا دیے جاتے ہیں ۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ معترضین نے فاسلز کے علم کا ایک ذرا سا مطالعہ بھی نہیں کر رکھا۔ پروفیسر صاحب مسکراتے اور یہ کہتے ہیں :اس میں اچنبھے کی کوئی بات نہیں ۔ آج بھی رحمِ مادر میں بچّہ گوشت کا لوتھڑا ہی ہوتا ہے ۔ تیسرے ماہ فرشتے روح لے کر آتے ہیں ۔ریحانہ ناصر گائنا کالوجسٹ ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ نویں ہفتے میں بچّے کا دل دھڑکنے لگتا ہے ۔یہی وہ وقت ہوتاہے ، جب باقاعدہ طور پر اسے ایک جاندار تصور کیاجاتا ہے ۔
ہمارے پاس آلات نہیں ، سرمایہ ناپید ہے ۔ سینکڑوں ارب ڈالر ہم تحقیق کی نذر نہیں کر سکتے لیکن جو لوگ اس کارِ خیر میں جتے ہیں ، ان کا مطالعہ تو ممکن ہے ۔ 
پروفیسر صاحب کا کہنا یہ ہے کہ جسم نہیں ، روح اہم ہے ۔ روح ہی میں سارا ڈیٹا محفوظ ہوتاہے ۔ اس کی مثال موبائل سم یا میموری کارڈ کی سی ہے ۔ جسم بدلتے رہتے ہیں ۔ جنت میں ہمیں نئے جسم دیے جائیں گے ۔ جہنم والوں کے جسم جلتے اور نئے بنتے رہیں گے ۔ یوں بھی موت کے بعد ہمارے جسم گل سڑ جاتے اور روح آسمان پہ لوٹ جاتی ہے ۔ ایسے میں یہ تصور عجیب لگتاہے کہ آدم ؑ آسمانوں سے اپنے جسم سمیت اڑتے ہوئے زمین پہ اتر رہے ہوں ۔
بیرونِ ملک سے ایک شخص کی ای میل موصول ہوئی ۔ اس کا کہنا تھا کہ یہ بات کیا کم ہے کہ ہزاروں لوگوں کی سوچ میں پروفیسر صاحب سے تعلیم پا کر وسعت پیدا ہوئی ہے ۔ تناظر بڑا ہوا ہے ۔ لوگوں کو احساسِ جرم (Guilt)سے نکال کر انہوں نے محبت سے خدا کو یاد کرنے کی تعلیم دی ہے ۔ ہزاروں
نوجوان محبت سے اپنے خدا کوپکارنے لگے ہیں ۔کتنی ہی آیات ہیں ، ہم غائب دماغی کے عالم میں جن سے گزر جایا کرتے ۔ باآوازِ بلند پروفیسر صاحب انہیں دہراتے رہے ؛حتیٰ کہ ہماری آنکھیں کھلنے لگیں ۔ انہی نے بتایا کہ ابتدا میں زمین و آسمان کے یکجا ہونے اور پھر پھاڑ کر انہیں جدا کرنے سے قرآن کی مراد بگ بینگ ہے ۔ ڈیڑھ ہزار سال پہلے جو کتاب بگ بینگ کا ذکر کرتی ہے اور جو نظامِ شمسی کے اختتام پر سورج اور چاند کے یکجا ہونے کا علم دیتی ہے ، اس کے اوراق پر ہمیں پڑائو ڈالنا چاہئیے ۔ اسی کتاب میں لکھا ہے کہ ایک طویل عرصے تک انسان کوئی قابلِ ذکر شے نہ تھا۔ ایسی ہی کچھ Dimensionsپر میں لکھنا چاہتا ہوں ۔ آخری زمانے میں جانور انسان سے کلام کیسے کریں گے۔ حضرت دائود ؑ کے ساتھ پہاڑ خدا کی تسبیح کیسے بیان کیا کرتے ۔امانتِ عقل کو اٹھانے سے انسان کے سو ادیگر مخلوقات نے انکار کیسے کیا۔ 
سوچ میں وسعت بڑی نعمت ہے ۔ نئی Dimensionsمیں آدمی غور کرنے لگتا ہے ۔ وہ آگہی کی لذت سے آشکار ہوتاہے ۔ وہ خدا پر علمی یقین تک پہنچتا ہے ۔جاننے والے اور بے علم برابر نہیں ہوسکتے ، یہ خدا کا فرمان ہے ۔علم ہی تو ایمان ہے ۔ یہ لکھنے پڑھنے ، غور و فکر اور دعا سے ملتا ہے، جھنڈے اٹھا کر دھمال ڈالنے سے نہیں ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved