تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     11-11-2015

سیکھا‘ تو گئے کام سے!

کنگ خان یعنی شاہ رخ خان نے بہت پتے کی بات کہی ہے۔ شاہ رخ کی بیٹی سہانا اداکاری سیکھنے کی خواہش مند ہے‘ مگر مسئلہ یہ ہے کہ اداکاری سکھانے کا کوئی معیاری ادارہ موجود نہیں‘ یا کم از کم شاہ رخ تو ایسا ہی سمجھتے ہیں۔ 
یہ تو بڑی مشکل ہو گئی۔ بالی وڈ کے سپر سٹار کی بیٹی اداکاری سیکھنا چاہتی ہے‘ اور کہیں اس کے حساب کتاب کا کوئی ادارہ ہی نہیں۔ اب سہانا کہاں جائے؟ کیا یورپ کا رخ کرے؟ شاہ رخ خان نے اس کا اچھا علاج ڈھونڈ نکالا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ بھارت میں اداکاری سکھانے کا ایک بڑا اور معیاری ادارہ قائم کریں گے۔ شاہ رخ خان نے تھیٹر سے اداکاری کے اسرار و رموز سیکھے۔ دہلی میں تھیٹر کی روایت مضبوط ہے۔ کمرشل ازم کے ساتھ ساتھ فن کی باریکیوں پر بھی بہت دھیان دیا جاتا ہے۔ تھیٹر سے شاہ رخ نے ٹی وی کی دنیا میں قدم رکھا‘ اور اس کے بعد ان پر فلمی دنیا کے دروازے کھلے۔ تھیٹر میں جو کچھ بھی سیکھا تھا‘ وہ اب تک شاہ رخ کے کام آ رہا ہے۔ شاہ رخ اپنا تجربہ نئی نسل کو منتقل کرنا چاہتے ہیں۔ وہ اداکاری کا معیاری سکول قائم کرکے نئی نسل کو اداکاری کے گُر سکھانے کے خواہش مند ہیں۔ 
کنگ خان ''تلمیذالرحمٰن‘‘ ہیں یعنی جو کچھ بھی سیکھا ہے، اپنے طور پر سیکھا ہے۔ کام کے دوران ہی ان کے فن میں نکھار پیدا ہوتا گیا۔ یہ بڑے حوصلے کی بات ہے کہ کوئی اپنے طور پر بہت کچھ سیکھے۔ ہر کسی کا اتنا ٹمپرامنٹ نہیں ہوتا۔ 
ہمارے خیال میں شاہ رخ خان نے سوچا تو درست ہے مگر ایسی درست سوچ کی فی الحال ضرورت نہیں۔ شاہ رخ اگر اپنی بیٹی کو اداکاری سکھانا چاہتے ہیں تو انہیں ممبئی سے باہر دیکھنا پڑے گا۔ اور اِدھر اُدھر کیا، اپنے آبائی شہر یعنی دہلی کی طرف دیکھیں تو اچھا ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے، بھارت میں اداکاری سکھانے کے بہترین ادارے عوام کے تعاون سے چلائے جاتے رہے ہیں۔ یہ ہیں منتخب جمہوری ادارے! دہلی کی راج نیتی پوری کی پوری اداکاری پر مشتمل ہے‘ اور مرکزی دھارے کے سیاست دانوں سے بہتر اداکاری کوئی کرکے دکھائے تو مانیں! 
پچاس ساٹھ سال قبل بھارت کے سیاست دان بالی وڈ کے فنکاروں سے اداکاری سیکھتے تھے۔ فلموں کے ذریعے وہ عوام کا سامنا کرنے کے گُر سیکھا کرتے تھے۔ پھر کچھ ایسا ہوا کہ سیاست دان سیکھ ساکھ کر آگے نکل گئے‘ اور فلمی دنیا کے لوگ جمہوری اداروں اور سیاست دانوں کو دیکھ کر اپنے فن میں پختگی کا گراف بلند کرنے لگے۔ 
ویسے اداکاری کوئی ایسا فن نہیں جو سکھایا جا سکے۔ آپ نے یہ شعر تو سنا ہی ہو گا ؎ 
بات یہ ہے کہ آدمی شاعر 
یا تو ہوتا ہے یا نہیں ہوتا 
کچھ ایسا ہی معاملہ اداکاری کا بھی ہے۔ انسان اندر سے اداکار نہ ہو تو باہر سے اداکار نہیں ہو سکتا۔ شاہ رخ خان سے زیادہ یہ بات کون جان سکتا ہے؟ مگر اداکاری سکھانے کی بات کرکے کنگ خان نے بالی وڈ ہی کے ایک بنیادی اصول کی نفی کی ہے۔ بالی وڈ میں لوگ کام کرتے جاتے ہیں اور سیکھتے جاتے ہیں۔ شاہ رخ خان کی شخصیت بھی اسی طور پروان چڑھی ہے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ شاہ رخ کی اداکاری ایک شیلف کی طرح ہے جس میں مختلف موضوعات پر رنگارنگ کتابیں سجی ہوئی ہیں۔ بہت سے لوگ شاہ رخ کو مکس پلیٹ سمجھتے ہیں۔ کبھی ان کی اداکاری میں یوسف خان صاحب یعنی دلیپ کمار کی فلسفیانہ و خطیبانہ اداکاری کا رنگ جھلکتا ہے۔ کبھی وہ راج کپور کی طرف سادہ و معصوم سے دکھائی دینے لگتے ہیں۔ کبھی ان میں وہی شوخی اور کھلنڈرا پن نظر آتا ہے جو دیو آنند کا خاصہ ہوا کرتا تھا‘ اور بعض اوقات وہ اچھل کود پر مبنی اداکاری کے جوہر دکھانے میں شمی کپور کے نقوشِ قدم پر چلنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔ دوسروں کا رنگ اس قدر چڑھ گیا ہے کہ شاہ رخ خان کی اپنی اداکاری کا رنگ کہیں گم ہو کر رہ گیا ہے۔ مگر خیر، مکس پلیٹ بن جانا ہی ان کے لیے کامیابی کی ضمانت بھی ٹھہرا ہے! شاہ رخ اپنی بیٹی کو اداکاری تو نہیں سکھا سکتے‘ مگر اتنا ضرور سکھا سکتے ہیں کہ اپنے طور پر اداکاری کس طرح سیکھی جا سکتی ہے! 
پاکستان میں اداکاری سکھانے کا تجربہ ناکام رہا ہے‘ مثلاً چند اداروں نے اداکاری سکھانے کی کوشش کی تو انتہائی تھکی ہوئی اداکارانہ صلاحیتوں کے حامل افراد سامنے آئے۔ جو لوگ اپنے آپ میں فنکارانہ صلاحیتیں پاتے ہیں اور انہیں پروان چڑھانے کی کوشش کرتے ہیں وہ بہت کچھ کر جاتے ہیں۔ یہی حال گلوکاری کا ہے۔ جو گانا شروع کر دیتے ہیں وہ کسی نہ کسی طرح گاتے چلے جاتے ہیں۔ سیکھ کر آنے والے گا نہیں پاتے‘۔ اور جو اپنی محنت سے اچھا گانا سیکھ بھی لیں تو سکھا نہیں پاتے۔ صحافت میں بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ جامعات کی سطح پر صحافت پڑھ کر آنے والے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ ان میں سے بیشتر میڈیا کے اداروں پر بوجھ ہی ثابت ہوئے ہیں۔ جو لوگ اللہ کا نام لے کر میڈیا کے میدان میں قدم رکھ دیتے ہیں وہ کچھ نہ کچھ کردکھاتے ہیں۔ اور اگر کچھ اور نہ آئے تو (بقول راؤ عمران) ہماری طرح کے ''قلمچی‘‘ بن کر کالم نگاری تو کر ہی لیتے ہیں! 
ہم تو چاہیں گے شاہ رخ دہلی کے منتخب جمہوری اداروں سے اپنی بیٹی کو اداکاری سیکھنے کی تحریک دیں۔ ویسے وہ اگر اداکاری سکھانے کا کوئی معیاری ادارہ قائم کرنا ہی چاہتے ہیں تو دہلی میں قائم کریں کیونکہ کچھ مدت سے دہلی والوں کی اداکاری ماند پڑی ہوئی ہے۔ بھارتی سیاست دان اداکاری کے حوالے سے خاصی بھونڈی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ وقت آ گیا ہے کہ انہیں اداکاری کے اسرار و رموز نئے سِرے سے سکھائے جائیں۔ اداکاروں کو اداکاری نہ آتی ہو تو کوئی فرق نہیں پڑتا، کام چلتا رہتا ہے۔ جیتیندر، دھرمیندر، شتروگھن سنہا، چنکی پانڈے، متھن چکرورتی اور دوسرے بہت سے اداکار اس فن کو زیادہ یا بہتر طور پر نہ جانتے ہوئے بھی کچھ نہ کچھ کرکے اپنے گھر کا چولھا جلتا رکھنے میں کامیاب رہے۔ سیاست میں ایسا نہیں ہوتا۔ اس میں اداکاری ناگزیر ہے۔ اگر اداکاری نہ آتی ہو یا بھونڈی آتی ہو تو گاڑی زیادہ دور نہیں چلتی اور بالعموم انجن بیچ چوراہے پر سیز ہو جاتا ہے! 
اس میں کوئی شک نہیں کہ اداکاری اور سیاست دونوں ہی شعبوں سے وابستہ افراد ایک دوسرے سے سیکھتے رہتے ہیں۔ بالی وڈ میں اداکاری اچھی خاصی در آئی ہے اور دہلی والے اداکاری کا دامن مضبوطی سے تھامے ہوئے ہیں۔ لوگوں کو یہ بات بہت پسند آئی ہے۔ اداکاری‘ اور اداکاری کی دنیا میں قدم قدم سیاسی رنگ نظر آتا ہے اور سیاسی سرگرمیوں میں اداکاری کا تناسب اتنا بڑھ گیا ہے کہ ایک ٹکٹ میں دو مزے والا معاملہ سچ ہو گیا ہے۔ فلمی دنیا جلسہ گاہ کا منظر پیش کر رہی ہے اور جلسوں میں لوگ فلمیں دیکھ رہے ہیں! 
سہانا اگر اداکاری سیکھنا ہی چاہتی ہے‘ تو یہ بات اچھی طرح سمجھ لے کہ بعض فنون کو سیکھنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ انہیں نہ سیکھا جائے! اداکاری بھی ایک ایسا ہی فن ہے۔ یہ سیکھنے کی نہیں، کسی نہ کسی طور کر دکھانے کی چیز ہے۔ سہانا کسی اور کی طرف دیکھنے سے پہلے اپنے بابا جانی ہی کو دیکھ لے۔ وہ اگر واقعی اپنے بابا کی بیٹی ہے تو ان پر رحم کرے۔ اداکاری سیکھنے کی خواہش کا اظہار کرکے انہیں مشکل میں نہ ڈالے۔ بیٹی کی فرمائش پوری کرنے کے لیے شاہ رخ خان کو اداکاری سکھانے کا ادارہ قائم کرنا پڑ جائے، یہ تو زیادتی ہے۔ اگر ایسا ہوا تو ''گھور انرتھ‘‘ ہو جائے گا، بالی وڈ کی فلموں میں پائی جانے والی رنگا رنگ اداکاری روانگی ڈال دے گی۔ یہ سارا میلہ اِسی بنیاد پر تو ہے کہ لوگ کچھ سیکھ کر نہیں آتے اور کیمرے کے سامنے کھڑے ہو کر کسی نہ کسی طور پرفارم کر جاتے ہیں۔ اگر یہ لوگ سیکھ کر آنے لگے تو ''فی البدیہہ‘‘ اداکاری کا سارا لطف جاتا رہے گا! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved