تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     15-11-2015

بچہ، بکریاں، کتا!

پیرس حملوں میں دو سو کے لگ بھگ انسانوں کے مارے جانے کی افسردہ خبر کی ٹی وی چینلز پر کوریج دیکھ کر مجھے اپنے گائوں کا ایک لڑکا یاد آ گیا جس کی عمر دس بارہ برس ہو گی۔ کل افغانستان میں ہزارہ خاندان کے سات افراد، جن میں ایک معصوم بچی بھی شامل تھی، کے گلے کاٹنے پر ڈپریشن ہوا تو بھی وہ بے اختیار یاد آیا۔ خدا جانے کل اور کیا ہو گا؟ 
سکول میں پڑھا تھا کہ ہمارے ملک کا نام پاکستان ہے۔ اپنا یہ علم اُس بچے پر آزمانے کا سوچا‘ جو ہمارے سکول کے اردگرد بکریاں چرایا کرتا تھا۔ ایک دن اس بچے سے پوچھ لیا کہ تمہارے ملک کا کیا نام ہے؟ اس نے معصومیت سے اپنے گائوں کا نام لیا۔ اس وقت میں ہنس دیا۔ شاید اس کا مذاق بھی اڑایا تھا۔ آج اپنا مذاق اڑانے کو جی چاہ رہا ہے۔ اس بچے پر رشک بھی آ رہا ہے۔ اس کے نزدیک اس کی دنیا وہی تھی‘ جہاں وہ رہتا تھا۔ اس نے بس کا سفر نہیںکیا تھا‘ شہر نہیںگیا تھا، ٹی وی نہیں دیکھا تھا، شہر کی بتیاں دیکھنے کا شوق بھی نہیں تھا۔ نہیں جانتا تھا کہ اس ملک کا نام کیا ہے۔ اس کا ملک وہی تھا جہاں وہ سارا دن بھیڑ بکریاں چراتا تھا۔ شام کو گھر لوٹتا، جو پکا ہوتاکھا لیتا۔ رات کو مٹی کے بنے کمرے میں اپنے پانچ چھ بہن بھائیوں میں سے کسی کے بستر میںگھس جاتا‘ اور اگلی صبح اٹھ کر پھر وہی معمول! گھر کے قریب چلتے کنویں سے بکریوں کو پانی پلا کر دُور کہیں میدانوں اور جنگلوں کی طرف نکل جاتا۔ اپنا کتا ساتھ لے جانا کبھی نہ بھولتا۔ سارا دن اپنے ریوڑ سے باتیں کرتا، بکریاں لڑ پڑتیں تو ان کی صلح کرا دیتا۔ کسی کی ڈانٹ کی ڈپٹ بھی کر دیتا۔ کہیں بیری یا کھجور کا درخت ہوتا تو اس کا پھل کھا لیتا۔ دل چاہا تو کسی بکری کا دودھ دوہ کر چند گھونٹ پی لیتا۔ گرمیوں کی دوپہر تھک کر تھوڑی دیر سستانے کے لیے کسی درخت کی چھائوں میں بیٹھ کر دیر تک آسمان کو تکتا رہتا۔ کوئی آوارہ مزاج بکری ادھر ادھر ہو جاتی تو دوڑ کر اسے واپس ریورڑ میں لے آتا۔ اس لڑکے کی زندگی کا یہ منظر مجھے 'ہانٹ‘ کر رہا ہے۔
آج ہر طرف خون کی ہولی دیکھ کر سوچتا ہوں، اتنا شعور پا کر ہمیں کیا ملا ! زندگی میں آگے جا کر کچھ حاصل کرنے کی تمنا میں اپنا گائوں ہی نہیں وطن بھی چھوڑا، کتابیں پڑھیں، بڑے لوگوں کے لیکچر سنے... مگر کیا ملا؟ کچھ نفرتیں ملیں، کچھ تعصبات خود پال لیے، کئی دشمنیاں ہوئیں، کچھ دوست بنے! زندگی کا سائیکل خود بنا لیا اور سمجھ بیٹھا کہ سب کچھ مل گیا ہے۔ زندگی بہتر اور آسان ہو گئی! آج خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ کچھ نہ کچھ مل گیا ہے، اس کے ساتھ ساتھ حیران بھی ہوتا ہوں کہ اتنی جدوجہد کس لیے کی؟ پھر خیال آتا ہے، کہیں ناشکری تو نہیں کر رہا؟ سوچتا ہوں، جب کچھ نہیں ہوتا تو زندگی سے شکایت اور جب مل جائے تو بھی شکایت! یہ کیسا انداز زیست ہے، یہ کیا طریقہ ہے؟ شاید اسی لیے خدا نے فرمایا کہ انسان ناشکرا ہے، احسان فراموش ہے، کسی حال میں خوش نہیں رہتا!
ٹیکنالوجی نے جہاں زندگی میں آسانیاں پیدا کر دی ہیں‘ وہاں اذیت کے بھی کیسے کیسے سامان مہیا ہو گئے ہیں! دیکھتے ہی دیکھتے دنیا بدل جاتی ہے۔ اپنے دکھ اپنی جگہ، ہزاروں میل دور بیٹھے انسانوں کے دکھوں پر بھی آنسو بہانے پڑتے ہیں۔ اپنے ہاں ساٹھ ہزار انسانوں کی موت کم نہ تھی کہ شامی بچے کی ساحل پر اوندھے منہ پڑی لاش کی تصویر نے بھی پوری دنیا کو رلا دیا۔ افغانستان میں ایک اور بچی کا سر قلم ہوا۔ لاکھوں شامی مہاجرین کی ہجرت نے زخم گہرے کر دیے۔ کبھی تو ایسا لگتا ہے کہ انسان کرہ ارض پر آیا ہی قتل و غارت کرنے اور بربادی پھیلانے کے لیے ہے! انسان کی اپنے جیسے انسانوں پر برتری کے احساس نے کیا کیا گل نہیں کھلائے! اس کی انا نے کیا کیا بربادیاں نہیںکیں! آسان زندگی کو خود ہی مشکل بنا دیا۔
گوتم بدھ یاد آیا... دنیا دکھوں کا گھر ہے اور انسانی خواہشات ہی اس کی سب سے بڑی دشمن ہیں۔ پھر یاد آیا 1980ء کی دہائی میں جنرل ضیاء کا مذہب وی سی آر فلموں کی وجہ سے خطرے میں پڑ گیا تھا۔ اس وقت گائوں میں فلم دیکھنا یا ڈائجسٹ پڑھنا گناہ سے کم نہ سمجھا جاتا تھا۔ لیکن کیا کیا جائے کہ انسانی مزاج میں تفریح اور تجسس کا مادہ ہے۔ کسی چیز پر پابندی لگتی ہے تو تجسس مجبور کرتا ہے کہ وہی کام کرے۔ اس زمانے میں گائوں کے لڑکے وی سی آر کرائے پر لاتے، سب کو معلوم ہوتا کہ آج شب فلاں جگہ رنگین ٹی وی پر بھارتی فلمیں چلیں گی۔ اس خفیہ سرگرمی سے والدین بے خبر رہتے۔ بابا کی وفات کے بعد اماں ہمیں پال رہی تھیں، لہذا وہ ہم پر سختی کرتیں، بچے کہیں بگڑ نہ جائیں۔ مجھ سے بڑے بھائی کے تجربے سے اماں نے یہ سیکھا کہ چھوٹوں پر سختی کی جائے۔ میرے فلمیں دیکھنے پر پابندی تھی۔ جب پہلی بار مجھے پتا چلا کہ رات کو فلم دیکھی جائے گی تو سارا دن سوچتا رہا، کیسے بہانہ کر کے گھر سے نکلوں کہ کسی کو پتا نہ چلے۔ اس سے بڑا سوال یہ تھا کہ دس روپے کہاں سے لائے جائیں۔ خیر، شام ڈھلے بڑی بہن سے مانگے جو سکول میں پڑھاتی تھیں۔ وہ سمجھ گئیں۔ کہا، دس روپے تو دے دیتی ہوں لیکن تم رات کو فلم دیکھتے پکڑے گئے تو میں مکر جائوں گی کہ میں نے پیسے دیے تھے۔ اب رات کو اماں کے سونے کا انتظار شروع ہوا۔ بڑے بھائی بھی گھر کے لان میں سوتے تھے۔ سب سو گئے تو میں بلی کی طرح پائوں پر پائوں رکھتا گھر سے نکل گیا۔ اماں نے روسی کتوں کا ایک خوبصورت جوڑا پالا ہوا تھا۔ یہ بھی ڈر تھا کہ کہیں وہ بھونکنا نہ شروع کر دیں۔ پہلے ان کے پاس گیا، انہیں پیار کیا تو وہ میرے ساتھ چل پڑے۔ بڑی مشکل سے انہیں وہیں چھوڑا، چاندنی رات میںگلیوں سے گزرتا اس دکان پر گیا‘ جہاں فلم دکھائی جا رہی تھی۔ وہاں میلہ لگا ہوا تھا۔ پورے گائوں کے لڑکے فلم دیکھ رہے تھے۔ میں نے بھی دس روپے دیے‘ جن کے عوض تین فلمیں دیکھ سکتا تھا۔ میرا پسندیدہ اداکار مصطفیٰ قریشی تھا۔ وہی پنجابی فلم دیکھتا جس میں مصطفیٰ قریشی کا نام ہوتا۔ ابھی فلم دیکھتے تھوڑی دیر ہوئی تھی کہ کسی نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ مڑ کر دیکھا تو بڑا بھائی ہارون تھا۔ گویا بال کٹواتے ہی اولے پڑ گئے۔ کہا: حضور گھر تشریف لے جائیں، آپ کا انتظار ہو رہا ہے۔ میرا جسم سن ہو گیا، کاٹو تو لہو نہیں۔ فلم بھول گئی، فکر پڑ گئی کہ اماں کیا حشر کریں گی۔ سوچا‘ سلیم بھائی بھی یقیناً جاگ گئے ہوں گے، ان کا ری ایکشن کیا ہو گا؟ جب میں اٹھ کر جانے لگا تو ہارون بولا: تم نے دس روپے دے دیے ہیں، میں تو پوری تین فلمیں دیکھوں گا۔ تم دکاندار کو بتاتے جائو کہ تمہاری جگہ فلم میں دیکھوں گا۔ میں نے ہارون کو جن نظروں سے دیکھا‘ وہ مجھے آج تک نہیں بھولتا۔ کیسا ظلم ہے، ایک بھائی کو اجازت ہے کہ فلمیں دیکھے مگر دوسرے کو نہیں!
گھر لوٹا تو اماں سلیم بھائی کو جگا کر ان پر برس رہی تھیں: تمہیں چھوٹے بھائیوں کی فکر نہیں، رات کو نکل جاتے ہیں، فلمیں دیکھتے ہیں، وہ خراب ہو رہے ہیں اور تم مزے سے سوئے ہوئے ہو۔ سلیم بھائی نے صبح اٹھ کر بینک جانا ہوتا تھا۔ وہ اپنی نیند خراب کر کے چارپائی پر لیٹے میرا انتظار کر رہے تھے۔ میں پہنچا تو اپنے پاس بلایا اور ڈانٹ ڈپٹ کی۔ میری حالت عجیب تھی۔ ایک پکڑے جانے کی شرمندگی‘ دوسرے مصطفیٰ قریشی کی فلم نہ دیکھنے کا دکھ، اوپر سے ڈانٹ ڈپٹ۔ اماں بہن پر برس رہی تھیں کہ تم نے پیسے دیے ہوں گے۔ وہ حسب وعدہ مکر گئیں۔ میں منہ بسورتا اپنی چارپائی پر لیٹ گیا۔ نیند بھلا کس کافرکو آنی تھی۔ رات کے سناٹے میں مصطفیٰ قریشی کے ڈائیلاگ کی آوازگھر تک پہنچ رہی تھی۔ فلم ختم ہونے تک میں جاگ کر ڈائیلاگ سنتا رہا۔ آج ہنسی آتی ہے۔ چند برسوں میں ہی دنیا بدل گئی۔ آج کسی بچے سے وی سی آر کا پوچھیں تو وہ حیران ہو گا کہ یہ کیا چیز ہوتی ہے؟ تھری جی انٹرنیٹ نے سب کچھ ایک موبائل فون میں بند کر دیا ہے۔ 
آج یہ سب دیکھتے ہوئے سوچتا ہوں، اتنا طویل سفر طے کر کے کیا حاصل ہوا؟ شعور پا کر، نگر نگر کی خبریں اکٹھی کر کے کیا ملا؟ وہ گائوں کا بچہ کتنا خوش نصیب تھا‘ جو سارا دن بکریاں چرا کر سمجھتا تھا اس کی ساری دنیا وہی ہے۔ اسے دنیا کے کسی حصے میں رونما ہونے والے حادثات کی خبر تھی نہ پروا! اپنے چھوٹے سے وطن میں خوش تھا۔ گرمیوں کی دوپہرکسی ٹیلے پر تنہا درخت سے ٹیک لگا کر اپنی بکریوں کو چرتے دیکھتا اور مطمئن رہتا۔
حیران ہو رہا ہوں، میرے جیسے ایک گلوبل ولیج کے شہری کو یہ خون ریزی دیکھ کرگائوں کا وہ بچہ کیوں یاد آیا؟ ایک ایسا بچہ جس کی کائنات چھوٹا ساگائوں، حد نظر تک پھیلے میدان، چمکتا سورج اور گھاس چرتی چند بکریاں تھی‘ اور اس کے ساتھ سردیوں کی دھوپ میں ٹیلے کی نرم گرم ریت پر ایک آنکھ بند اور دوسری مالک پر جمائے، بکریوں کی رکھوالی پر مامور اس کا اونگھتا ہوا سست الوجود بوڑھا کتا!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved