تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     15-11-2015

یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے؟

کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ یہ خطہ جہاں پر پاکستان واقع ہے‘ جمہوریت کے لئے موزوں بھی ہے یا نہیں؟ موزوں بھارت کی سرزمین بھی نہیں‘ جہاں سے اپنے حصے کی زمین لے کر‘ ہم الگ ہوئے۔ وہاں کا معاشرہ‘ ہم سے بھی زیادہ وحشیانہ اور غیر مہذب ہے لیکن وہاں کے بالادست طبقے‘ اہل صنعت و تجارت تھے‘ جو ترقی کرتے ہوئے دور جدید کا نظام اپنی ضرورت کے تحت استعمال کرنے کے قابل ہو گئے۔صنعت کاروں نے جہاں دولت کاکافی ارتکاز ہو چکا تھا‘ انتخابی جمہوریت کو دولت کا سہارا دیااور سیاسی نظام چلانے والی جماعتوں کو مجبور کیا کہ وہ انتخابی عمل کو غیر متنازعہ بنا کر‘ جمہوریت کے تجربے کو آگے بڑھائیں۔نتیجے میں تمام تر سماجی برائیوں اور تنگ نظری پر مبنی رویوں کے باوجود‘انتخابی نظام بعض قوانین کے تابع ہو گیا اوربھارت میں انتخابی عمل کو دیکھتے ہوئے کہنا مشکل ہے کہ تضادات سے بھرے ہوئے معاشرے میں ہونے والے انتخابات اتنے غیر متنازعہ کیوں ہو گئے ؟ ایسا نہیں کہ وہاں بالادست طبقے ‘خصوصاً انتخابات کے ذریعے حکومت سازی میں شریک فریق‘ تعصبات سے بالاتر ہو گئے ہوں۔سماج کی تمام روایتی خرابیاں آج بھی وہاں موجود ہیں بلکہ بعض مقامات پر تو پہلے سے بھی بدتر ہو گئی ہیں۔انسان کو زندہ جلا دینا‘ کمزور کو کچل ڈالنا‘ ذات پات کی بنیاد پر انسانی حقوق کی پامالی ‘عورت کو صنفی بنیادوں پرکم تر اور حقیر سمجھنا‘ جمہوریت کے تسلسل کے باوجود ‘آج بھی بھارتی معاشرے کے معمولات میں شامل ہیں۔ میں نے ابتدائی سطور میں‘ وہاں کے انتخابی نظام کی تعریف کی ہے کہ الیکشن کمیشن کے تحت‘ جو انتخابات وہاں منعقد ہوتے ہیں‘ان میں زیادہ شکوک و شبہات کی گنجائش باقی نہیں رہ گئی۔ سماج میں رائج الوقت خرابیوں کے تحت‘جتنی دھاندلی ممکن ہے ‘ وہ تواب بھی جاری ہے لیکن الیکشن کمیشن کے زیر انتظام ووٹنگ کے تمام مراحل‘ جھگڑے فساد کے بغیر طے ہونے لگے ہیں۔ بھارت ایک بہت بڑا ملک ہے اور وہاں انتخابات مرحلہ وار منعقد ہوتے ہیں۔انتخابات کے انعقاد کے بعد ‘مکمل نتائج مختلف حلقوں میں ‘دو سے تین ہفتوںکے بعد سامنے آتے ہیں ۔ اس دوران ووٹوں سے بھرے ہوئے باکس‘ ایک محفوظ جگہ پر رکھ دیے جاتے ہیں اور مقررہ وقت پر‘ جو کہ کئی دنوں کے بعد آتا ہے‘ ووٹوں کی گنتی ہوتی ہے اور پھر ایک ہی دن میں نتائج سامنے آجاتے ہیں ۔انتخابات میں حصہ لینے والی ساری جماعتیں‘ انہیں من و عن تسلیم کر لیتی ہیں اور حکومتیں کسی جھگڑے کے بغیر‘ قائم ہو جاتی ہیں۔ اس کے بعد وہی کچھ ہوتا ہے جو برصغیر کے سارے ملکوں میں ہوتا رہتا ہے۔ہمارا ملک پاکستان ‘انتظامی خرابیوں میں خصوصی مقام رکھتا ہے۔مثلاً بھارت کے طاقتور ادارے بھی‘ منتخب حکومت کے بعض فیصلوں کو قبول کرنے سے انکار کر دیتے ہیں لیکن وہاں کی منتخب حکومتیں‘ اداروں میں بغاوت کی جھلک دیکھ کر‘ تصادم کی طرف بڑھنے کے بجائے خاموشی اختیار کر لیتی ہیں۔ جس کی ایک مثال سیاچن گلیشیئر کے بارے میں حکومت اور فوج کے اختلاف کا واقعہ ہے۔ سابق وزیراعظم من موہن سنگھ نے ایک تجویز پیش کر دی کہ سیاچن سے فوجیں ہٹا کر ‘اسے امن کا پہاڑ قرار دے دینا چاہئے۔ بھارتی فوج کے سربراہ‘ نے اس تجویز کو برملا قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ جواب میں حکومت نے خاموشی اختیار کر لی اور فوج کا موقف‘ حکومتی پالیسی کا حصہ بن گیا۔ 
چند روز قبل‘ بھارت کے سابق وزیرخارجہ‘ سلمان خورشید پاکستان میں تھے۔ا نہوں نے ایک انٹرویو میں تسلیم کیا کہ بھارت میں بھی ‘ حکومت کو فوج کے دبائو میں آکر بعض فیصلے کرنا پڑتے ہیں مگر اداروں کے درمیان‘ انڈرسٹینڈنگ کی صورت حال یہ ہے کہ اگر کوئی تنازعہ پیدا ہو بھی جائے تو وہ میڈیا میں آکر تماشا نہیں بنتا۔ اختلافات کو میڈیا سے اوجھل رکھتے ہوئے‘ طے کر لیا جاتا ہے۔ یہ سطور پاکستان میں موجودہ اداروں کے مابین جاری تکرار کے حوالے سے لکھنا پڑیں۔ ہمارے ملک میں بلاوجہ فوج اور حکومت کے درمیان جو تنازعہ ‘چوراہے کا تماشا بنا ہوا ہے‘ وہ کسی بھی ایسے ملک میں نہیں بن سکتا‘ جہاں حکمرانی کا تجربہ رکھنے والے سیاست دان‘ حکومتی ذمہ داریاں نبھا رہے ہوں۔ ہمارے سیاست دان تواپنے معاملات کو‘ مداری کی طرح مجمع کے سامنے لا کے رکھ دیتے ہیں۔ ان دنوں دھرنوں کے جواب میں حکومتی حلقوں کی طرف سے جو تماشے ہوئے‘ انہیں ساری دنیا نے دیکھا۔ دہشت گردی کے خلاف کارروائی کرنا پاکستانی قوم کا اجتماعی فیصلہ تھا۔ دہشت گرد عناصر سے ہمدردیاں رکھنے والے لوگ‘ عوامی ردعمل کے خوف سے واضح پوزیشن اختیار نہیں کرتے۔ آج ہی پیرس میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات پر‘ مولانا فضل الرحمن کا جو ردعمل آیا ہے‘ اس میں بھی وہ دہشت گردوں سے ہمدردی رکھنے کے باوجود‘ اپنے موقف کو کھل کر بیان نہیں کر پائے۔ کوئی بھی ذی فہم انسان‘ دہشت گردی کی حمایت نہیں کر سکتا۔ پاکستانی فوج نے بھی دہشت گردی کے خلاف جو کارروائیاں کیں ‘اس پر ساری دنیا ہمارے ملک کو خراج تحسین پیش کر رہی ہے لیکن ہمارے حکمرانوں کو یہ تعریف بھی راس نہیں آئی۔
میں افسوس کے ساتھ ان واقعات کا ذکر کر رہا ہوں‘ جن کی وجہ سے موجودہ تکرار پیدا ہوئی ۔ بحالی جمہوریت کے حالیہ دور سے پہلے‘ فوجی حکمرانوں کا زمانہ تھا اور انہی آمروں نے اقتدار کی بھوک میں‘ مختلف قومی اور عالمی مفادات کو آگے بڑھانے کے لئے ‘پاکستانی معاشرے کو دہشت گردی کا مرکز بنا کے رکھ دیا۔ بحالی جمہوریت کے بعد‘ قائم ہونے والی حکومتوںکے پاس اتنی طاقت ہی نہیں تھی کہ وہ دہشت گردوں سے مقابلہ کر 
سکتیں۔ یہاں تک کہ موجودہ حکومت جو دہشت گردوں سے مقابلہ کرنے کے دعوے کرتی ہے‘ حقیقت میں ان کے ساتھ مذاکرات کر رہی تھی۔ جب فوج نے ملکی سلامتی کے تقاضوں کو دیکھتے ہوئے‘ دہشت گردی کے مراکز پر حملہ کیا تو حکومت کو مجبوراً خاموشی اختیار کرنا پڑی کیونکہ دہشت گردوں کی حمایت کر کے‘ یہ حکومت خود خطرے میں آسکتی تھی۔ اس نے مجبوراً فوجی آپریشن کی ذمہ داری قبول کی اور جب فوج نے دہشت گردوں کے سب سے بڑے مرکز پر قبضہ کر لیا تو اس کے نتیجے میں دہشت گردوں کے ساتھ ہونے والی جنگ کی وجہ سے بے گھر ہونے والے پاکستانیوں کی مدد سے گریز کیا۔پاکستان کے اربوں روپے کرپشن کی نذر ہوتے رہے لیکن ملکی سلامتی کی خاطر ہونے والی جنگ میں بے گھر ہونے والے افراد کی مدد نہیں کی ۔ میں بلاوجہ کسی کی نیت پر شک کرنا مناسب نہیں سمجھتا۔ یہ ٹھیک ہے کہ ماضی کے فوجی حکمرانوں کا ریکارڈ ہمیں شک و شبے کی طرف مائل کرتا ہے لیکن جب تک کوئی بدنیتی کا ثبوت مہیا نہ کر دے ‘ شک کرنا بھی اچھا نہیں۔ موجودہ آرمی چیف‘ جنرل راحیل اگربد نیت ہوتے تو دھرنے کے دنوں میں‘ وہ آسانی سے اقتدار پر قبضہ کر سکتے تھے لیکن وہ منتخب حکومت کے تحفظ کے لئے‘ کھڑے ہو گئے اور انہوں نے حکومت کی مخالف پارٹی کا یہ مطالبہ مسترد کر دیا کہ منتخب وزیراعظم کو اقتدار سے باہر کیا جائے۔ یہ بات بارہا میڈیا میں آچکی ہے کہ چیف آف آرمی سٹاف نے وزیراعظم سے استعفیٰ مانگنے کا مطالبہ مسترد کر دیا تھا۔آج چیف آف آرمی سٹاف اپنی کارکردگی کی بنا پر پہلے سے زیادہ مقبول ہیں‘ جبکہ سیاست دانوں نے کرپشن کی وجہ سے جو رسوائی حاصل کی ہے‘ اس کے ہوتے ہوئے‘ فوج کی وقعت زیادہ ہوگئی ہے۔ فوج نے حکومت کی عدم کارکردگی کے پیش نظر‘ اسے اپنے فرض کی طرف متوجہ کرتے ہوئے صرف اتنا کہا کہ ''وہ گورننس بہتر بنانے پر توجہ دے‘‘۔ اچھی گورننس ‘ حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ اس کی طرف توجہ دلانا‘ فوج کا فرض تھا اور ایسی فوج جو ملک اور معاشرے کے دشمنوں کے خلاف برسر پیکار ہے۔ اتنی سی بات پر حکومت مشتعل کیوں ہوئی؟ اس کی وجہ سمجھنے میں مشکل پیش آرہی ہے۔ یہاں تک کہ حکومت کی گود میںبیٹھ کر‘ مزے کرنے والی نام نہاد اپوزیشن بھی‘ اپنی پالیسی سے لاتعلق ہو گئی اور قائدحزب اختلاف کے لیڈر آصف زرداری نے‘ اپنی پارٹی کے تمام سرکردہ رہنمائوں کے ان بیانات سے لاتعلقی کا اظہار کر دیا جو انہوں نے حکومت کی حمایت میں دیے۔ خطرے کی لال بتیاں‘ سب کو دکھائی دے رہی ہیں۔ بہتر ہے حکومت اپنا اور جمہوریت کا تحفظ کرے۔ میرا آج بھی اس پر یقین ہے کہ عمدہ سے عمدہ آمریت سے‘ بدترین جمہوریت ہی بہتر ہوتی ہے۔ حکومت کو اپنے طرز عمل پر نظر ثانی کرتے ہوئے‘ گڈ گورننس کے مشورے کو اپنے مفاد میں تسلیم کرلینا چاہئے۔یہ عوام کا حوصلہ ہے کہ وہ کرپشن کے طوفان میں بھی اپنی حکومت کو جمہوری سمجھ رہے ہیں۔
جب کہ جمہوریت نہیں موجود
پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved