تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     11-11-2015

چوہدری انور عزیز کی خواہش

چوہدری انور عزیز کی پچاسویں سالگرہ والی رات ان کے دوستوں کی محفل تھی۔
محفل کیا تھی ایک ہجوم جس میںصحافی‘ سرکاری افسران اور ان کے دیگر دوست شامل تھے۔ رائو تحسین نے ایک شام ان کے لیے سجائی اور خوب سجائی ۔ نصرت جاوید، عامر متین، محمد مالک، رانا جواد، طارق چوہدری، اسلم خان، فیصل فاروق، اویس توحید، عاصمہ شیرازی، مظہر برلاس، حذیفہ رحمن، رانا قیصر، عبدالستار خان... ایک طویل فہرست ہے ناموں کی،جو شریک ہوئے۔
محمد مالک جب سے پی ٹی وی کے ایم ڈی بنے ہیں‘ تھوڑے سے دور دور رہتے ہیں۔ سرائیکی علاقوں کے نوجوانوں کا خیال ہوتا ہے کہ وہ میرے ایڈیٹر رہے ہیں‘ ان سے تعلق رہا ہے‘ لہٰذا وہ کچھ ہماری مان لیں گے۔ سو‘ سرائیکی علاقوں سے ایک دو نوجوانوں نے کہا کہ پی ٹی وی کا ٹیسٹ دیا ہے‘ ان سے سفارش کر دیں۔ میں نے کہا: کر دیتا ہوں‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ محمد مالک جیسے ذہین کم ہی صحافی میں نے دیکھے ہوں گے۔ میرا خیال ہے کہ ایم ڈی پی ٹی وی کا عہدہ ان کے لیے چھوٹا تھا۔ ان کی ذہانت اور قابلیت اس سے بڑی جگہ کام آنی چاہیے تھی۔ اگرچہ محمد مالک کے دادا دفن تو ڈیرہ غازی خان میں ہیں‘ لیکن وہ سرائیکی علاقوں سے اتنی الفت نہیں رکھتے‘ جتنی ان کے بزرگوں کے دل میں تھی‘ اسی لیے بزرگوں نے وہیں دفن ہونا پسند کیا تھا۔ ایک دفعہ انہیں کہا: جناب ملتان ٹی وی سٹیشن کی بہتری تو دور کی بات ہے‘ آپ کے تخت لاہور کے ٹی وی سٹیشن نے ملتان ٹی وی سٹیشن کے کیمرے تک واپس منگوا لیے ہیں۔ ایک شان بے نیازی سے ایسا جواب دیا کہ میں اپنا سامنہ لے کر رہ گیا۔ 
اسی محفل میں اعلان ہوا کہ عامر متین کے گھر بھی کل سالگرہ کی تقریب ہو گی۔ کیک وہیں کٹے گا۔ ڈارلنگ ہما علی اور عامر متین میزبان ہوں گے۔ ان سے بہتر میزبان بھی شاید کم ہی ہوں گے۔ اگرچہ اس میزبانی کی فہرست میں میجر عامر، سابق کمشنر اسلام آباد طارق پیرزادہ، ارشد شریف اور ڈاکٹر ظفر الطاف بھی آتے ہیں‘ جن کے دستر خوان کی اپنی اپنی خوبیاں ہیں۔ کھانے سے زیادہ وہاں جو گفتگو ہوتی ہے اس کا اپنا مزہ ہے۔ دنیا جہان کے لوگ آپ کو وہاں ملیں گے۔ اگر آپ صحافی ہوتے ہوئے اسلام آباد میں میجر عامر کے گھر نہیں جاتے تو پھر آپ اچھا جرنلزم نہیں کر سکتے۔ کچھ عرصہ میرا وہاں جانا چھوٹ چکا ہے۔ میجر عامر کا فون آیا: کمبخت کہاں غائب ہو۔ میں نے کہا: سر ایک مسئلہ ہے۔ آپ کے ہاں اتنی خبریں اور خوبصورت تجزیے ملتے ہیں کہ میرے جیسا صحافی انہیں استعمال کرنے سے باز نہیں آ سکتا‘ اور آپ گھر سے نکلتے وقت یہ شرط لگا دیتے ہیں کہ یار اس کو رپورٹ نہ کرنا۔ اب بتائیں آپ سے دوستی بچائوں یا پھر خبر؟ سو‘ بہتر ہے کہ تعلق قائم رہے کیونکہ رپورٹر کو خبر مل جائے تو اسے روکنا اس کے لیے مشکل ہوتا ہے‘ اس لیے آنا کم کر دیا ہے۔ وہ ہنس پڑے اور بولے: تم آئو تو سہی‘ اس بین کو اٹھانے کے بارے میں بھی کچھ سوچیں گے۔ 
عامر متین کے گھر حامد میر بھی شریک تھے۔ وہیں انور عزیز چوہدری نے مجھے پکڑا اور غصے سے بولے: تمہیں کچھ سمجھانے کی ضرورت ہے، کچھ کتابیں آپ کو بھجوائوں گا، پڑھ لینا۔ البیرونی اور ابن بطوطہ نے جو کچھ ہندوستان کے بارے میں لکھا‘ اسے پڑھنا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ میکاولی بھی پڑھ لو۔ اس ناراضگی کے بعد بولے، تم لوگ یہاں بیٹھ کر ہندوستان سے اچھے تعلقات اور دوستی کا پرچار کرتے ہو‘ شکر گڑھ میں روزانہ سرحد پر فائرنگ سے لوگ مرتے ہیں۔ آپ یہ ذہن میں رکھیں کہ ہندوستان سے کبھی دوستی نہیں ہو سکتی۔ وہ دشمن ہے اور دشمن کے بارے میں اس طرح کی باتیں زیب نہیں دیتیں۔
چوہدری صاحب ایک ذہین انسان ہیں اور خوبصورت گفتگو کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔ گستاخی کا تو سوچا ہی نہیں جا سکتا۔ میں نے ادب سے کہا: اسی لیے تو ہم چاہتے ہیں کہ تعلقات نارمل رہیں تاکہ بے گناہ لوگ شکر گڑھ یا دیگر علاقوں میں جانوں سے ہاتھ نہ دھوئیں۔ حکومتیں کچھ عرصے بعد اپنے تعلقات درست کر لیتی ہیں‘ لیکن جن کے گھر اجڑ جاتے ہیں وہ ساری عمر کا روگ پالتے ہیں۔ خیر چوہدری صاحب مطمئن نہ ہوئے۔ ہو سکتا ہے کہ 
اب ہمارے ہاں چیزیں کچھ نارمل ہوں کیونکہ بہار کے نتائج نے پاکستانیوں کو بھی یقین دلایا ہے کہ ہندوستان کے عوام پاکستان یا مسلمانوں کے اس طرح دشمن نہیں ہیں جیسے ہمیں شیوسینا کی کارروائی سے لگنا شروع ہوگیا تھا‘ بلکہ بہار کے الیکشن میں تو کئی مسلمان امیدوار بھی جیتے ہیں‘ اور بہار کے ووٹروں نے ہندوستان کے سیکولر تشخص کو بچا لیا ہے۔ 
چوہدری صاحب نے اچانک کہا: میری ایک ایسی خواہش ہے‘ جسے پورا کرنا چاہتا ہوں۔ سب ان کی طرف متوجہ ہوئے تو بولے: جو سلوک شکر گڑھ اور اس کے ارد گرد کے علاقوں میں بوڑھے لوگوں کے ساتھ ہو رہا ہے‘ وہ پریشان کن ہے۔ کبھی ہم فخر کرتے تھے کہ ہمارے مشرق میں بزرگوں کے ساتھ وہ سلوک نہیں ہوتا‘ جو مغرب میں ہوتا ہے۔ بولے: اب جو حشر ہمارے گھروں میں بزرگوں کا ہو رہا ہے اور خصوصاً بہوئیں جو کچھ کر رہی ہیں‘ لگتا ہے کہ بوڑھے لوگوں کے لیے اب اپنے گھروں میں رہنے کو جگہ نہیں رہے گی۔
چوہدری صاحب بولے: وہ اولڈ ہوم بنانا چاہتے ہیں‘ جہاں یہ سب بزرگ‘ جنہیں ان کے گھر والوں نے ناکارہ قرار دے دیا ہے‘ عزت سے زندگی کے آخری دن بسر کر سکیں۔
چوہدری صاحب بولتے رہے اور ہم سب دم بخود سنتے رہے۔ کوئی اور یہ بات بتاتا تو شاید یقین نہ کرتے۔ یہ بات انور عزیز چوہدری بتا رہے تھے‘ جو اس علاقے سے ہیں اور ان کی وہاں بڑی عزت ہے۔ انہوں نے بتایا کہ معاشرہ بدل گیا ہے اور اب دیہات بھی بدل رہے ہیں۔ 
مزید کہا کہ وہاں ایسے بچوں کے لیے بھی ایک اچھے انسان نے ادارہ بنایا ہوا ہے جنہیں لوگ رات کے اندھیرے میں سڑک پر چھوڑ دیتے ہیں۔ ان بچوں کے لیے مسائل پیدا ہو رہے ہیں کہ ان کی ولدیت میں کس کا نام لکھا جائے۔ نادرا ابھی تک اس مسئلے کا حل نہیں ڈھونڈ سکی۔ مجھے یاد آیا کہ ایک بار صدر زرداری نے حکم دیا تھا کہ ایسے بچوں کے والد کے خانے میں صدر پاکستان کا نام لکھا جائے۔ مجھے نہیں پتہ اس پر عمل ہوا کہ نہیں۔ 
چوہدری انور عزیز یہ داستانیں سناتے رہے اور ہم سب دم بخود اور غمزدہ ہو کر سنتے رہے کہ اب ہمارے ہاں بھی اولڈ ہومز بنیں گے۔ ویسے اب بن ہی جانے چاہئیں... کب تک ہم اپنے آپ کو چھپائیں گے۔ کب تک مشرقی روایات کے نام پر جھوٹ بولیں گے۔ 
چوہدری انور عزیز بول رہے تھے اور ہم سب‘ جو انہیں سن رہے تھے‘ نے غیرمحسوس انداز میں ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ ہمارے اندر بھی یہ خوف ابھرا کہ ہمیں بھی کسی دن شاید کہا جائے گا کہ جناب آپ تشریف لے جائیں‘ آپ کی ضرورت نہیں رہی۔ ہم‘ جو کبھی مغرب کو طعنے دیتے نہیں تھکتے تھے‘ اب خود اولڈ ہومز کی ضرورت محسوس کر رہے ہیں...! 
یاد آیا صدیوں سے رواج چلا آ رہا ہے کہ جب گھوڑا بوڑھا ہو جائے اور بار دانہ لانے کے قابل نہ رہے‘ تو مالک کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو، دکھی دل سے ہی سہی لیکن اسے گولی مار دیتا ہے...! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved