تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     12-11-2015

اللہ رحم کرے

فوج پرعزم دکھائی دیتی ہے کہ براہِ راست وہ اقتدا رنہیں سنبھالے گی لیکن اگر اس کا احتجاج بے سود رہا؟ بے حسی اگر اسی شان سے باقی رہی تو ظاہر ہے کہ آویزش بڑھے گی او رکوئی فیصلہ انہیں صادر کرنا ہوگا، ایک فیصلہ کن معرکے میں جو اپنی شہادت جیتے جاگتے لہو سے رقم کر رہے ہیں ۔ اللہ رحم کرے ۔
فوجی افسر سے میں نے پوچھا: وزیرِ اعظم کو علیحدگی میں توجہ دلانے کی بجائے آپ نے پریس ریلیز کیوں جاری کیا؟ اس کا جواب یہ تھا: آپ کا خیال یہ ہے کہ ملاقاتوں میں بار بار درخواست نہیں کی گئی ؟ پھر اس نے سوالات کی بوچھاڑ کر دی ۔ فاٹا پر قائم کمیٹی کب سے سرگرداں ہے ۔ وہ اس سوال کا جواب کیوں نہیں ڈھونڈ سکی کہ قبائلی علاقے کو الگ صوبے کا درجہ دینا ہے یا پختون خوا میں ضم کرنا ہے ۔ وزیرستان سے ہجرت کرنے والوں کے لیے حکومت کے پاس فنڈز کیوں نہیں ؟ ان میں سے آدھے لوگ کراچی جا پہنچے ہیں ۔ آئے دن اسحٰق ڈار اعلان فرماتے ہیں کہ ضربِ عضب پہ اتنا روپیہ خرچ ہوچکا۔ کیا وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ یہ غیر ضروری اخراجات ہیں ؟ بجلی کمپنیوں کے بارے میں تو ایسی کوئی بات وہ کبھی نہیں کہتے ۔
آف دی ریکارڈ ہی مگر اپناموقف فوجی افسر واضح الفاظ میں بیان کرتے ہیں ۔ غیر محتاط اظہارِ خیال سے اگرچہ وہ گریز کرتے ہیں۔ وزرائِ کرام کے برعکس ،جن سے شکایات پربات کی جائے تو بعض اوقات وہ مغلظات بکنے لگتے ہیں ۔ اس نے کہا : حضور !بے چارہ آرمی چیف صرف یہ کہہ رہا ہے کہ براہِ کرم اپنے حصّے کا کام کرو۔ ہمارے پاس لامتناہی وقت موجود نہیں ۔ ٹھیک ایک برس کے بعد 29نومبر 2016ء کو انہیں سبکدوش ہوجانا ہے ۔ 
پھر اس نے کہا: انتہا پسندوں کے ساتھ حکمران پارٹی کے تعلقات ہیں ۔ ان لوگوں کو احساس ہی نہیں کہ جرم اور انتہا پسندی کا باہم رشتہ ہے ۔ کل کے غنڈے آج ایک نظریے کا پرچم اٹھاکر دہشت گرد بن چکے ۔ 
کل ایک مسلم لیگی اخبار نے ''ممنوعہ جماعتیں حکومت میں ‘‘ کے عنوان سے یہ لکھا ہے '' ان تنظیموں کے 500امیدوار بلدیاتی نظام کا حصہ بن گئے ہیں،جو پابندی کی زد میں ہیں ۔ 2000نشستوں سے پانچ سو امیدواروں کو انتہا پسند وں کی حمایت حاصل تھی ۔ یہ ایک خطرناک صورتِ حال ہے ۔ اعلانیہ طور پر ان امیدواروں کی حمایت کیے بغیر عملی حمایت کے ساتھ دہشت گرد جماعتوں نے وہاڑی ، لودھراں ، چکوال ، فیصل آباداور بھکر میں زبردست کامیابی حاصل کی ہے ۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ الیکشن کمیشن کی ناکامی آشکار ہو تی جا رہی ہے ۔ امیدواروں کے کوائف جانچنے کا کوئی نظام اس کے پاس موجود نہیں ۔ ان کے کاغذات کا جائزہ لے کر وہ تصدیق کی مہر ثبت کر دیتاہے ۔ اس نظام کو بہتر بنانے کی ضرور ت ہے ۔ اسے خفیہ ایجنسیوں کی مدد حاصل ہونی چاہیے ۔ حکومت جب عوام کے مسائل حل کرنے میں ناکام رہتی ہے تو اس خلا کو انتہا پسند پر کیا کرتے ہیں ‘‘۔ 
وزیرِ اعظم تو کچھ اور کہہ رہے ہیں ۔بجلی کے ایک منصوبے کا افتتاح کرتے ہوئے منگل کے روز انہوں نے بتایا کہ نہ صرف انہوں نے کرپشن کا خاتمہ کر دیا ہے بلکہ اب ترقیاتی کام وہ ایک تہائی کم قیمت پر انجام دیتے ہیں ۔ یہ ایک حیرت انگیز واقعہ ہے۔ قوم اور افواجِ پاکستان کی قیادت کو اس پر انہیں 21توپوں کی سلامی پیش کرنی چاہیے ۔ کیا اس سے پہلے انسانی تاریخ میں کبھی یہ واقعہ رونما ہو اہے کہ جو سڑک دس ارب روپے میں بن سکتی ہو ، وہ سات ارب میں مکمل کر دی جائے ؟ کیایہ ایک ششدر کرنے والا واقعہ نہیں ؟کیا اس پر سو روزہ قومی جشن کا اہتمام نہیں ہونا چاہیے ؟ 
فوجی افسر نا خوش رہا اور اس نے میری کوئی بات نہ سنی ۔ اس نے کہا: کل آپ خود ہی ارشاد فرما رہے تھے کہ پولیس کی حالت ویسی ہی دگرگوں ہے ۔ ملک بھرمیں کوئی ایک پولیس سٹیشن بھی نہیں ، کل کے مقابلے میں آج جو ذرا سابہتر ہوا ہو (پھر آپ یہ سوال پہ سوال کیوں داغ رہے ہیں ۔) وزارتِ داخلہ اعلان فرماتی ہے کہ جماعت الدعوۃ پر پابندی ہے ۔ اس کی خبر اب نشر نہیںکی جا سکتی ۔ اگلے ہی دن پیمرا وضاحت کرتاہے کہ اس بارے میں وہ کچھ نہیں جانتا۔ یہ کیسی حکومت ہے؟ کل ایک چینل پر ایک محترمہ یہ ارشادفرما رہی تھیں کہ اگر پاکستان ملٹری اکیڈمی کو تالا لگا دیاجائے تو مسئلہ حل ہو جائے گا‘‘۔ فوجی افسر کو شاید یہ معلوم نہیں تھا کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے انتخاب میں حکمران مسلم لیگ نے ان کی پشت پناہی کی تھی ۔ 
میڈیا کو اندازہ نہیں کہ فوجی افسر سخت صدمے کا شکار ہیں ۔ ان کاکہنا یہ ہے کہ فقط لائوڈ سپیکروں پر پابندی عائد کرنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ مدارس میں اصلاحات کے لیے ابھی پہلا قدم بھی نہیں اٹھایا گیا، جہاں انتہا پسندی کی تعلیم دی جاتی ہے ۔ ان مدارس کے سرپرست حکومت کا حصہ ہیں ۔ خاص طور پر مولانا فضل الرحمٰن ، جن کا ایک نیم خواندہ سا نمائندہ اسلامی نظریاتی کونسل کا سربراہ ہے ۔ خود عالی جناب کشمیر کمیٹی کے چیئرمین ہیں ؛ حالانکہ آزادیٔ کشمیر کی جدو جہد سے ان کا کوئی رشتہ نہیں اور سب جانتے ہیں کہ دہشت گردوں کی اکثریت خودان ہی کے مکتبِ فکر سے تعلق رکھتی ہے ۔ان کے ہم نفس مولانا سمیع الحق تو فخریہ طور پر خود کو بابائے طالبان کہلواتے ہیں۔ 
وزیرِ خزانہ اسحٰق ڈار کے باب میں خاص طور پر حیرت کا اظہار کیا جاتاہے ، طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود جنہوں نے انسدادِدہشت گردی کے ادارے نیکٹا کے لیے فنڈز جاری نہیں کیے۔ '' ضربِ عضب کے اخراجات کا وہ بہت چرچاکرتے ہیں ۔ وہ رقوم کی فراہمی سے انکار ہی کیوں نہیں کر دیتے کہ ٹنٹا ختم ہو ‘‘ اس آدمی نے کہا۔ نیکٹا کا سیکرٹریٹ ابھی تک فعال نہیں ہو سکا۔ آلات فراہم نہیں کیے گئے۔ چیک پوسٹوں کو بہتر نہیں بنایا گیا۔ سول حکومت اگر اسی طرح لا تعلق رہی تو یہ جنگ کس طرح جیتی جائے گی ؟ وہ سوال کرتے ہیں ۔ 
حکمران جماعت کا ردّعمل قابلِ فہم نہیں ۔ اس سے ہمدردی رکھنے والے اخبار نویس اشارے کنایے میں اور کبھی کھل کرعسکری قیادت کی تردید کرتے ہیں ۔ بعض اوقات تو مذاق اڑاتے ہیں ۔ ٹی وی مذاکروں میں ان کے ترجمان اکثر تجاہلِ عارفانہ سے کام لیتے ہیں ''جی نہیں ، فوجی قیادت اور سول حکومت میں ہرگز کوئی فاصلہ نہیں ۔‘‘ وزیرِ اعظم سے ہمدردی رکھنے والے دانشور بات کومذاق میں اڑا دیتے ہیں ۔ ان میں سے ایک مشہور ٹی وی میزبان ، جس پر وزیرِ اعظم کے ذاتی احسانات ہیں اور جو ان کے ایماپرسفارت کاری کے فرائض انجام دیتاہے ، کل خوب چہچہا رہا تھا۔ وہ اس پر شادماں تھا کہ حکومت ا ورفوج کے درمیان اختلافات برقرار ہیں اورآئندہ بھی برقرار رہیں گے ۔ 
عسکری قیادت کی پریشانی کا سبب یہ نہیں کہ مرکز او رسندھ کی حکومتیں تساہل کا شکار ہیں ۔دراصل یہ کہ اس طرزِ عمل پر وہ مطمئن ہیں ۔ انجام کیا ہوگا؟ یہ کہنا مشکل ہے ۔ فوج پرعزم دکھائی دیتی ہے کہ براہِ راست وہ اقتدا رنہیں سنبھالے گی لیکن اگر اس کا احتجاج بے سود رہا؟ بے حسی اگر اسی شان سے باقی رہی تو ظاہر ہے کہ آویزش بڑھے گی او رکوئی فیصلہ انہیں صادر کرنا ہوگا، ایک فیصلہ کن معرکے میں جو اپنی شہادت جیتے جاگتے لہو سے رقم کر رہے ہیں ۔ اللہ رحم کرے ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved