ایک ماہ میں چار بار ہفتے کا دن آتا ہے اور ایک سال میں اوسطاً حساب لگایا جائے تو ہفتے کے پچاس دن بنتے ہیں اور یہ پچاس دن مرکزی حکومت کی جانب سے جاری کئے گئے حکم کے تحت تعطیل کا دن ہوتا ہے۔ اگر مسلم لیگ نواز کی حکومت یہ سمجھتی ہے کہ ایک دن کی تعطیل سے ملک اور قوم کو نا قابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے تو پھر ان سے پوچھا جا سکتا ہے کہ ایک سال میں پچاس دن کی تعطیل کرنے سے ملک اور قوم کو جو نقصان اب تک ہو چکا ہے اور آگے چل کر ہو گا، اس کی ذمہ داری کس پر ڈالی جائے؟بات یوم اقبال کے حوالے سے ایک دن کی تعطیل کی نہیں تھی، جس کے ہونے سے نہ تو کاروبار زندگی متاثر ہو جانے تھے اور نہ ہی ملک کے خزانوں نے لٹنے سے رک جانا تھا، شکوک اس لئے ابھر رہے ہیں کہ پاکستان بھر کے پرائیویٹ تعلیمی اداروں نے یوم اقبال کی منا سبت سے9 نومبر کو سکول بند کرنے کا اعلان کر دیا تھا جو نہ جانے کیوں مرکزی حکومت کیلئے عزت و وقار کا مسئلہ بن گیا۔ نجی تعلیمی اداروں کے مالکان کو حکومتی اعلیٰ افسران کی جانب سے فون پر اور دفاتر میں بلا کر دھمکیاں دی گئیں کہ اگر آپ لوگوں نے 9 نومبر کو علامہ اقبال کی منا سبت سے اپنے تعلیمی اداروں میں چھٹی کی تو سخت کارروائی کی جا ئے گی ۔ پہلے مرکزی حکومت کی وزارت داخلہ کی جانب سے نو ٹیفکیشن جاری کیا گیا کہ یوم اقبال پر کوئی تعطیل نہیں ہو گی۔ اس کے بعد بار بار مسلسل دو دن تک ٹی وی چینل کو با خبر رکھا جاتا رہا کہ کوئی تعطیل نہیں ہو گی۔ اسی پر بس نہیں، سندھ اور پنجاب حکومت
کے بعض وزرا کی جانب سے دن بھر میڈیا کو خبریں جا ری کی جا تی رہیں کہ9 نومبر کو تعطیل نہیں ہو گی، تعلیمی ادارے اور سرکاری دفاتر معمول کے مطا بق کھلے رہیں گے۔ بات ایک دن کی تعطیل کی نہیں کیونکہ سندھ میں بے نظیر بھٹو کی شہادت کے حوالے سے بھی تعطیل کی جا تی ہے، سوال یہ ہے کہ اسے اپنی انا کا مسئلہ بنا کر سات اور آٹھ نومبر کو سندھ اور پنجاب کے وزراء خم ٹھونک کر میدان میں کیوں اترآئے تھے کہ تمام سکول کھلے رہیں گے، ان میں کوئی تعطیل نہیں کرے گا۔ ایسا لگتا ہے کہ علامہ اقبالؒ سے شاید کوئی خطا ہو گئی، جو ان سب حکمرانوں کو ناراض کر گئی ہے۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے علامہ اقبالؒ نے مسلمانوں کیلئے علیحدہ ریا ست کے قیام کا خواب دیکھنے کے بعد اسے حقیقت بنانے کیلئے قائد اعظم محمد علی جناحؒ کو انگلینڈ سے ہندوستان واپس آنے کیلئے قائل کیا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگوں کو آج یہ اعتراض ہو رہا ہو کہ علامہ اقبال نے ایسا کیوں کیا تھا ۔ اگر علامہ اقبال قائد اعظم کو برطانیہ سے انڈیا واپسی کیلئے مجبورنہ کرتے تو شاید آج پاکستان موجود نہ ہوتا۔جمعیت علمائے ہند اور سرحدی گاندھی کی سوچ بھی لگتا ہے ان لوگوں جیسی ہی تھی، اسی لئے وہ پاکستان بننے کی بھر پور مخالفت کرتے رہے۔ پاکستان میں بھی آج وہ وقت آگیا ہے کہ ایک جانب نریندر مودی ہماری سالمیت اور عقیدے سے کھیلنے کی کوششیں کر رہا ہے تو دوسری جانب اپنے وطن کے کچھ حلقوں نے پاکستان کا تحفہ دینے والی سب شخصیات کے حوالے سے ہتک آمیز رویہ اختیار کر لیا ہے۔ اسلام آباد اور اس کی اتحادی تین صوبوں کی حکومتیں یوم اقبال کی تعطیل کے خلاف اس طرح خم ٹھونک کر میدان میں آ گئیں،جیسے 9 نومبر کو اگر پاکستان میں تعطیل کا اعلان کر دیا جاتا تو ایک قیا مت ٹوٹ پڑنا تھی، کوئی بہت بڑا زلزلہ آ جانا تھا، کوئی ناگہانی تباہی آ جانی تھی ۔وزیر تعلیم سندھ نثار کھوڑو کی جانب سے سرکاری اور نجی ٹی وی چینلز کو آٹھ نومبر کو رات گئے تک وقفے وقفے سے بتایا جا رہا تھا کہ سندھ کے تمام تعلیمی ادارے کھلے رہیں گے، کوئی چھٹی نہیں دی جائے گی۔ سندھ میں یوم اقبال کی تعطیل ختم کرنے کی وجہ تو سمجھ میں آتی ہے کہ آج کی پیپلز پارٹی اپنے بانی ذوالفقار علی بھٹو سے وابستہ تمام چیزوں کو ختم کرنے کے مشن پر گامزن ہے۔ چونکہ پیپلز پارٹی کے بانی چیئر مین ذوالفقار علی بھٹو نے ہی پاکستان میں علامہ اقبال کے یوم پیدائش پر سب سے پہلے قومی تعطیل کا اعلان کیا تھا اور اس کیلئے علامہ اقبال کے سو سالہ یوم پیدائش پربا قاعدہ جشن منا یا گیاتھا، اس لیے اسے بھی ختم کرنا اس کے لیے ضروری تھا۔سمجھ نہیں آتی کہ پیپلز پارٹی کی حالیہ قیادت کا اپنے بانی ذوالفقار علی بھٹو اور مسلم لیگ نواز کی موجودہ قیادت کا نظریہ پاکستان کے وارثوں کے ساتھ اس طرح کا سلوک کیوں ہے؟
بات ایک دن کی تعطیل کے ہونے یانہ ہونے کی نہیں،بات یہ دیکھنے کی ہے کہ آج علامہ اقبال کی شخصیت کو قوم میں متنازعہ کیوں بنا کر رکھ دیا گیا ہے؟ کیا علامہ محمد اقبالؒ ملک میں عام تعطیل کے لیے ضروری معیار پر پورا نہیں اترتے؟گیارہ ستمبر حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کا یوم وفات ہے۔ اس دن کی تعطیل، جوہمیشہ سے حکومت پاکستان کی گزیٹڈ تعطیلات کا حصہ رہی، بھی ایک دن اچانک ختم کر دی گئی۔ اس سے پہلے یوم دفاع پاکستان، چھ ستمبر کو قومی تعطیلات کی فہرست سے خارج کر دیا گیا تھا۔ کہا جارہا ہے کہ 25 دسمبر کو قائد اعظم کے یوم پیدائش پر کی جانے والی عام تعطیل بھی ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا تھا، لیکن ملک کی ایک اہم ترین حکومتی اور سیا سی شخصیت کا یوم پیدائش بھی چونکہ25 دسمبر ہے، ا س لئے اس دن کی جانے والی تعطیل کا فیصلہ بر قرار رکھا گیا،ورنہ ہو سکتا ہے کہ حضرت قائد اعظم کے یوم پیدائش کی مناسبت سے کی جانے والی تعطیل بھی یہ کہتے ہوئے ختم کر دی جاتی کہ اس سے ملک کی معیشت کو نا قابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔
کچھ لوگ یوم اقبال پر نہ کی جانے والی تعطیل سے چند سال پہلے بھارت سے آئے ہوئے صحافیوں اور دانشوروں کے اعزاز میں آواری لاہور میں کی گئی ایک تقریر کا تعلق جوڑنے کی بھی کوشش کر رہے ہیں، جس میں نظریہ پاکستان کا یہ کہتے ہوئے مذاق اڑایا گیا تھا کہ دونوں جانب ایک جیسے لوگ ہیں، ایک جیسا ہی کھاتے ہیں، مجھے بھی آلو گوشت پسند ہے اور بھارتی بھی آلو گوشت شوق سے کھاتے ہیں، دونوں جانب سوائے ایک لکیر کے اور کچھ بھی نہیں ۔۔۔۔ اس تقریر اور اس کے متن پر کچھ کہنے کے بجائے یہ تو پوچھا جا سکتا ہے کہ جناب والا! اپنی حکومت میں بجلی کی بچت کیلئے آپ نے ہفتے کا دن بھی چھٹی کیلئے مخصوص کر رکھاہے اور اس طرح ایک ماہ میں چار اور سال میں اوسطاً پچاس چھٹیاں آپ اپنے ذاتی مقصد کیلئے قوم کو دے رہے ہیں، تو سال بھرمیں حضرت علامہ محمد اقبالؒ کے یوم پیدائش پر کی جانے والی ایک مستقل قومی تعطیل سے آپ کا کیا بگڑ جانا تھا۔ بات ایک دن کی قومی تعطیل کی نہیں ہے، یہ نظریہ پاکستان اور خطبہ الہ آباد کی داستان ہے جو مسلمانوں کو گوشت کھانے کے جرم سے قتل ہونے سے بچاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔
یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے جہاں لا الہ الااﷲ