تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     12-11-2015

آئندہ امریکی صدارتی الیکشن

امریکہ میں نہ کوئی میثاق جمہوریت ہے اور نہ ہی کوئی این آر او۔ اس کے باوجود جمہوریت ٹھیک چل رہی ہے؛ البتہ صرف ایک خرابی ہے کہ امریکہ میں میثاق جمہوریت کی عدم موجودگی کی وجہ سے اہلیان امریکہ اٹھارہویں ترمیم سے محروم ہیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ امریکی صدر دو سے زیادہ مرتبہ صدر نہیں بن سکتا۔ امریکی آئین سترہ ستمبر 1787ء کو تیار کیا گیا، اور اس کی منظوری اکیس جون 1788ء کو ہوئی، یعنی امریکی آئین کو بنے دو سو ستاون سال ہو چکے ہیں۔ اُن دو سو ستاون سالوں میں توثیق شدہ ترمیمات کی تعداد محض ستائیس ہے۔ توثیق شدہ سے مراد وہ آئینی ترمیم ہے، جو کانگریس اور سینیٹ کی منظوری کے بعد ریاستوں سے بھی مطلوبہ منظوری حاصل کر لے؛ تا ہم کئی معاملات پر ترمیمات ابھی تک زیر غور ہیں یا زیر التوا ہیں۔ ایک ترمیم جو ''کانگریشنل اپوزیشن منٹ امینڈمنٹ‘‘ کہلاتی ہے، 1789ء سے زیر التوا ہے۔ ترمیم کی منظوری کے لیے چونکہ وقت کی کوئی حد مقرر نہیں لہٰذا یہ ترمیم ابھی تک منظوری سے قبل کے مراحل میں ہی ہے کہ اس کے لیے مطلوبہ تعداد میں ریاستوں کی حمایت حاصل نہیں ہو سکی۔ اس پر چونکہ ابھی تک رائے شماری نہیں ہوئی لہٰذا نہ ہی یہ منظور ہوئی ہے اور نہ ہی مسترد، لہٰذا زیر التوا ہے۔ ایسی ہی دیگر بے شمار ترمیمات اسی قسم کی صورتحال کا شکار ہیں۔ امریکی آئین میں پہلی تین ترمیمات کا تعلق ''آزادی کے تحفظ‘‘ سے ہے۔ اس میں مذہب، تقریر، تحریر، صحافت، اجتماع اور عرضداشت کے حق کو تسلیم کیا گیا ہے۔ دوسری ترمیم ''فرد کے حقوق کے تحفظ‘‘ کے بارے میں ہے، جس کے تحت وہ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اسلحہ اٹھا اور رکھ سکتا ہے۔ تیسری ترمیم کے تحت فیڈرل گورنمنٹ زمانۂ امن میں کسی فرد کو اس کی رضا مندی کے بغیر اپنا گھر یا جائیداد افواج کو کرائے پر یا اپنی ملکیت میں لینے پر مجبور نہیں کر سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ ابھی تک پورے امریکہ میں کوئی سی ڈی اے، ایل ڈی اے، ایم ڈی اے اور ڈی ایچ اے نہیں ہے۔
امریکی آئین میں ترمیم کو توثیق کے لیے پچاس امریکی ریاستوں میں سے کم از کم اڑتیس ریاستوں کی منظوری درکار ہوتی ہے۔ ستائیسویں ترمیم سب سے زیادہ دیر تک زیر التوا رہنے والی ترمیم شمار ہوتی ہے۔ یہ ترمیم اپنی منظوری اور توثیق سے قبل دو سو دو سال اور دو سو پچیس دن تک زیر التوا رہی۔1790ء میں پیش ہونے والی یہ ترمیم 1992ء میں منظور ہوئی۔ اس کے علاوہ دوسری زیادہ عرصہ تک زیر التوا رہنے والی بائیسویں ترمیم تھی، جو تین سال، تین سو تینتالیس دن کے بعد منظور ہوئی۔ سب سے کم وقت میں منظور ہونے والی چھبیسویں ترمیم سو دن میں منظور ہو کر آئین کا حصہ بنی۔ ستائیسویں ترمیم کو نکال کر دیگر چھبیس ترمیمات کی منظوری کا اوسط دورانیہ ایک سال دو سو باون بنتا ہے۔ اگر ستائیسویں ترمیم کو شامل کریں تو یہ اوسط دورانیہ نو سو سال اڑتالیس دن بنتا ہے۔ مطلب یہ نہیں کہ امریکہ میں کسی حکومت کو کبھی بھاری مینڈیٹ نہیں ملا، بلکہ وہاں آئین میں ترمیم کا ایک طریقہ کار ہے اور اس پر سختی سے عمل کیا جاتا ہے۔ پورے طریقہ کار میں کہیں کسی چیز کو بائی پاس نہیں کیا جاتا۔ اکثریت کے زور پر معاملات کو بلڈوز نہیں کیا جاتا اور بھاری مینڈیٹ کے زور پر کسی جمہوری صدر نے اپنی مرضی اور منشا کی تکمیل کی غرض سے کوئی ترمیم منٹوں میں منظور نہیں کروائی۔ یہ معجزے صرف ہمارے ہاں ہوتے ہیں۔ 
اب تک امریکہ میں ستاون بار صدر منتخب ہوئے ہیں تا ہم ایک صدر چار مرتبہ اور پندرہ صدر دو مرتبہ منتخب ہو چکے ہیں۔ اس طرح ستاون صدارتی ادوارمیں کل بیالیس افراد بطور امریکی صدر گزر چکے ہیں۔ اس حساب سے اوباما پینتالیسواں صدر ہے ، لیکن امریکی صدور کی لسٹ میں اوباما کا نمبر چوالیسواں ہے۔ گروورگلیولینڈ دو مختلف بار صدر بنا، یعنی وہ بائیسواں صدر بھی تھا اور چوبیسواں بھی لہٰذا وہ دوبار صدر گنا جاتا ہے۔ 1789ء میں جارج واشنگٹن امریکہ کا پہلا صدر منتخب ہوا۔ دو سو چھبیس برسوں میں چار امریکی صدر دوران صدارت طبعی موت مرے، چار صدر قتل ہوئے اور ایک صدر، رچرڈنکس نے استعفیٰ دیا۔ ولیم ہنری ہیریسن محض بتیس روز صدر رہا جبکہ فرینکلن ڈی روزویلٹ سب سے زیادہ عرصہ صدر رہا۔ وہ بارہ سال سے زیادہ عرصہ صدر رہا اور چوتھی مرتبہ صدر بننے کے فوراً بعد اس کی موت واقع ہو گئی تھی۔ روز ویلٹ امریکی تاریخ کا واحد صدر ہے، جو دو مرتبہ سے زیادہ بار امریکہ کا صدر رہا؟ تا ہم ایک آئینی ترمیم کے ذریعے امریکی صدر کے لیے دو مرتبہ سے زائد خواہ وہ وقفے کے بعد ہی کیوں نہ صدر بنے، پابندی لگا دی گئی۔ ادھر ہم نے اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے کسی بھی شخص کے لیے تیسری ،چوتھی ، پانچویں بار وزیر اعظم بننے پر پابندی ختم کر دی۔ اس ترمیم کے نتیجے میں میاں نواز شریف تیسری بار وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ ان کی موجودہ کارکردگی دیکھیں تو حیرانی ہوتی ہے کہ کیا انہیں وزیر اعظم بنانے کے لیے یہ ترمیم کی گئی تھی؟
امریکہ میں صدر کا انتخاب بڑی پیچیدہ صورتحال کا نام ہے۔ امیدوار بننے سے پہلے بھی اور بعد میں بھی۔ صدارت کا امیدوار بننے سے پہلے کا مرحلہ بڑا مشکل اور صبر آزما ہے۔ امریکہ میں دو پارٹی سسٹم ہے مگر یہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن والا دو پارٹی سسٹم نہیں ہے بلکہ حقیقی 
دو پارٹی سسٹم ہے۔ تیسری کسی پارٹی کا وجود ہی نہیں۔ ملکی سلامتی کے مسئلے پر نہ صرف یہ دونوں پارٹیاں بلکہ سارے امریکی ایک پلیٹ فارم پر ہیں مگر اندرونی پالیسیوں کے اعتبار سے یہ دونوں پارٹیاں دو بالکل مختلف نظریات کی حامل ہیں۔ ڈیموکریٹک پارٹی اور ری پبلکن پارٹی کے درمیان تقسیم خاصی نمایاں ہے۔ ڈیموکریٹک پارٹی لبرل جبکہ ری پبلکن پارٹی قدامت پسندوں کی نمائندگی کرتی ہے بلکہ اب تو اس پارٹی میں ریڈیکل گروپ نے سب کو یرغمال بنا لیا ہے۔ ری پبلکن پارٹی اب تقریباً ویسی ہی صورت حال کی نمائندگی کرتی محسوس ہو رہی ہے، جیسی بھارت میں بی جے پی ہے۔ امریکی صدارت کا امیدوار بننے سے پہلے اپنی پارٹی کی جانب سے ایک طویل اور صبر آزما مرحلہ درپیش ہوتا ہے اور ہر پارٹی کے ممبران ایک مرحلہ وار طریقے سے اپنے امیدوار کا انتخاب کرتے ہیں۔ یہ ''امریکی صدارتی پرائمری‘‘ کہلاتے ہیں اور انتخاب سے تقریباً ایک سال پہلے شروع ہو جاتے ہیں۔ آج کل امریکہ میں یہی پرائمری ہو رہے ہیں۔ فی الوقت ان میں ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف سے ہلیری کلنٹن اور ری پبلکن پارٹی کی طرف سے ڈونلڈ ٹرمپ اپنے اپنے حریفوں سے آگے جا رہے ہیں۔
اوباما اپنی دوسری صدارتی مدت بیس جنوری 2017ء کو پوری کر کے وائٹ ہائوس سے رخصت ہو جائے گا۔ امریکی صدارتی انتخاب ہر چوتھے سال میں نومبر کے پہلے سوموار کے بعد آنے والے منگل کے روز ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے اگلا امریکی الیکشن 8 نومبر 2016ء کو ہو گا؟ تا ہم منتخب صدر بیس جنوری کو حلف اٹھائے گا۔ امریکہ میں منتخب ہونے والا ہر نیا صدر بیس جنوری کو حلف اٹھاتا ہے۔ اگر بیس جنوری کو اتوار ہو تو اگلے روز یعنی اکیس جنوری کو حلف اٹھاتا ہے۔ اس بار ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف سے پرائمری میں تین نمایاں امیدوار ہیں۔ ہلیری کلنٹن، مارٹن اومیلے اور برنی سینڈرز۔ ری پبلکن پارٹی میں امیدواروں کا جمعہ بازار لگا ہوا ہے۔ جیب بش، بن کارسن،ٹیڈکروز، جم گلمور، لنڈسے گراہم، مارکوروبیو اور ڈونلڈ ٹرمپ کے علاوہ دیگر آٹھ امیدوار بھی دوڑ میں ہیں، مگر فی الوقت ان میں ڈونلڈ ٹرمپ سب سے آگے جا رہا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ ری پبلکن پارٹی کے ریڈیکل گروپ کا نمائندہ ہے، جو مسلمانوں، تارکین وطن اور امریکہ دشمنوں کے بارے میں کسی رو رعایت کے قائل نہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ اسی قسم کی باتیں کر رہا ہے جس طرح نریندر مودی بھارت میں کرتا رہا ہے، لیکن بھارت کے برعکس امریکہ میں مذہبی جنونیوں کو ویسی عوامی پذیرائی نہیں ملتی جیسی گزشتہ انتخابات میں بھارت میں تھی۔ بقول شفیق ان جنونیوں کو برباد کرنے کے لیے ان کا اپنا جنون ہی کافی ہے کہ اب امریکہ جیسے ملک میں ذاتی تحفظ اور ملکی سلامتی کے علاوہ عام آدمی کسی تنگ نظری اور قدامت پسندی کا ساتھ دینے کے لیے تیار نہیں۔ ان کی قدامت پسندی اور تنگ نظری خود ان کی سب سے بڑی سیاسی دشمن ہے، اس کا پہلا شکار وہ خود بنیں گے کہ عوام اب ایسے لوگوں کو کسی صورت خود پر مسلط کرنے کے لیے تیار نہیں۔ 
ڈونلڈ ٹرمپ مسجدیں بند کرنے کے وعدے اور تارکین وطن کو دیس نکالا دینے کا اعلان کر رہا ہے۔ اگر وہ ری پبلکن پارٹی کا صدارتی امیدوار بن گیا، جس کے بارے میں اب بھی شبہ ہے، تو امریکہ میں تمام تارکین وطن، جن میں میکسیکن بہت بڑی تعداد میں ہیں اور فلوریڈا میں رہنے والے کیوبن، الیکشن کے سلسلے میں بڑا اہم کردار ادا کریں گے۔ امریکہ میں کئی ریاستیں واضح طور پر ڈیموکریٹس اور ری پبلکنز میں منقسم ہیں، مگر ایک دو ریاستیں اس سلسلے میں فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہیں اور فلوریڈا ایسی ہی ریاست ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی امیدواری کی صورت میں ری پبلکن پارٹی کو اس ریاست میں بڑی مار پڑ سکتی ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کا امکان خاصا معدوم نظر آتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved