تحریر : ارشاد احمد عارف تاریخ اشاعت     13-11-2015

اُلٹا چور کوتوال کو ڈانٹے

یہ 2013ء کے اوائل کی بات ہے سابق آرمی چیف جنرل(ر) اشفاق پرویز کیانی نے مدیران جرائد‘ اینکرز اور کالم نگاروں سے جی ایچ کیو میںتبادلہ خیال کیا ۔ان دنوں کراچی میں ٹارگٹ کلرز اور بلوچستان میں علیحدگی پسندوں نے قتل و غارت کا بازار گرم کر رکھا تھا اور فوج سے مداخلت کی اپیلیں کی جا رہی تھیں۔ حاضرینِ مجلس نے آرمی چیف سے پوچھا کہ کیا وہ کراچی یا بلوچستان میں فوج بھیجنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟''بالکل نہیں‘‘ جنرل کیانی نے دو ٹوک جواب دیا۔
کیانی صاحب نے کہاکہ سوات کا آپریشن ہمارے لیے سبق آموز ہے ۔تین سال گزر گئے ‘فوج اپنا کام مکمل کر کے سول انتظامیہ کی منتظر ہے کہ وہ آ کر اپنی ذمہ داریاں سنبھالے‘ دہشت گردوں کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنے والے عوامل کا خاتمہ کرے اور ان گرفتار مجرموں کو قرار واقعی سزا دے جو فوج کی تحویل میں ہیں مگر ہماری ہر تجویز‘ سفارش اور درخواست صدا بہ صحرا ثابت ہو رہی ہے ‘ہم آخر کب تک وہاں بیٹھ کر وہ کام کریں گے جو ہمارے کرنے کا ہے ہی نہیں۔
گزشتہ روز آئی ایس پی آراعلامیہ کے ذریعے سول حکومت کو اپنے جن فرائض کی یاد دہانی کرائی گئی وہ عام حالات میں بھی ہر اچھی حکومت کو ایمانداری اور سنجیدگی سے ادا کرنے چاہئیں مگر ہمارے ہاں کا دستور نرالا ہے۔ قصور کے قصبہ حسین خاںوالا میں درجنوں لڑکوں اور لڑکیوں سے جنسی زیادتی کے مرتکب درندوں کی گرفتاری بھی اس وقت عمل میںآئی جب سینکڑوں مرد و خواتین نے سڑکوں پر نکل کر احتجاج اور لاہور کی طرف مارچ شروع کیا۔ کسے یاد نہیں کہ کوئٹہ کی شدید سردی میں ہزارہ برادری سو سے زائد افراد کی لاشیں لے کر تین دن سڑکوں پر بیٹھی رہی مگر وفاقی اور صوبائی حکومت میں سے کسی کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی حتیٰ کہ حکمران جماعت کے رکن قومی اسمبلی ناصر شاہ مستعفی ہو گئے۔ سندر اسٹیٹ کے واقعہ سے بھی ہمارے سول اداروں کی نااہلی‘ بے حسی اور غفلت شعاری کا پتہ چلتا ہے مگر اصلاح احوال کی کوئی سنجیدہ کوشش ہوتی نظر نہیں آتی۔
فاٹا میں فوجی آپریشن کے بعد مسمار گھروں‘ سڑکوں‘ سرکاری دفاتر کی تعمیر اور انتظام و انصرام کی بحالی وفاقی اور صوبائی حکومت کا فرض ہے مگر ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ دہشت گردوں‘ ٹارگٹ کلرز ‘بھتہ خوروں اور ان کے سہولت کاروں کو سزائیں دینے کے لیے فوجی عدالتیں بن چکی ہیں مگر سندھ میں انہیں کیس نہیں بھیجے جا رہے ۔ کہیں جے آئی ٹیز نہیں بن رہیں اور کہیں کیس تیار ہونے کے باوجود سیاسی مصلحتیں چالان پیش کرنے میں آڑے آ رہی ہیں۔ رینجرزاور نیب بڑے مگرمچھوں پر ہاتھ ڈالنا چاہتے ہیں مگر وفاقی اور صوبائی حکومتیں ہر ممکن طریقے سے انہیں بچانے کے درپے ہیں اور فوج و رینجرز کو دیوار سے لگانے کی کوششوں میں مددگار نظر آتی ہیں۔
فوج کی یہ فطری خواہش ہے کہ جب وہ فاٹا کے مختلف علاقوں سے رختِ سفر باندھے تو رٹ آن سٹیٹ کو دوبارہ کوئی چیلنج نہ کر سکے۔ نااہل‘ کرپٹ اور ظالم پولیٹکل ایجنٹ قبائل سرداروں سے مل کر وہ حالات پیدا نہ کریں جو حکیم اللہ محسود‘ مُلاّفضل اللہ اور دیگر ان کے لیے سازگار ہوتے ہیں۔ ناانصافی جبر اور استحصال پر مبنی نظام نے محب وطن شہریوں میں مایوسی اور بے چینی پیدا کی اور اس کا فائدہ بھارت کے فرستادہ دہشت گردوں نے یوں اٹھایا کہ پاکستان کا نام لینا مشکل ہو گیا۔ اگر فاٹا کو دوبارہ انہی خونخوار درندوں کے سپرد کر کے فوج واپس آئی تو یقینا سارے کیے کرائے پر پانی پھر جائیگا مگر ڈیڑھ سال کے عرصے میں حکومت نے فاٹا اصلاحات پر بنیادی سوچ بچار تک نہیں کی ۔کمیٹی ... سپیکر کے الیکشن کے موقع پرجی جی جمال کو دستبردار کرانے کے لیے بنی ہے جس میں فاٹا سے تعلق رکھنے والا ایک بھی فرد شامل نہیں۔ یہ حکومت کی سنجیدگی کا ثبوت ہے۔ کراچی میں صورت حال اس سے کہیں زیادہ بدتر ہے اور ٹارگٹڈ آپریشن کو برملا چیلنج کرنے والے حکومت میں ہیں یا وفاقی حکومت کے حلیف ۔ بلدیاتی انتخابات کے بعد ان کی پوزیشن مزید بہتر ہو گی اور خدشہ یہ ہے کہ تازہ دم دہشت گرد‘ بھتہ خور اور ٹارگٹ کلرز ایک بار پھر شہر کا امن درہم برہم کرنے کے لیے سرگرم عمل ہوں گے‘ کیونکہ ابھی تک حالیہ گرفتار شدگان میں سے کسی کو سزا نہیں ملی۔وفاقیت کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو تمام ترقیاتی منصوبے پنجاب میں بن رہے ہیں اور بلوچستان و خیبر پختونخوا کو فنڈز کے اجرا میں روڑے اٹکائے جاتے ہیں۔ اپیکس کمیٹیوں کے فیصلے عملدرآمد کے منتظر ہیں مگر کسی کو فکر نہیں۔کراچی میں لیاری گینگ وار اور پنجاب میں کالعدم تنظیموں کے ارکان کو بلدیاتی ٹکٹوں کااجراء اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا۔
اب تک کارروائیوں اور گرفتاریوں کا سلسلہ فاٹا‘ کراچی اور بلوچستان میں چلا ہے جبکہ دہشت گردی کے بڑے واقعات پنجاب میں ہو چکے ہیں اور یہاں دہشت گردوں کے علاوہ ان کے سہولت کاروں کی موجودگی کا اعتراف اعلیٰ ترین سطح پر کیا جاتا ہے جبکہ گورننس کے معاملے میں بھی پنجاب دودھ کا دُھلا نہیں مگر کسی چھوٹی مچھلی اور بڑے مگرمچھ کے لیے کارروائی نہ ہونے کی وجہ سے پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے علاوہ دیگر متاثرین کو یہ پروپیگنڈا کرنے کا موقع مل رہا ہے کہ پنجاب کی فوج‘ اسٹیبلشمنٹ اور بالا دست قوتیں چشم پوشی سے کام لے رہی ہیں حتیٰ کہ نیب کی فائلیں درازوں سے نکلتے نکلتے پسینے سے شرابور ہو جاتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایک قومی ادارے کے طور پر فوج یہ الزام اپنے سر نہیں لے سکتی۔
وفاقی حکومت کی اپنی گورننس کا یہ عالم ہے کہ خارجہ ‘ دفاع اور قانون کی اہم ترین وزارتیں مستقل وزیر سے محروم ہیں اور دہشت گردوں ‘ ٹارگٹ کلرز اور بھتہ خوروں کے علاوہ اغوا کاروں کے خلاف بھر پور کارروائی میں اتنی بھی دلچسپی اور سنجیدگی نظر نہیں آتی جتنی سابق فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ چلانے میں دیکھی گئی۔ حکومت کے حامی یہ گلہ تو کرتے ہیں کہ پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ چلانے میں فوجی قیادت رکاوٹ ہے مگر اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں کہ 12اکتوبر کے غیر آئینی اقدام پر حکومت نے مقدمہ چلایا کیوں نہیں اور 3نومبر کی ایمرجنسی کو بنیاد بنا کر جو مقدمہ خصوصی عدالت میں بھیجا گیا ‘اس میں شریک ‘ مددگار اور سہولت کار ملزموں کو شامل نہ کرنے کا سبب کیا تھا؟ یوں اسے اگر پرویز مشرف کے خلاف انتقامی کارروائی سمجھا گیا تو اس میں غلط کیا تھا۔
آئی ایس پی آر کے اعلامیہ پر وفاقی حکومت کا جوابی بیان ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ کا آئینہ دار ہے۔ قومی اسمبلی میں محمود اچکزئی کی مخالفانہ تقریر کے بعد یہ بیان جاری ہوا اور اس میں یاد دلایا گیا کہ ''نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد تمام اداروں کی مشترکہ ذمہ داری ہے‘‘ بجا مگر فوج یا کسی دوسرے ادارے نے انکار کب کیا اور کوتاہی کے مرتکب کہاں ہوئے۔وہ تو اپنا فرض ذمہ داری‘ سنجیدگی اور لگن سے ادا کر رہے ہیں۔ عوام کو شکایت حکومت سے ہے کہ اڑھائی سال کے عرصہ میں لوٹ مار‘ ٹیکسوں کی بھر مار‘ مہنگائی ‘ بے روزگاری اور لاقانونیت کے علاوہ طاقتور اور بالا دستوں کے مظالم کے سواُ نہیں کچھ نہیں ملا۔ لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کے لیے کھربوں لٹائے جا چکے مگر وعدہ اب بھی 2018ء میں مکمل خاتمے کا ہے۔ جبکہ گردشی قرضوں کے نام پر پانچ سو ارب روپے وصول کرنے والوں کے مز ے ہیں اور گول مال کرنے والوں کے بھی جو حکمرانوں کی اردل میں نظر آتے ہیں۔
نظر یوں آتا ہے کہ باسی کڑھی میں پھر اُبال آئے گا۔ ہر طرح کے لوٹے‘ لٹیرے سول بالا دستی کے نام پر پارلیمینٹ کے مشترکہ یا خفیہ اجلاس کی صورت میں اکٹھے ہو کر ایک بار پھر فوج کو بے نقط سنائیں گے۔ سازشی کہانیاں بیان کی جائیں گی اور کفن چور مل جل کر اپنی نااہلی‘ لوٹ مار‘ ناقص طرز حکمرانی پر پردہ ڈالنے کے لیے سینہ کوبی کریںگے۔ خورشید شاہ ‘ رضا ربانی‘ فرحت اللہ بابر‘ محمود اچکزئی کی دیروزہ تقریریں اسی سلسلے کی کڑی تھیں مگر کیا عوام یقین کریں گے کہ کوتاہی کے مرتکب سویلین حکمران نہیں ‘ بلکہ شہدا کے وارث اور پاکستان کو بھیڑیوں سے نجات دلانے والے خاکی ہیں جو اپنے حصہ کا کام مکمل کر کے معاملات کی باگ ڈور سول انتظامیہ کے سپرد کرنا چاہتے ہیں مگر وہ تیار نہیں۔
2013ء میں جو شکایت جنرل کیانی کو تھی وہی اب جنرل راحیل شریف کو ہے مگر جائز شکایات کا ازالہ کرنے پر کوئی آمادہ نہیں ‘الٹا چور کوتوال کو ڈانٹ رہا ہے کہ ہماری کام چوری پر انگلی کیوں اٹھاتے ہو۔ہمارا اور اپنا اصل کام تم کرو ہمیں صرف وہ کرنے دو جس کے ہم عرصۂ دراز سے عادی ہیں۔ اسی کا نام گڈ گورننس اور پارلیمینٹ کی بالادستی ہے۔یہی جمہوریت کا حسن ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved