تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     15-11-2015

وزیراعظم کی تقریر اور پاکستان کا سافٹ امیج

کراچی میں ہندوبرادری کے تہوار''دیوالی‘‘کی ایک تقریب میں شرکت کرتے ہوئے وزیراعظم محمدنوازشریف نے جوکچھ کہا ، اْس کو نہ صرف پاکستان میں سراہا جارہا ہے بلکہ بیرون ملک بھی اس کی تعریف کی جارہی ہے کیونکہ اْن کے ریمارکس سے پاکستان کا ایک ایسا امیج اْبھر کر سامنے آیا ہے جو علامہ اقبال اور قائداعظم کے نظریات کی عکاسی کرتا ہے۔بانیٔ پاکستان کی تقریر، جو اْنہوں نے11اگست1947ء کو پاکستان کی آئین ساز اسمبلی کے پہلے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کی تھی،ہمارے لیے مشعلِ راہ ہونی چاہیے تھی،لیکن افسوس کا مقام ہے کہ ملک کا آئین بناتے ہوئے اسے نہ صرف نظرانداز کردیا گیا بلکہ ایک عرصہ تک تقریر کے اْن مندرجات کو عوام کی نظروں سے اوجھل رکھا گیا جن کا تعلق پاکستانی قومیت کی ہیئت اور ملک میں اقلیتوں کے حقوق سے تھا۔اس تقریر میں قائداعظم نے واضح کردیا تھا کہ پاکستان میں قومیت کی بنیاد مذہب پر نہیں ہوگی بلکہ مسلمان،ہندو،سکھ،عیسائی اور دیگر مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ تمام تر سماجی،سیاسی او رقانونی حقوق کے ساتھ ملک کے برابرشہری کے ہوں گے اورمذہب کی بنیاد پر کسی قسم کی تفریق نہیں کی جائے گی۔اقلیتوں سے مخاطب ہوتے ہوئے قائداعظم نے کہا تھا: ''آپ دیکھیں گے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ہندو،ہندونہیں رہے گا اور مسلمان،مسلمان نہیں رہے گا۔مذہبی معنوں میں نہیں کیونکہ یہ آپ کا ذاتی معاملہ ہے بلکہ ریاست کے برابر شہریوں کی حیثیت سے ‘‘۔اس موقع پر قائداعظم نے مزید جو کچھ کہا اْس کے مطابق تمام اقلیتوں کو پوری مذہبی آزادی حاصل ہوگی اور وہ بغیر کسی رکاوٹ کے اپنی عبادت گاہوں میں جاسکیں گے۔
قائداعظم نے یہ تقریر ایک ایسے موقعہ پر کی تھی جب تقسیم ہند کا فیصلہ ہوچکا تھا اور تین دن بعد جنوبی ایشیا میں ایک نئی مملکت پاکستان کے قیام کا اعلان ہونے والاتھا،لیکن پورے ہندوستان میں فرقہ وارانہ فسادات کی آگ بھڑک اْٹھی تھی۔ان فسادات میں ہندو اکثریت کے علاقوں میں مسلمانوں اور مسلم اکثریت کے علاقوں میں ہندوئوں اور سکھوں کوبے دریغ قتل کیا جارہا تھا۔قائداعظم بخوبی آگاہ تھے کہ ان فسادات کا پاکستان کی معیشت اور قومی سا لمیت پر کیا اثر پڑسکتا ہے۔وہ نہیں چاہتے تھے کہ پاکستان سے غیر مسلم باشندے بڑی تعداد میں ہجرت کرجائیں کیونکہ اس سے نیا اور آزاد پاکستان خلفشارمیں مبتلا ہوکرعدمِ استحکام کا شکار ہوسکتا تھا۔اْن کی خواہش تھی کہ غیرمسلم اقلیتیں پاکستان میں ہی رہیں اور اس کی تعمیروترقی میں اپناکردارادا کریں۔اس مقصد کیلئے اْنہوں نے اپنی تقریر میں اقلیتوں میں پائے جانے والے خوف اور خدشات کو دور کرنے کی کوشش کی تھی،لیکن بدقسمتی سے جونہی بانیٔ پاکستان اس دنیا سے رْخصت ہوئے اْن کے جانشینوں نے ‘جن کا تعلق بھی مسلم لیگ سے تھا، نے قائداعظم کے خیالات اور نظریات سے بالکل متصادم آئینی راہ اپنائی اور اس کا سب سے پہلا مظاہرہ1949ء میں منظور ہونے والی قراردادِمقاصد کی صورت میں ہمارے سامنے آتا ہے۔
جس طرح اگست1947ء میں انتہائی نازک اور اہم موقعہ پر قائداعظم نے پاکستانی کی آئین سازاسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے ملک کی اقلیتوں کو مکمل تحفظ اور برابر کے حقوق کی یقین دہانی کرائی اور دنیا کے سامنے ایک معتدل،روشن خیال اور ترقی پسند پاکستان کا چہرہ پیش کیا تھا، اسی طرح وزیراعظم محمد نوازشریف نے یہ تقریر ایک ایسے موقعہ پر کی ہے جب پاکستان نہ صرف انتہا پسندی،دہشت گردی اور مذہبی منافرت کے خلاف اپنی بقا کی جنگ لڑرہا ہے بلکہ دنیا بھر میں اْس کے بارے میں پائے جانے والے غلط تاثرات کو دور کرنے کی اشد ضرورت بھی ہے۔کراچی میں اس تقریر سے قبل ایک موقعہ پر وزیراعظم یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ وہ پاکستان کو ایک لبرل اور ترقی پسند ملک کی صورت میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ لودھراں میں بھی لوگوں کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ وہ آئین اور قانون کی بالادستی پر یقین رکھتے ہیں اور کسی قیمت پر کسی فرد کو دوسروں پر اپنی مرضی ٹھونسنے اور ملک میں کسی کو بھی مذہب اور فرقہ کی بنیاد پر بے گناہ لوگوں کے خون سے ہولی کھیلنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
وزیراعظم کے ان خطابات سے نہ صرف انتہا پسند اور دہشت گردعناصر کی حوصلہ شکنی ہوگی،بلکہ پاکستان کی اکثریتی آبادی کے دلوں میں اعتماد اور اْمید کی لہر دوڑجائے گی جو نفرت،عدم برداشت 
اور تشدد کی اس فضا میں مایوسی کا شکار ہوچکی تھی۔وزیراعظم نے جو کچھ کہا ، وہ پاکستانیوں کے دل کی آواز اور ملک کے مستقبل کے بارے میں قائد اعظم کے نظریات اور خیالات سے بالکل ہم آہنگ ہے۔اس کا ثبوت عملی طور پر عوام نے کئی مواقع پر دیا۔ماضی میں تمام انتخابات کی طرح2013ء کے پارلیمانی انتخابات میں بھی پاکستانی ووٹرز نے انتہا پسند مذہبی سیاسی جماعتوں کو مسترد اور جمہوری پارٹیوں کے نمائندوں کو منتخب کر کے ثابت کیا کہ وہ پاکستان کو ایک معتدل پسند راہ پر چلانا چاہتے ہیں۔
وزیراعظم کی تقریر اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ یہ ایک ایسے موقعہ پر کی گئی، جب ہمارے ہمسایہ ملک میں حکمران جماعت بی جے پی کی کھلم کھلا حمایت سے اقلیتوں کو تشدد کا نشانہ بنایاجارہا ہے۔ نفرت،تشدد اور عدم برداشت کی ایک ایسی فضا قائم کی جارہی ہے کہ ہندو اکثریت سے تعلق رکھنے والے باشعور اور اعتدال پسند عناصر بھی احتجاج کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔دانشوروں،تاریخ دانوں،طلبا،یونیورسٹی پروفیسروں حتیٰ کہ سابق ملٹری افسروں کی طرف سے بھی احتجاج کیاجارہا ہے کہ حکمران جماعت خصوصاً وزیراعظم نریندرمودی نے فاشسٹ عناصر کی کارروائیوں پر چْپ سادھ کر اس رجحان کو تقویت دی ہے،اس سے بیرونی دنیا میں بھارت کی بدنامی ہورہی ہے اور وزیراعظم مودی کو اس کا براہ راست ذمہ دار ٹھہرا کر تنقید کانشانہ بھی بنایا جا رہا ہے۔حال ہی میں برطانیہ کے دورے کے دوران اْنہیں اخباری نمائندوں کی طرف سے اس مسئلے پر تیز اور تْند سوالات کا سامنا کرناپڑا،جبکہ نریندرمودی کے پاس ان سوالات کا کوئی جواب نہیں تھا۔اْنہوں نے یہ کہہ کر اپنی جان چھڑائی کہ بھارت میں ہونے والے ہر واقعہ کی بھارتی حکومت ذمہ دار نہیں۔
اس کے برعکس وزیراعظم محمد نوازشریف کے الفاظ میں پاکستانی عوام ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے لوگوں کیلئے ایک پیغام پنہاں ہے کہ پاکستان کے عوام اور اْن کے حکمران انتہا پسند نظریات کے حامی نہیں بلکہ اعتدال پسند، پْرامن اور انصاف اور برابری کے اصولوں پر مشتمل ایک معاشرہ کے قیام کے خواہش مند ہیں۔دہشت گردی کے خلاف نیشنل ایکشن پلان کے تحت اس وقت ملک بھر میں فوج،پولیس،قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں اور مرکزی و صوبائی حکومتوں کے تعاون سے جو مہم جاری ہے،وزیراعظم کی تقاریر سے اْس مہم میں باقی رہنے والے خلاء کو پْر کرنے میں مدد ملے گی؛کیونکہ انتہا پسند عناصر اور دہشت گردوں کو جسمانی طور پر ختم کرنا کافی نہیں،بلکہ صحیح اسلامی فکر کے مطابق ایسی سوچ کو فروغ دینے کی ضرورت ہے‘ جو آئندہ انتہا پسندی پیدا کرنے کا باعث نہ بنے۔نیشنل ایکشن پلان کے20نکاتی پروگرام کے تحت دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری ہے اور اس جنگ میںہماری فوج اور پولیس کے جوان اور افسران جان کی قربانی بھی پیش کررہے ہیںلیکن نظریاتی محاذ پر دہشت گردوں کے پھیلائے ہوئے گمراہ کْن نظریات کے خلاف ایک واضح اور دوٹوک موقف کی کمی کو بْری طرح محسوس کیا جارہا تھا۔وزیراعظم کی طرف سے ان خیالات کے اظہار کے بعد عوام میں دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ پیدا ہوگا،اور بیرون ملک بھی پاکستان کے امیج میں تبدیلی آئے گی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved