آپ ذرا ایسی دنیا کا تصور کریں جہاں نہ تو غیر ملکی امداد دستیاب ہو اور نہ ہی کثیر ملکی ادارے ڈگمگاتی ہوئی معیشتوں کو سہارا دینے کے لیے موجود ہوںاور غیر ملکی سرمایہ حاصل کرنے کا واحد ذریعہ بینکوں سے سود کے کمرشل نرخوں پر قرض لینا ہو۔ کوئی بہت دور کی بات نہیں، دوسری جنگ ِ عظیم سے پہلے تک دنیا ایسی ہی تھی، لیکن جنگ سے تباہ شدہ یورپی ممالک کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کے لیے 'امریکی مارشل پلان‘ کے تحت غیر ملکی امداد کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس کے بعد امدادی رقوم امداد فراہم کرنے والے ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ ساتھ امداد قبول کرنے والے غریب اور ترقی پذیر ممالک کے بجٹ کالازمی حصہ بن گئی۔ دوسری جنگ ِ عظیم کے دوران دونوں عالمی طاقتوں نے دنیا پر اپنا اثر ورسوخ قائم کرنے کے لیے کلائنٹ ریاستوں کو دل کھول کر فوجی اور معاشی امدادفراہم کی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ امداد لے کر گزارہ کرنے کے راسخ ہوتے ہوئے رجحان نے ترقی پذیر ممالک کے حکمرانوں(جن میں اکثرنااہل تھے)کو وسائل سے چکاچوند ، لیکن بے کار منصوبے بنانے اور جدید ہتھیار خریدنے کی طرف راغب کیا۔
پاکستان کی دو امریکی فوجی معاہدوں ، سیٹو اور سینٹو، میں شمولیت کے نتائج پر بہت بحث اور تنقید ہوچکی لیکن ہم اس کی وجوہ کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ مجھے ایک مرتبہ ایک ریٹائرڈ تھری سٹار جنرل نے بتایاکہ جب پاک فوج کے چیف، جنرل ایوب خان، جبکہ ابھی
اُنھوں نے ملک کی باگ ڈور نہیں سنبھالی تھی، انقرہ گئے تو ترک افواج کے پاس جدید امریکی ہتھیار دیکھ کر اُن کے منہ میں پانی آگیا۔ اُنہیں بتایا گیا کہ یہ ہتھیار حاصل کرنے کے لیے وہ بھی امریکی الائنس میں شامل ہوجائیں۔چنانچہ جدید ہتھیاروں کی ترسیل اور اُن سے حاصل ہونے والے غیر ضروری اعتماد کی وجہ سے پاکستان کی کشمیر اور انڈیا کی پالیسی ایک خاص سمت میں ڈھلنا شروع ہوگئی۔اگر ہمیں غیر ملکی امداد اورہتھیارنہ ملتے اور ہم اپنے وسائل سے ہی اپنی افواج کو مسلح کرنے پر مجبور ہوتے تو شاید نہ کشمیر میں شورش برپا کرنے والی کوشش، جسے آپریشن جبرالٹر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، دیکھنے میں آتی اور نہ ہی 1965ء کی جنگ ہوتی۔
تاریخ میں بہت سے ''اگر، مگر‘‘ ہوتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ فوجی امداد نے کبھی بھی امن قائم نہیں کیا ہے۔ آپ اسرائیل کی مثال لے لیں۔ اگر وہ اپنے وسائل پر انحصار کرتے ہوئے اپنی افواج کے لیے خود ہتھیار خریدنے پر مجبور ہوتا تو فلسطینیوں کے ساتھ کسی نہ کسی تصفیے پر پہنچ کر اپنی سرحدوں پر امن قائم کرنے کی کوشش کرتا، لیکن امریکی امداد کی مد میں ملنے والے اربوں ڈالر اور جدید ہتھیاروں نے اُسے علاقے کی ایک بدمعاش ریاست (bully) بنا دیا ہے۔ وہ اپنی سرحدوں کو توسیع دینے کے لیے ہمہ وقت جنگ پر تلا رہتا ہے۔ جب امداد خالصتاً سماجی بہبود اور معاشی مقاصد کے لیے ملتی ہے تو بھی ناعاقبت اندیش حکمران داخلی وسائل کو بے کار منصوبوں پر خرچ کرڈالتے ہیں۔ جہاں تک عطیات اور امداد فراہم کرنے والوں کا تعلق ہے تو اُن کے ہاں بھی ایک بیوروکریسی وجود میں آچکی ہے جس کا مقصد امداد فراہم کرنا اوراس کو مانیٹر کرنا ہے۔ اپنے وجود کا جواز فراہم کرنے کے لیے یہ بیوروکریسی طویل رپورٹس اور جائزے لکھتی رہتی ہے جنہیں کوئی بھی نہیں پڑھتا۔ اس کے کنسلٹینٹ ترقی پذیر ممالک، جو امداد لے رہے ہوں، کے خرچ پر بزنس کلاس میں فضائی سفر کرتے اور فائیوسٹار ہوٹلوں میں قیام کرتے ہیں۔
غیر ملکی امداد کے غلط استعمال اور ضیاع پر بہت کچھ لکھا جاچکا۔ بہت سے کیسز میں ایسا ہوا ہے کہ ملنے والی غیر ملکی امداد کا حاصل کرنے والی ریاست کو الٹا نقصان ہوا ہے کیونکہ اس رقم کے بل بوتے پر بدعنوان اور نااہل حکمران ملک پر نسل در نسل مسلط ہوجاتے ہیں۔اپنی فطری نالائقی، بدعنوانی اور معیشت کی ناقص مینجمنٹ کے باوجود وہ غیر ملکی امداد کی وجہ سے کچھ نہ کچھ ترقیاتی منصوبے بناتے ہوئے پریشان حال شہریوں کو اپنی کارکردگی کا تاثردینے میں کامیاب رہتے ہیں۔تاہم عالمی معاملات میں کوئی چیز بھی مفت نہیں ملتی۔ لیے گئے بھاری بھرکم قرضے آنے والی نسلوں کو ادا کرنے پڑتے ہیں۔ اس وقت پاکستان اپنے بجٹ کا کم و بیش نصف اندرونی اور بیرونی قرضوں کی ادائیگی پر صرف کرتا ہے۔ اگرچہ نائن الیون کے بعد ہمارا بہت سا قرضہ معاف بھی کردیا گیا لیکن ہر سال ہمیں باقی قرضہ جات کا سود اداکرنے کے لیے مزید قرض لیناپڑتا ہے۔ اس چکر کو قرض کا جال کہا جاتا ہے۔
معاشی مضمرات کے علاوہ غیر ملکی امداد کی سیاسی قیمت بھی ادا کرنا پڑتی ہے، جو کہیں زیادہ نقصان دہ ہوتی ہے۔ سرد جنگ کے دوران واشنگٹن اور ماسکو نے اپنی اپنی پراکسی ریاستوں کو سہار ا دے کر ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کرنے کے لیے بھاری رقوم خرچ کیں۔ جب کسی ملک کے حکمران نے ان کے جال میں مزید پھنسنے سے انکار کردیا تو وہاں شب خون کا ''اہتمام‘‘ کیا گیا۔ بہت سے کیسز میں ان طاقتوں کے پسندیدہ رہنما آمرتھے جو عشروں تک اقتدار میں رہے ۔ اس کی بنیادی وجہ اُنہیں بیرونی طاقتوں سے حاصل امداد اور حمایت تھی۔ چنانچہ ایسے حکمرانوں کی بنائی گئی پالیسیوں کا رخ اپنے عوام کی بہتری کی بجائے بیرونی مقاصد کی طرف ہوتا ہے۔
ان معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا غیر ملکی امداد کے نتیجے میں یہ دنیا ایک بہتر جگہ بن چکی ہے؟یقینا قدرتی آفات اور انسان کے ہاتھوں لائی جانے والے تباہی کے بعد فلاحی بنیادوں پر فراہم کی جانے والی امداد سے ان گنت جانیں بچائی گئیں لیکن فوجی امداد نے خاص طور پر اس دنیا کو غیر محفوظ بنا دیا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جدید ہتھیار اور فوجی امداد وصول کرنے والی ریاستیں جارحانہ پالیسیوں کی طرف گامزن ہوجاتی ہیں۔ اگر اُنہیں وہ امداد نہ ملتی تو وہ انسانوں کی طرح، شرافت سے، رہنا سیکھ لیتیں۔ یہ دلیل بھی دی جاتی ہے کہ فوجی امداد کے ذریعے کمزور ریاستیں اپنی سکیورٹی کو توانا کرتے ہوئے جارحیت پر آمادہ دشمنوں کے خلاف اپنا دفاع کرسکتی ہیں، لیکن دوسری طرف یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ زمینی حقائق بہرحال تبدیل نہیں کیے جاسکتے۔ خوفناک ہتھیاروں کے انبار لگانا خوف کا علاج نہیں ہے۔ سب سے اہم بات ، جب امداد کی ترسیل رک جاتی ہے تو اس پر انحصار کرنے کی عادی ریاستوں کو سمجھ نہیں آتی کہ اب کیا کریں۔