بھارتی وزیر اعظم نریندرمودی کے سرکاری دورہ برطانیہ سے قبل میرے ذہن میں چند سوالات آ رہے تھے۔ کیا انگریز اشرافیہ کسی ایسے شخص کی، جو میگنا کارٹا کا سب سے بڑا دشمن ہو، پزیرائی کرتے ہوئے شرمندگی محسوس نہیں کرے گی؟۔کسی ایسے شخص کو جو کرکٹ ایسے اشرافیہ کے کھیل کو انتہا پسندی کا شکار کئے جا رہا ہو، خوش آمدید کہا جائے گا؟ ایک ایسا شخص جس کے وزیر داخلہ اور جماعت کے سربراہ امیت شاہ کو69 افراد کے قتل میں براہ راست ذمہ دار قرار دیا گیا ہو اسے برطانیہ کی وکٹورین تہذیب قبول کرے گی؟ ایک ایسا شخص جو1969 ء سے 1973ء تک پانچ سال زیر زمین سرگرمیوں میں ملوث رہا ہو اسے برطانیہ کی پارلیمنٹ کے دونوں ایوان دارالامرا اور دارالعوام خوش آمدید کہنا پسند کریں گے؟ ایک ایسا شخص جو غیر ہندو کو کتے سے بھی بد تر سمجھے اسے برطانیہ کا مہذب معاشرہ قبول کر سکتا ہے؟۔
2013ء میں رائٹرز کو انٹرویو کے دوران2002ء میں گجرات کے مسلمانوں کے وسیع پیمانے پر ہونے والے قتل عام بارے پوچھے جانے والے سوال پر نریندر مودی نے کہا تھا'' یہ درست ہے کہ اس وقت میں گجرات کا وزیر اعلیٰ تھا لیکن اس قتل عام کی ذمہ داری مجھ پر نہیں بنتی۔ ذرا سوچئے کہ آپ ایک گاڑی میں بیٹھے ہوئے ہیں جسے ڈرائیور چلا رہا ہے اب اگر رستے میں وہ گاڑی کسی کتے کو کچلتے ہوئے گزر جاتی ہے تو اس میں پچھلی نشست پر بیٹھے ہوئے مالک کا کیا قصور ہے؟۔ دو سال بعد یہی الفاظ دس اکتوبر کو بھارت کے سابق آرمی چیف اور نریندر مودی کے وزیر مملکت وی کے سنگھ نے ہریانہ میں ہندو انتہا پسندوں کے ہاتھوں دلت بچوں کے سفاکانہ قتل پر میڈیا کے سامنے بڑے فخر سے کہے۔بھارتی وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے کے بعد نریندر مودی ستمبر2014ء میں امریکہ پہنچے۔ اُن کی آمد سے ایک روز قبل نیو یارک کی فیڈرل کورٹ سے مودی کو گجرات میں فرقہ وارانہ فسادات کرانے اور دو ہزار سے زائد مسلمانوں کے بہیمانہ قتل عام کے الزام میں عدالت طلبی کا نوٹس جاری ہوا تھا، جس کی پیروی انٹرنیشنل ہیومن رائٹس واچ کے ایشیا ایڈووکیسی کے ڈائریکٹر جان سٹیفن کر رہے ہیں ۔ایک ایسا شخص جو امریکی عدالت میں دہشت گردی کا ملزم ہو کس طرح عزت و احترام سے دیکھا جا سکتا ہے؟۔ جس دیش کا وزیر اعظم اور اس کی فوج کا ایک سپہ سالار کسی بھی غیر ہندو کو کتے کے برابر سمجھے اور مسلمان کے قتل کو گاڑی کے نیچے آنے والے کتے سے تشبیہ دے اس دیش کو سب سے بڑی جمہوریت کیسے کہا جا سکتا ہے؟۔امریکہ، برطانیہ سمیت تمام مغربی اور مہذب معاشروں میں کوئی مجرم یا ٹیکس چور عوامی نمائندگی کے کسی بھی مرحلے میں حصہ نہیں لے سکتا ۔2005ء میں گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام میں نریندر مودی کے مجرمانہ کردار پر امریکہ اور برطانیہ سمیت یورپی یونین نے اپنے اپنے ملکوں میں ان کے داخلے پر جو پابندی عائد کی تھی وہ اب کہاں گئی؟ نریندر مودی 9 سال کی عمر میں پرائمری سکول میں ہی انتہا پسند ہندو تنظیم راشٹریہ سیوک سنگھ کی ذیلی طلبا تنظیم ' 'اکھیل بھارتیہ ودیارتھی پریشد‘‘ میں شامل ہو گئے تھے۔ مسلمانوں سے ان کی گہری نفرت کو دیکھتے ہوئے آر ایس ایس نے جلد ہی انہیں مسلمانوں کے خلاف نفرت آمیز پمفلٹ تقسیم کرنے والے گروپ میں شامل کر لیا ۔ 18 سال کی عمرمیں گھر والوں نے مودی کی شادی تو کر دی لیکن تین ماہ بعد ہی وہ نئی نویلی دلہن کو چھوڑ کر گھر سے بھاگ گیا کیونکہ اس کے
بارے میں پورے گائوں میں مشہور ہو چکا تھا کہ وہ Celibate (برہمچاری) ہے ۔سسرال کی بڑی بوڑھی عورتوں اور گائوں کے مردوں کے طعنوں سے بھاگ کر وہ راج کوٹ میں رام کشن مشن میں شامل ہو گیا۔ کچھ عرصہ یہاں رہنے کے بعد پہلے 1970ء میںمغربی بنگال اور پھر ہمالیہ میں اپنی تنظیم آر ایس ایس کے زیر زمین لوگوں میں جا بسا، جہاں اس نے سخت تربیتی مراحل طے کئے۔ اس دوران مودی نے آر ایس ایس کیلئے انتہائی مشکل اور اہم ترین خدمات انجام دیں اور پھر انہیں ہمالیہ سے د ہلی بھجوا دیا گیا ۔نریندر مودی کی زندگی کے یہ پانچ سال جو انہوں نے مغربی بنگال اور ہمالیہ میں گزارے انتہائی پر اسرار سمجھے جاتے ہیں؛ کیونکہ مشہور ہے کہ موصوف نے اس عرصے میں گوریلا جنگ کی مہارت حاصل کرنے کے بعدراشٹریہ سیوک سنگھ کی ہدایات پر د ہشت گرد ی کے بہت سے خطرناک مشن مکمل کئے تھے جس پر وہ آر ایس ایس کی آنکھ کا تارا بن گئے ۔ 1974ء میں نریندر مودی نئی دہلی پہنچے لیکن ا ندرا گاندھی کی جانب سے بھارت بھر میں ایمر جنسی کے نفاذ کے ساتھ ہی سب سے پہلے آر ایس ایس پر پابندی عائد کر دی گئی تو دوسرے کئی لوگوں کی طرح مودی کو بھی 1975-77ء کے اس عرصے میں انڈر گرائونڈ رہنا پڑا۔ حالات معمول پر آتے ہی مودی نے دہلی یونیورسٹی سے پولیٹیکل سائنس میںگریجو ایشن اور پھر 1983ء میں گجرات یونیورسٹی سے ایم اے کر لیا ۔
راشٹریہ سیوک سنگھ کیلئے ان کی انجام دی جانے والی خطرناک مہمات اور سونپے جانے والے انتہائی خفیہ مشنوں میں کامیابیوں کو دیکھتے ہوئے1987ء میں اس کو آر ایس ایس کا آرگنائزنگ سیکرٹری اور پھر1995ء میں بھارتیہ جنتا پارٹی کا سیکرٹری نامز د کر دیا گیا۔1998ء میں نریندر مودی بھارتیہ جنتا پارٹی کے مرکزی سیکرٹری بنے اور پھر صرف تین سال بعد2001ء میں انہیں گجرات اسمبلی کے انتخابات کے موقعہ پر جنتا پارٹی نے کیشو بھائی پٹیل کی جگہ گجرات کی وزارت اعلیٰ کے لیے امیدوار نامزد کر دیا۔ موصوف نے گجرات کی وزارت اعلیٰ کی مسندسنبھالنے کے ایک ہی سال بعد2002ء میں اپنی نگرانی میں مسلمانوں کے خلاف گجرات کے بدنام زمانہ فسادات کروا کردو ہزار سے زائدمسلمان بچوں، عورتوں اورمردوں کو قتل کرایا۔ انہی فسادات نے انہیں ہندو ذہنیت کا بھگوان بنا دیا اور اسی ہندو سوچ نے 2014ء میں انہیں بھارت کے وزیر اعظم کی مسندپر لا بٹھایا۔
گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام کے ہر تحقیقاتی کمیشن کے بارے میں ہرپولیس افسر کا یہی کہنا تھا کہ اس وقت کی مودی حکومت اور ورلڈ ہندو کونسل کے مشتعل ہندوئوں کے بارے میں گجرات حکومت کا حکم تھا کہ ان میں سے کسی کو نہ تو روکا جائے اور نہ ہی ان کے خلاف کوئی ایکشن لیا جائے۔جس پولیس افسر کے حوالے سے یہ خبر سامنے آئی اسے دو دن بعد ہی نا معلوم افراد نے قتل کر دیا۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے آج بھی اپنے ارد گرد کسی اعتدال پسند شخص کی بجائے آر ایس ایس کے انتہا پسندوں کا ٹولہ اکٹھا کیاہوا ہے ۔اس کی کچن کیبنٹ اور انتہائی قریبی مشیران سب کے سب آر ایس ایس سے ہی لئے گئے ہیں۔امیت شاہ نے،جسے پہلے بھارتیہ جنتا پارٹی کا جنرل سیکر ٹری اور اب صدر بنا دیا گیا ہے اور جو مودی کی وزارت اعلیٰ میں گجرات کے وزیر داخلہ کی حیثیت سے پولیس کا سربراہ بھی تھا ، اپنے مذہبی اور سیا سی مخالفین کو سزا دینے کیلئے 2002ء سے2006ء کے دوران 22 جعلی پولیس مقابلے کروائے۔2004ء میں ہی اس نے عشرت جہاں اور اس کے تین ساتھیوں کودن دہاڑے قتل کرایا۔ مودی انتظامیہ نے اس مقدمے کو دبانے کی بہت کوشش کی لیکن معاملہ طول پکڑتا گیا جس پرمجبور ہو کر2010ء میں امیت شاہ کو وزارت سے استعفیٰ دینا پڑا۔ مودی نے امیت شاہ کو پہلے اترپردیش اور بعد میں مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی الیکشن مہم کا پول منیجر مقرر کیا تھا ۔بہار کے حالیہ ریاستی انتخابات کا نگران بھی امیت شاہ ہی تھا۔!