جب سے یہ ملک بنا ہے، حکمران طبقے کی پالیسیاں معاشرے کو محروم اور محکوم کرنے کا باعث ہی بنی ہیں۔ سوائے 1968-69ء کے بعد کے چند سالوں کے، جب انقلاب نے ریاست کو جھنجھوڑکر رکھ دیا تھا، معاشی پالیسیوں کا مقصد محکوم عوام کے استحصال میں اضافہ ہی رہا ہے۔ آج بھی اعداد و شمار کے ہیر پھیر، سامراجی آقائوں کی ریٹنگ اور دوسری جعل سازیوں کے باوجود یہ اقتصادی غلامی بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ حکمرانوں نے ''ملک و قوم‘‘کے نام پر عوام میں شاونزم اور تعصب پیدا کر کے خود بھی بہت لوٹا ہے اور سامراجی آقائوں کی ڈاکہ زنی کے راستے بھی ہموار کئے ہیں۔
سامراجی مالیاتی اداروںا ور ملٹی نیشنل اجارہ داریوں کی لوٹ مار میں کمشن ایجنٹ کا کردار ادا کرنے والے حکمران اپنے میڈیااور اہل دانش کے ذریعے عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ سامراجی ممالک کی ''امداد‘‘ ہماری ترقی کے لئے بہت ضروری ہے۔ مغربی ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کے مہنگے اسلحے اور انسانی بربادی کے جدید آلات کو ''قومی وقار‘‘ اور ''دفاع‘‘ کے لئے ناگزیر قرار دیا جاتا ہے۔ سامراجی قوتیں بھی اپنے اسلحے، امداد اور قرضوں کے لئے پاکستان جیسے تیسری دنیاکے ممالک کو ترساتی ہیں۔ پھر جب ایسی کوئی ڈیل طے پا جاتی ہے تو عوام میں ان عالمی ڈکیتوں کی احسان مندی کی نفسیات پیدا کرائی جاتی ہے۔ کارپوریٹ میڈیا کے ذریعے سامراجی قوتوں اور ان کے اداروں کی تعظیم اور عظمت کا درس پورے سماج کو دیا جاتاہے۔ جب یہ آقا یہاں نازل ہوتے ہیں تو ان کے استقبال پر غریب عوام کے کروڑوں اربوں روپے لٹا دئیے جاتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ سامراجی ساہوکار امداد نہیں، قرضے دیتے ہیں۔ 1950ء کی دہائی میں امریکی سامراج نے بغیر سود کے کچھ گرانٹس دی تھیں لیکن یہ ''امداد‘‘ سرد جنگ کے تناظر میں سوویت یونین کے خلاف پاکستانی ریاست کو اپنا حلیف بنانے اور یہاں سرمایہ دارانہ نظام کو تقویت دینے کے لئے تھیں۔ مقصد، پاکستان کو سامراجی لابی کا حصہ بنا کر یہاں استحصالی ڈھانچے کو مستحکم بنانا تھا۔دوسرے الفاظ میں یہ ''بغیر سودکے امداد‘‘بھی دور رس سرمایہ کاری تھی جس میں جکڑ کے کئی ہزار گنا منافعے یہاں سے نچوڑنے کا عمل اب تک جاری ہے۔
گزشتہ کچھ عرصے سے ''پاک چین دوستی‘‘ کے تحت چینی سرمایہ کاری کا شور بھی خوب مچایا جارہا تھا۔ اب یہی حکمران خود تسلیم کر رہے ہیں کہ 46ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کوئی خیرات نہیں ہے بلکہ اس سے چینی سرمایہ دار نہ صرف بے پناہ منافع ہتھیاکر لے جائیں گے بلکہ 27فیصد تک سود بھی پاکستانی عوام کو بھرنا پڑے گا۔ اس نظام میں جہاں انسانوں کے رشتے پیسے کی ہوس کے بغیر بن یا بگڑ نہیں سکتے وہاں سرمایہ دارانہ ریاستوں کے درمیان مالی مفادات سے عاری کوئی معاہدہ کیسے طے پا سکتا ہے؟ یہ ''امداد‘‘ اور ''سرمایہ کاری‘‘ کسی ملک کی معاشی مدد کے لئے نہیں بلکہ اس کو مزید لوٹنے کے لئے ہوتی ہے۔
پاکستان نے پچھلے 68سال میں جتنے قرضے حاصل کئے ہیں اس سے کہیں زیادہ پیسہ سود اور منافعوں کی مد میں باہر بھیجا گیا ہے لیکن قرضوں کا حجم ہے کہ بڑھتا ہی چلا جارہا ہے۔ 2008ء کے بعد سے مجموعی ریاستی قرضہ تین گنا ہو چکا ہے اور 16فیصد سالانہ کی شرح سے بڑھ رہا ہے۔صرف پچھلے دو سال کے دوران اس قرضے میں 32ہزار ارب روپے (22فیصد)اضافہ ہواہے۔فی الوقت یہ قرضہ 17 ہزار ارب روپے پر کھڑا ہے لیکن اسحاق ڈار صاحب چونکہ سیاہ کو سفید بنانے میں خاصی شہرت رکھتے ہیں لہٰذا وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ حقیقی قرض اس سے کہیں زیادہ ہو گا۔وفاقی آمدن کا 52فیصد ان قرضوں پر سود کی ادائیگی پر خرچ کیا جا رہا ہے۔آئی ایم ایف سے 502ملین ڈالر کا نیا قرضہ لینے کے لئے 40ارب روپے کے مزید ٹیکس عوام پر لگانے کے لئے پر تولے جا رہے ہیں۔ جوںجوں عالمی سرمایہ داری کا بحران بڑھ رہا ہے، سامراجی اداروں کے قرضوں کی شرائط اور سود بھی اتنا ہی تلخ ہوتا جا رہا ہے۔
اگر عالمی منڈی کا جائزہ لیا جائے تو معیشت میں سست روی سے جہاں تیل اور دوسرے خام مال کی قیمتیں کم ہوئی ہیں وہاں دو ایسی صنعتیں ہیں جن کی قیمتوں اور منافعوں میں مسلسل اضافہ ہی ہو رہا ہے: اسلحہ سازی اور کاسمیٹکس۔ پاکستان کو جو ایف 16طیارے اور دوسرے جنگی آلات امریکی آقا احسان کر کے دیتے ہیں وہ لاک ہیڈ مارٹن اور General Dynamicsجیسی امریکہ کمپنیاں فروخت کرتی ہیں۔ ان جنگی آلات کی قیمتوں میں پچھلی دو دہائیوں کے دوران تین ہزار فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ اس نظام زر میں خرید و فروخت کے معاہدے صرف معاشی واردات ہی نہیں کرتے ہیں بلکہ سیاست بھی انہی کی تابع ہوتی ہے۔ امریکی کانگریس میں سب سے زیادہ مضبوط اور مہنگی لابی اسلحہ ساز صنعت کی ہے۔ تمام سامراجی ممالک کی خارجہ پالیسیاں ان کارپوریٹ اجارہ داریوں کے مفادات کے تحت مرتب کی جاتی ہیں، انہی کے منافعوں سے جنگیں برپا کی جاتی ہیں اور خانہ جنگی یا پراکسی لڑائی جاتی ہیں۔
بیرونی سرمایہ کاری یا FDI کو بھی تیسری دنیا کے ممالک کے تمام مسائل کا تریاق قرار دیا جاتا ہے۔ پاکستان کی حد تک، تو جماعت اسلامی سے لے کر تحریک انصاف اور مسلم لیگوں سے لے کر پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم تک، تمام پارٹیوں کے معاشی پروگرام کی بنیاد ہی بیرونی سرمایہ کاری ہے۔ گزشتہ دنوں حکومت نے بیرونی سرمایہ کاروں کو 100 فیصد منافع بلا روک ٹوک ملک سے باہر لے جانے کی یقین دہانی کروائی ہے۔ اسی طرح ٹیکسوں میں چھوٹ، لیبر قوانین کے خاتمے اور محنت کے استحصال میں اضافے کی پالیسیاں ان سرمایہ کاروں کو خوش کرنے کے لئے نافذ کی جاتی ہیں اور اس ''بزنس فرینڈلی‘‘ رویے پر حاوی سیاست میں سے کسی کو اعتراض نہیں ہوتا۔ لیکن لوٹ مار کی کھلی چھوٹ کے باوجود بیرونی سرمایہ کاری نہیں ہو رہی، سب اپنا پیسہ دبائے بیٹھے ہیں کیونکہ ان کو اپنے نظام کی صحت یابی کا کوئی یقین نہیں۔ لیکن پہلے سے موجود سرمایہ کاری کے منافعوں میں ہوشربا اضافے ہو رہے ہیں۔ سٹیٹ بینک کی تازہ رپورٹ کے مطابق اس سال ایک ارب 63 کروڑ ڈالر کے منافعے ان ملٹی نیشنل اجارہ داریوں نے ملک سے باہر بھیجے ہیں جو پچھلے سال کی نسبت دو گنا ہیں۔ ان میں غذائی کمپنیوں نے 15.3 ملین ڈالر، تھرمل بجلی گھروں کی کمپنیوںنے 14.5 ملین ڈالر، کاروں کی کمپنیوں نے 44.4 ملین ڈالر، سیمنٹ کمپنیوں نے 66.9 ملین ڈالر، تیل اور گیس وغیرہ کی کمپنیوں نے 139 ملین ڈالراور مالیاتی اداروں نے 421 ملین ڈالر منافعوں کی مد میں پاکستان سے باہر بھیجے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ ''جائز‘‘ طریقے سے باہر منتقل کیا جانے والا سرمایہ ہے، غیر قانونی طریقہ ہائے کار سے سرمائے کی پرواز کا اندازہ گزشتہ دنوں شہرت پانے والے ایک کیس سے ہی لگایا جا سکتا ہے جب پانچ لاکھ ڈالر صرف ایک سوٹ کیس میں سمگل کئے جا رہے تھے۔
تیسری دنیا میں ''امداد ‘‘ کی مد میں آنے والا ہر ایک ڈالر اپنے ساتھ 20 ڈالر کھینچ کے لے جاتا ہے اور ملٹی نیشنل اجارہ داریاںسرمائے کی اس پرواز میں بنیادی کردار ادا کرتی ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے پہلی بار برسر اقتدار آکر جب 1972ء میں بڑے پیمانے پر نیشنلائزیشن کی تھی تب بھی سامراجی اجارہ داریوں کو ہاتھ تک نہیں لگایا گیا تھا۔اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سامراجی زنجیروں کی جکڑ اس ریاست اور معیشت پر کتنی مضبوط ہے۔ اس لئے یہ سوچنا کہ اس نظام میں رہتے ہوئے کوئی ترقی یا خوشحالی آئے گی، محض خود فریبی یا دھوکہ دہی ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام میں اسی عالمی منڈی کا مطیع ہونا پڑے گا جس پر سامراجی بھیڑیوں کا راج ہے۔ یہاں کا حکمران سرمایہ دار طبقہ ایک جدید صنعتی معاشرہ تعمیر کرنے میں ناکام رہا ہے۔چوری، کرپشن اور سامراجی اجارہ داریوں کی گماشتگی ہی ان کا تاریخی کردار ہے۔استحصال در استحصال کے اس گھن چکر سے نجات کا واحد راستہ سامراجی اثاثوں، بھاری صنعت، زراعت اور بینکاری کی مکمل نیشنلائزیشن اور بیرونی قرضوں کی ادائیگی سے مکمل انکار ہے۔ معیشت کو محنت کش طبقے کے جمہوری کنٹرول میں دے کر ہی اس ملک میں پیدا ہونے والے بیش بہا دولت کو یہاں کے عوام کی ضروریات کے تحت سماجی خوشحالی اور ترقی کے لئے بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔یہ اقدامات غیر معمولی ضرور ہیں، نا ممکن نہیں۔ لیکن حقیقی معنوں میں انسانی سماج کی تعمیر کا یہ تاریخی فریضہ محنت کش طبقے کو ہی سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ادا کرنا ہو گا۔