ایک انگریزی روزنامہ میں اگلے روز محولہ بالا عنوان کے تحت ایک مضمون شائع ہوا ہے جس کے لکھنے والے ڈاکٹر احمر محبوب ہیں جو یونیورسٹی آف سڈنی میں سینئر لیکچرار ہیں۔ لسانی ترقی اور اقلیتی زبانوں کو محیط مسائل پر قابل قدر کام کر چکے ہیں‘ لکھتے ہیں: فرقہ وارانہ لسانی خطوط میں ڈوبے ملک پاکستان کو زبان سے متعلقہ اپنی حکمت عملیوں پر نظر ثانی کی شدید ضرورت ہے ‘اگر یہ ایک متحدہ ملک کے طور پر زندہ رہنے کی توقع رکھتا ہے۔ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس میں پاکستانی زبان بولنے والے لوگ نہیں رہتے‘ بلکہ سندھی‘ بلوچی‘ ہندکو‘ پنجابی اور پشتو وغیرہ بولنے والے لوگ بستے ہیں اور اردو بولنے والے۔ ہماری ان علاقائی اور فرقہ وارانہ زبانوں نے ہمیں تقسیم کر دیا ہے۔ اردو قومی زبان کے طور پر ملک کے مختلف علاقوں میں بولی جاتی ہے لیکن کیا یہ ہمیں بطور ایک قوم کے یکسو کر سکی ہے‘ یہ ایک متنازع چیز ہے۔ ایک متحدہ قومی شناخت کے لیے ہمیں ایک ایسی زبان کی ضرورت ہے جو ہمیں متحد رکھ سکے۔ اس کا ایک طریقہ تو یہ ہو سکتا ہے کہ ایک نئی پاکستانی زبان پیدا کی جائے۔ یہ نئی زبان پاکستان میں دیگر زبانوں پر منحصر ہو گی اور ہر زبان سے استفادہ کر کے اور اسے ایک وحدت عطا کر کے مختلف مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے اور اسے پاکستان کی موجود زبانوں پر استوار کیا جائے جس سے لوگ مانوس ہیں او رجو تمام پاکستانیوں کی نمائندہ ہو گی‘ جبکہ یہ کوئی نئی چیز نہیں ہو گی بلکہ چین‘ انڈونیشیا ‘ جاپان‘ ملائشیا اور ترکی میں اس کا کامیاب تجربہ کیا جا چکا ہے۔ فلپائنو فلپائن کی قومی زبان ہے‘1970ء میں ایک پالیسی فیصلے کے بعد پیدا کی گئی تھی۔ اس کے علاوہ مضمون میں ایسی مزید مثالیں بھی پیش کی گئی ہیں ۔ اسے آپ بے شک اتفاق ہی سمجھ لیں کہ یہ وہ تھیسس ہے جو میں نے پندرہ بیس برس پہلے مقتدرہ قومی زبان کے رسالے میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں کیا تھا ۔بعد میں جناب عطش درانی نے زبان ہی کے حوالے سے شائع ہونے والی اپنی کتاب میں بھی اسے شامل کیا۔ یہ مضمون جو اب میری تصنیف ''لاتنقید‘‘ میں بھی شامل ہے جسے چند ماہ پیشتر سنگ میل پبلی کیشنز لاہور نے شائع کیا ہے۔ اس مضمون کے آخری حصے میں سے ایک اقتباس پیش خدمت ہے۔
''اس بات کو تسلیم کر لینے میں کوئی ہرج نہیں کہ آزادی کے پچاس سال بسر کرنے کے بعد بھی ہمارے ہاں ایک متحدہ قومیت کا تصور مضبوط نہیں ہو سکا ۔ بے شک سیاسی طور پر ان صوبوں کو یکجا رکھنے کے لیے پارلیمانی طرزِ حکومت کے سیاسی نظام کا تردد روا رکھا گیا ہے لیکن جہاں تہاں ملک کی نسبت صوبے کی سطح پر سوچ کی کارفرمائی زیادہ زور شور کے ساتھ موجود ہے‘ بلکہ اب تو حالیہ مخفی اور نظر آنے والی بعض تبدیلیوں کے پیش نظر پارلیمانی طرز حکومت بجائے خود خطرات میں گھری نظر آتی ہے ‘جبکہ ہمارے ازلی دشمنوں کی نظریں ہمیں فتح کرنے کی نسبت ہمیں تقسیم در تقسیم کر کے کمزور اور محتاج بنانے پر زیادہ لگی ہوئی ہیں اور اس سمت میں ان کی پیش رفت بھی مختلف سطحوں پر جاری و ساری ہے‘ اس صورتحال کا بھی یہی تقاضا ہے کہ ہمارے ہاں قومی یکجہتی کا تصور مضبوط اور توانا ہو سکے تاکہ ہم اندرونی اور بیرونی ‘ دونوں قسم کے خطرات سے عہدہ برآ ہونے کے قابل ہو سکیں۔ بے شک دینی اور ثقافتی لحاظ سے ہم ایک مضبوط رشتے میں منسلک ہیں لیکن اس کے باوجود ہمیں اب تک وہ یکسوئی میسر نہیں آ سکی ہے جو ہماری بقا کے لیے ضروری ہے۔ یہاں اس اندوہناک حقیقت کی یاد دہانی ضروری ہے کہ مشرقی پاکستان کے ساتھ ہمارے بنیادی رشتے میں دراڑ اس وقت پڑی جب وہاں اردو کو قومی زبان کے طور پر تھوپنے کی کوشش کی گئی جس کے نتیجے میں لسانی فسادات برپا ہوئے اور لاتعداد قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا۔ دین و مذہب اور ثقافت کے بعد اب ہمارے پاس زبان ہی کا ایک رشتہ باقی ہے جس کے ذریعے ہم اپنے آپ کو ایک دوسرے کے ساتھ مضبوطی سے باندھ سکتے ہیں اور وہ ہے اردو زبان ۔ لیکن اسے اوپر سے تھوپنے کی غلطی اگر دوبارہ کی گئی تو نتیجہ پھر منفی ہی نکلے گا‘ چنانچہ اس کا واحد طریقہ یہی ہو گا کہ اردو اور یہاں کی صوبائی اور مقامی زبانیں اردو کے لیے اپنا ئیت کا سامان کر سکیں۔ چنانچہ اس سے زیادہ ستم ظریفی کی بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ مختلف صوبوں میں رہنے والے ایک دوسرے کی زبان ہی نہ سمجھ سکیں۔ بے شک اردو کو ہمارے ہاں قومی زبان قرار دیا جا چکا ہے لیکن محض زبانی کلامی‘ کیونکہ اسے ابھی تک دفتری زبان بننے کی فضیلت حاصل نہیں ہو سکی اور یہ آدھا تیتر ‘ آدھا بٹیر ہو کر رہ گئی ہے۔ بے شک یہ صورت حال انگریزی کے حوالے سے ایک احساس کمتری کا نتیجہ ہی کیوں نہ ہو لیکن اس کے نقصان رساں اثرات کو بجا طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔
چنانچہ نابود اور مفقود ہوتی ہوئی قومی یکجہتی کو حاصل اور مضبوط کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس سلسلے میں جلد از جلد پیش رفت کے لیے منصوبہ بندی کی جائے جو کہ سرکاری اور اجتماعی طور پر ممکن ہے اور انفرادی طور پر بھی۔ سرکاری طور پر اس طرح سے کہ ہر صوبے میں دوسرے صوبوں میں بولی جانے والی زبانوں کی تعلیم کا اہتمام کیا جائے‘ حتیٰ کہ غیر سرکاری تعلیمی ادارے بھی اس کام میں برابر کے شریک ہوں۔ بین الصوبائی طور پر طلبہ اور اساتذہ کے تبادلوں علاوہ اس کام کو ایک تحریک کے طور پر شروع کیا جائے۔ علاوہ ازیں الیکٹرانک اورپرنٹ میڈیا میںاس تحریک کو مزید موثر طریقے سے روبراہ کیا جائے۔ اس سے صرف یہ نہیں ہو گا کہ مختلف صوبوں میں بولی جانے والی زبانیں ایک دوسرے کے قریب آئیں گی بلکہ لامحالہ طور پر صوبوں کے لوگوں کو حقیقی طور پر ایک دوسرے کے قریب آنے اور ایک دوسرے کے مسائل کو سمجھنے کا موقع ملے گا اور جس سے قومی یکجہتی کا وہ عظیم مقصد پورا ہونا ممکن ہو گا جس کا ابھی تک ہم خواب ہی دیکھ رہے ہیں۔
انفرادی طور پر یہ کام شاعروں اور ادیبوں کا ہے جو اپنی تخلیقات کو الفاظ کا جامہ پہناتے وقت اس بات کا خیال رکھیں کہ وہ چاروں صوبوں میں بولی جانے والی زبانوں کی زیادہ سے زیادہ آمیزش اس چابکدستی کے ساتھ کر سکتے ہیں کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی بچی رہے۔ یہ کام کچھ ایسا آسان بھی نہیں ہو گا لیکن اپنی بقا کے لیے اگر کسی مشکل کام میں ہاتھ ڈالنا پڑے تو مشکل چھوڑ‘ ناممکن کو بھی ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ ہر شخص اسے اپنی انفرادی ذمہ داری بھی سمجھے اور اس جہاد میں اپنا ذاتی حصہ ڈالنے پر تیار بھی ہو۔ اس ضرورت کا احساس و ادراک پیدا کرنے کے لیے حکومت اور میڈیا کی طرف سے ایک زور دار تحریک چلائی جا سکتی ہے جس میں غیر سرکاری ادارے اور افراد بھی شامل ہو کر اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔
اس کام کا یہ نامکمل سا خاکہ میں نے پیش کر دیا ہے اور جس میں یار لوگوں سمیت جملہ متعلقہ فریقوں کے لیے دعوت فکر و عمل کا بھی اپنے طور پر اہتمام کر دیا ہے۔ تاہم‘ اگر یہ کام مندرجہ بالا سطحوں پر شروع نہیں بھی کیا جاتا تو مجھے تو بہرحال یہ کام کرنا ہی ہے کیونکہ یہ میرے ہی شروع کردہ کام کا ایک ایسا بقایا حصہ ہے جس کے بغیر میرا تھیسس کسی منطقی نتیجے پر پہنچ ہی نہیں سکتا۔ میرا اپنا اندازہ بھی یہی ہے کہ یہ تحریک شاعری میں سب سے پہلے آغاز کرے گی اور آہستہ آہستہ پھیلنا شروع کرے گی کہ معلوم تاریخ ادب میں شاعری ہی ہمیشہ ہر اول دستے کے طور پر کارفرما رہی ہے۔ میں نے شروع میں کہا تھا کہ میں شاعری ہی کے حوالے سے بات کروں گا‘ تو یہاں بھی بات شاعری سے شروع نہ ہوتے ہوئے بھی شاعری ہی پر ختم ہو رہی ہے اور یہ بات میرے لیے بجائے خود اطمینان بخش ہے۔
واضح رہے کہ میں نے عملی طور پر بھی اس کا آغاز کر دیا تھا۔ میرے کلیات ''اب تک‘‘ کی چوتھی جلد میں 121غزلوں کی ایک کتاب''تحلیل‘‘ کے عنوان سے ایسی غزلوں پر مشتمل ہے جن میں میں نے تمام صوبائی زبانوں‘ بلوچی‘ سندھی‘ بلوچی‘ پشتو‘ ہند کواور پنجابی کے الفاظ التزام سے استعمال کئے ہیں اور مجھے خوشی اس بات کی ہے کہ اس موضوع پر اب اور آوازیں بھی اٹھنا شروع ہو گئی ہیں جو ڈاکٹر احمر کے مضمون کی شکل میں ہے اور جس کا ذکر شروع میں کیا جا چکا ہے‘ یعنی ؎
نظر کے سامنے رہتا ہے نقشہ اس عمارت کا
ظفر جس کے لیے ہم نے کبھی مسمار ہونا ہے
آج کا مطلع
ہماری نیند کا دھارا ہی اور ہونا تھا
یہ خواب سارے کا سارا ہی اور ہونا تھا