گزشتہ دو تین ہفتے بہت کچھ دکھا گئے۔ اِس دوران برطانیہ جانا ہوا، جہاں پاکستانی نژاد برطانوی(یا نیم برطانوی) نوجوان اخبار نویس مبین رشید نے ایک بین الاقوامی میڈیا کانفرنس کا میلہ رچا رکھا تھا۔ اس میں جن میڈیا شخصیات کو لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ دینے کا اعلان کیا گیا، ان میں برادران عطاء الحق قاسمی، امجد اسلام امجد، مجاہد بریلوی اور رحمت علی رازی کے ساتھ میرا نام بھی شامل تھا۔ اِس کانفرنس کی مخالفت برطانیہ ہی میں مقیم بعض پاکستانی اخبار نویس شدت سے کر رہے تھے۔ اسے ناکام بنانے کے لئے ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کیے جا رہے تھے۔ برطانیہ سے فون آ رہے تھے، ای میل کے ذریعے بھی ''خبریں‘‘ فراہم کی جا رہی تھیں کہ اس اجتماع میں شرکت سے عزت ِ سادات خطرے میں پڑ جائے گی۔ تذبذب طاری تھا کہ برادرم عطاء الحق قاسمی اور ڈاکٹر امجد ثاقب نے کمرِ ہمت کس لی، ان کی محبت(اور اخوت) نے مجھے بھی مہمیز دی، اور عزیزم عثمان شامی کو آمادہ کر کے رخت ِ سفر باندھ لیا گیا۔ اجمل جامی کے لیے بھی لندن کی بانہیں دراز تھیں، لیکن وہ اٹھاتے ہی بچھاتے رہے بستر اپنا ۔ ایسا ہی معاملہ رئوف طاہر نے اپنے ساتھ کیا۔ وقت ان کے ہاتھ سے بھی نکل گیا۔
مبین رشید نے اپنے چند دوستوں کے ساتھ مل کر پہاڑ سر پر اُٹھا لیا، اور ایک نہیں تین اجلاس کر ڈالے۔ لندن، برمنگھم اور مانچسٹر، تینوں شہروں میں اپنے مہمانوں کا ٹوکرا اُٹھا کر لے گئے۔ بزرگوارم انیق احمد ، غریدہ فاروقی، افضل بٹ، عادل عباسی، شکیل انجم، مشتاق منہاس، نصر اللہ ملک، عمران یعقوب کی آمد نے رونق کو دوبالا تو کیا کئی بالا کر رکھا تھا۔ لندن میں تو نسیم صدیقی کے علاوہ کوئی مقامی اخبار نویس مبین کے ساتھ کم کم ہی دیکھا گیا، لیکن برمنگھم اور مانچسٹر میں منظر بدلا ہوا تھا۔ وہاں پاکستانیت ''فرقہ واریت‘‘ پر غالب آ چکی تھی۔ وفاقی انجمن صحافیان کے صدر افضل بٹ کی مقناطیسی شخصیت نے سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ برمنگھم میں پاکستانی قونصل خانے میں یومِ اقبال کے حوالے سے ایک بڑی تقریب کا اہتمام بھی ہوا، جس کے دولہا ڈاکٹر امجد ثاقب تھے۔ ان کی تحریکِ اخوت کا تذکرہ رہا کہ یہ کم وسیلہ لوگوں کو قرضِ حسنہ فراہم کرنے کا سب سے بڑا عالمی ادارہ ہے۔ اس کے تعاون سے دس لاکھ سے زائد پاکستانی گھرانوں کی آمدنی میں اضافہ ہو چکا ہے۔ چند ہزار روپے سے شروع ہونے والے اس ''بینک‘‘ کے وسائل کئی ارب تک پھیل چکے ہیں، جو پاکستانی ہی فراہم کر رہے ہیں۔ شہباز شریف صاحب کی حکومت البتہ اس کارِ خیر میں اپنا حصہ ڈال رہی ہے۔
پاکستانی برطانویوں سے خوب تبادلہ ٔ خیال رہا، ان کے سرد و گرم سوالات کا سامنا بھی کیا۔ ایک دوسرے کو سمجھنے میں ان سے بڑی مدد ملی۔ عزیز ان علی سجاد اور نور رانجھا نے خوب ساتھ نبھایا۔ پاکستان سے آنے والے قمرالزمان میزبان بھی بن گئے۔ ہائی کمشنر سید ابن ِعباس کے ہاں پُر تکلف عشائیہ نصیب ہوا،ممتاز پاکستانی بزنس مین قمر رضا کے ہاں برنچ میں بھی انہوں نے شرکت کی۔ یہاں بہت سے ممتاز پاکستانیوں سے ملاقات ہوئی۔ قمر رضا ورلڈ کانگرس آف اوورسیز پاکستانیز کے شریک چیئرمین ہیں۔چیئرمین ڈاکٹر سہیل چغتائی اور بورڈ آف گورنر کے صدر ڈاکٹر طارق سلیمان ہیں۔ سب سے پرتپاک باتیں ہوئیں ۔ مختلف ملکوں میں جب بھی جانے کا موقع ملا ہے، پاکستانی سفارت خانے سے اہل ِ وطن کو کم ہی مطمئن پایا ہے۔ واجد شمس الحسن جیسے دانشور بھی ہم وطنوں سے(مبینہ طور پر) کھچے کھچے سے رہتے تھے۔ ان کے دور میں جب یہاں آنے کا موقع ملا، تو ان کی کم آمیزی کی شکایت عام تھی۔لیکن ابن ِ عباس یوں گھل مل چکے ہیں کہ ''رانجھا میں وچ، مَیں رانجھے وچ‘‘۔لندن پہنچے تو ہانپتے کانپتے مبین رشید رات گئے آئے۔ وہ برمنگھم ایئر پورٹ سے ریحام خان کو وصول کر کے لندن لائے تھے، اور خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے کہ ان کی میڈیا کانفرنس کی دھوم مچ جائے گی۔ ریحام خان کی شرکت ان کے مخالفین کو ڈھیرکر دے گی۔ تحریک انصاف کے پُرجوش جیالے بہت سوں کی کمی پوری کر دیں گے، لیکن اگلے ہی روز دھماکہ ہو گیا۔ ریحام خان لندن پہنچیں تو پیچھے پیچھے ان کے شوہر کی ای میل بھی پہنچ گئی... طلاق، طلاق، طلاق... اور یوں قصہ تمام ہو گیا۔ ایک خان نے دوسرے خان کے ساتھ یا ہر دو خان نے ہر دو خان کے ساتھ اس طرح کا معاملہ کیوں کیا؟ اس سوال کا جواب اب تک نہیں مل پایا۔ شادی اور طلاق ہر شخص کا ذاتی معاملہ ہے، لیکن رہنمائی کے دعویداروں کے بارے میں کرید پڑتال سے لوگوں کو روکا نہیں جا سکتا... یہاں تو یہ سوال بھی اُٹھ کھڑا ہوا تھا کہ اعلان کے لئے وقت کا انتخاب کس وجہ سے کیا گیا؟ کانفرنس کا رنگ چوکھا نہ ہو سکا، بڑے ہال میں کئی کرسیاں خالی رہ گئیں، لیکن وہ اس ویرانی سے کوسوں دور تھی، جو مخالفین طاری دیکھنا چاہتے تھے۔ کارواں مانچسٹر پہنچا تو ریحام خان اپنے آپ کو سنبھال چکی تھیں۔ ان کی آمد کی اطلاع ملی تو ساتھ ہی یہ خواہش بھی ظاہر کی گئی کہ اُن سے ذاتی نوعیت کے سوالات نہ کیے جائیں۔ غریدہ فاروقی اپنے تجسّس کو نہ روک سکیں، لیکن ان کا سوال لاجواب رہا۔ ریحام خان نے کانفرنس سے خطاب کیا، تو ان کے اوسان اور اعصاب بحال تھے۔ انہوں نے پاکستانی الیکٹرانک میڈیا کے بعض عناصر کی غیر ذمہ داری پر اسے آڑے ہاتھوں لیا، اُن کا کہنا تھا کہ وہ انہیں ضابطہ اخلاق کا جامہ پہنانے کے لیے کام کریں گی۔ انہوں نے کپتان کے حوالے سے یہ بات بھی کہی کہ چھکا لگانا تو آسان ہوتا ہے،لیکن لمبی رفاقت میں سنچری بنانا مشکل کام ہے۔یہ سرخی بن گئی، میڈیا اسے لے اڑا، اور اس میں سے جو جی میں آیا نکال لیا گیا۔میڈیا کانفرنس کی خبر البتہ پاکستانی چینلوں پر گونج رہی تھی، اور اسے دبانے والے دب کر رہ گئے تھے۔ مَیں نے ریحام خان سے دو مختصر سوالات کیے، کیا آپ پاکستان آئیں(یا جائیں) گی، انہوں نے بڑے وثوق سے کہا کہ مَیں وہیں رہوں گی۔ پھر پوچھا گیا کیا میڈیا سے وابستہ ہوں گی؟ اس کا جواب بھی ہاں میں تھا۔ وہ اِس کانفرنس میں ایک ''اینکر پرسن‘‘ کے طور پر آئی تھیں، اور اپنا یہ اعزاز ترک کرنے پر تیار نہیں تھیں... اب جو ہو سو ہو...
(یہ کالم روزنامہ '' دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)