تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     12-11-2015

شیخ مجیب کو کس نے قتل کرایا؟

بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے بنگلہ دیش کی سر زمین پر کھڑے ہوکر حسینہ واجد کو یہ احساس دلایا کہ تمہاری وزارت عظمیٰ تمہارے باپ شیخ مجیب کی وجہ سے نہیں بلکہ ہماری وجہ سے ہے۔ مودی نے ڈھاکہ یونیورسٹی کے ہال میں طلبا، دانشوروں اور سینئر پروفیسروں کو مخاطب کرتے ہوئے، بڑے فخر سے، لگی لپٹے رکھے بغیر بتایا کہ آج ہم جس دھرتی پر کھڑے ہیں اور جس دیش کے مہمان کی حیثیت سے آپ لوگوں سے مخاطب ہیں اس کی آزادی اور تشکیل کے لیے بھارت کا کردار سب سے زیا دہ ہے؛ بلکہ سچی بات یہ ہے کہ بھارت ہی تھا جس نے سب سے پہلے اپنی کمانڈو فورس مکتی باہنی کی شکل میں پاکستانی فوجوں سے لڑنے کے لیے مشرقی پاکستان میں داخل کی۔ نریندر مودی جب بنگلہ دیش کی تخلیق کے لیے اپنی خدمات گنوا رہے تھے، حسینہ واجد کی حالت کچھ ایسی تھی جیسے وہ ابھی نریندر مودی کی جوتیوںکو ہاتھ لگا لے گی۔ 
یہ سچائی کسی نہ کسی دن کھل کر دنیا کے سامنے آ جائے گی کہ بنگ بندھو شیخ مجیب الرحمان جو تاج الدین احمد کے بعد بنگلہ دیش کو مکمل آزادی ملنے پر پہلے وزیر اعظم بنے، وہ دلی طور پر بھارت کی بالا دستی کے مخالف تھے، لیکن وہ مجبور تھے کیونکہ ان کی پاکستان میں نو ماہ سے زیا دہ قید اور بنگلہ دیش میں ایک سال سے زیادہ بھارتی فوج کی موجو دگی کی وجہ سے وہ فوری طور پر کچھ بھی کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھے۔ 9 جنوری 1972ء کو شیخ مجیب الرحمان نے لندن میں برطانوی وزیر اعظم ایڈورڈ ہیتھ کو واضح طور پر بتا دیا تھا کہ وہ مغربی پاکستان کے ساتھ کسی 
قسم کی ڈھیلی ڈھالی کنفیڈریشن کی بات بھی نہیں کر سکتے کیونکہ ایسا کرنے سے حالات ان کے ہاتھ سے نکل کر مسلح شدت پسندوں کے ہاتھوں میں چلے جائیں گے اور اگر بنگلہ دیش کے عوام کو ہلکا سا بھی تاثر ملا کہ مغربی پاکستان کے ساتھ معمولی سا تعلق رکھنے کا بھی کوئی پلان سوچا جا رہا ہے تو اس وقت جبکہ ہر طرف خون کے دریا بہائے جا رہے ہیں، اس طرح کی بات کے خلاف شدید رد عمل ہو گا اور بنگلہ دیش میں ایک نہ ختم ہونے والی خانہ جنگی شروع ہو جائے گی ۔ لندن میں شیخ مجیب سے تفصیلی ملاقات کے بعد برطانوی حکومت نے 13 جنوری 1972ء کو ایک خط کے ذریعے امریکی صدر رچرڈ نکسن کو با قاعدہ آگاہ کر دیا کہ شیخ مجیب بنگلہ دیش میں بھارت کے اثر و رسوخ اور مستقبل میں بنگلہ دیش میں بھارتی من مانیاں ٹھونسنے جانے کے خلاف ہیں۔ ایڈورڈ ہیتھ نے صدر نکسن پر واضح کر دیا کہ شیخ مجیب نے انہیں بتایا ہے کہ پاکستان روانگی سے پہلے بھٹو کو بتا دیا ہے کہ آپ کو اب یہ حقیقت تسلیم کر لینی چاہیے کہ ہم دو بھائی جو اکٹھے رہ رہے تھے، ان میں اب مکمل علیحدگی ہوچکی ہے، جس کا مطلب یہ ہے پاکستان دو حصوں میں آزاد ریا ست کی طرح تقسیم ہو چکا ہے۔ ٹائم میگزین کے کو گن (Coggin) نے امریکی حکام کو بتایا کہ میری مصدقہ اطلاع کے مطابق ہارون یوسف نے ہی جو نیو یارک میں انٹرکانٹی نینٹل ہوٹلز کے نائب صدر ہیں، شیخ مجیب الرحمان کو جیل سے رہائی کے بعد سب سے پہلے پاکستان سے برطانیہ جانے اور وہاں ایڈورڈ ہیتھ سے ملاقات کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ 
یوسف ہارون جو پاکستان کے بائیس امیر ترین خاندانوں میں ایک سے تعلق رکھتے تھے اور قائد اعظم محمد علی جناح کے پرسنل سیکرٹری کے طور پر ان کے ساتھ کام کرتے رہے تھے، لندن پہنچ گئے اور وہاں انہوں نے شیخ مجیب سے ملاقات کی اور اس دوران مستقبل میں پاکستان اور بنگلہ دیش کے مابین باہمی تعلق قائم رکھنے کے لیے کسی بھی ممکنہ منصوبے پر 
صلاح مشورہ کیا۔ انہیں خدشہ تھا تاج الدین جیسے لوگ جو مجیب کی قید کے دوران بنگلہ دیش کے وزیر اعظم بن گئے تھے اور پاکستان کے ساتھ جنگ میں بھارت کے لیے کام کرتے رہے تھے، وہ اور ان کا گروپ اس کی مخالفت کرے گا۔ اسی ملاقات میں دونوں لیڈروں نے لندن سے ڈھاکہ پہنچنے کے بعد مجیب پر ممکنہ قاتلانہ حملے کی موصول ہونے والی اطلاعات پر غورکیا لیکن آخر میں یہ فیصلہ ہوا کہ انہیں (مجیب) خطرات کے با وجود ڈھاکہ جانا ہو گا کیونکہ اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں تھا۔ اسی دوران 24 فروری 1972ء کو امریکن قونصلیٹ نے واشنگٹن کو خبر دیتے ہوئے بتایا کہ ''ایک بھارتی ایجنٹ‘‘ مجیب کو قتل کرنے کے لیے مقرر کر دیا گیا ہے اور اگر ایسا ہو گیا تو سب کچھ ختم ہونے کے بعد بد ترین خانہ جنگی شروع ہو جائے گی اور آخرکار بنگلہ دیش ایک بھارتی ریا ست میں بدل جائے گا۔ 
ابھی امریکی ادارے ایڈورڈ ہیتھ کی بھیجی ہوئی رپورٹ کے تجزیے میں مصروف تھے کہ 15 جنوری کو امریکہ سے شائع ہونے والے ٹائم میگزین کے ڈان کوگن کی اس رپورٹ نے سب کو ہلا کر رکھ دیا کہ '' شیخ مجیب الرحمان دلی طور پر پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان کسی نہ کسی قسم کا تعلق رکھنا چاہتے ہیں۔ شیخ مجیب کو خدشہ ہے کہ بھارت اپنی عادت سے مجبور ہو کر کسی بھی وقت بنگلہ دیش کو اپنے اندر ضم کرنے کی حرکت کر سکتا ہے، اس لیے اپنی سلامتی کے لیے اور بنگلہ عوام کی آزادی کے لیے اس کا پاکستان سے تعلق اور مذہبی بندھن رکھنا، جسے کوئی بھی نام دیا جا سکے، انتہائی ضروری ہے۔ امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے 
ٹائم میگزین کے کوگن کی اس رپورٹ کو خاص اہمیت نہ دی، لیکن اس نے19 جنوری1972ء کو کلکتہ میں امریکی قونصلیٹ جنرل سے خصوصی ملاقات میںاپنی سابقہ رپورٹ پر اصرارکیا ۔ اس نے صاف طور پر امریکیوں کو بتا دیا کہ اس کی یہ رپورٹ سنی سنائی پر مبنی نہیں بلکہ انہوں نے خود شیخ مجیب سے ڈھاکہ میں اور مغربی پاکستان کے سابق گورنر یوسف ہارون سے نیویارک میں ہونے والی ملاقات کے دوران اس بات کو محسوس کیا ہے۔ کوگن نے امریکیوں کو خبردار کیا کہ شیخ مجیب نے جب اس خواہش کا اظہار کیا تو ساتھ ہی اس نے کھل کر کہا کہ اگر بنگالی عوام کو میری اس دلی خواہش کی ذرا سی بھی بھنک پڑ گئی تو وہ مجھے زندہ نہیں چھوڑیں گے ۔
شیخ مجیب الرحمان نے کوگن سے درخواست کی اس کا یہ پیغام ذاتی طور پر امریکی ذمہ داروں تک پہنچادے کہ وہ بنگلہ دیش کی کھل کر معاشی مدد کریں اور اس طرح بنگلہ دیش کو بھارت اور روس کے اثر و نفوذ سے نجات دلائیں۔ شیخ مجیب نے بے بسی اور مایوسی کے لہجے میں بتایا کہ بھارتی حکام اسے مجبور کر رہے ہیں کہ بنگلہ دیش بھارت کے ساتھ ریلوے اور پلوں کی تعمیر کے لیے 100 ملین روپے کا معاہدہ کرے۔ اس طرح بھارت نو زائیدہ بنگلہ دیش کے خون سے اپنی معیشت کو ترقی دینا چاہتا ہے۔ شیخ مجیب نے اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ''یہ تو ابھی آغاز ہے، آگے چل کر بھارت ہمارے ساتھ نہ جانے کیا سلوک کرے، اس لیے میری جد و جہد اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک بنگلہ دیش کے گرد تانے گئے بھارتی جال سے اسے مکمل آزاد نہ کرا لوں‘‘۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved