تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     15-11-2015

خبر نامۂ شب خُون

برادرم شمس الرحمن فاروقی نے ''شب خون‘‘ بند کیا تو ادبی دنیا میں سوگ طاری ہو گیا، لیکن اس کی تلافی اس طور ہو گئی کہ ''خبر نامۂ شب خون‘‘ نے اس کی جگہ لے لی۔ اب یہ مایوس کن خبر آئی ہے کہ دسمبر سے یہ پرچہ بھی بند کیا جا رہا ہے۔ اگر بھارتی قانون کے مطابق صاحبِ موصوف کے خلاف اس پر مقدمہ دائر ہو سکتا ہو تو اہلِ ادب کو اس نیک کام میں دیر نہیں کرنی چاہیے کہ لوگوں کو ایک چیز کی عادت ڈالتے ہیں اور پھر ہاتھ کھینچ لیتے ہیں۔ یہ ایک سہ ماہی پرچہ تھا اور بہت سے ادبی جریدوں پر بھاری۔ اے کمال افسوس ہے تجھ پر، کمال افسوس ہے!
اس دفعہ اس کے چار پانچ شمارے اکٹھے نظر نواز ہوئے ہیں جبکہ پہلا جنوری تا مارچ کا ہے۔ مضامین ایک سے ایک بڑھ کر ہیں۔ گوپی چند نارنگ نے ''اُردو والے اور احساس کمتری‘‘ کے عنوان سے مضمون جمایاہے۔ سب سے پہلے تو یہ ایک خوشگوار حیرت کا باعث ہوا کہ نارنگ صاحب کی تحریر اور شمس الرحمن فاروقی کے پرچے میں؟ اگر غلطی سے ایسا ہوا ہے تو اس طرح کی غلطیاں آئندہ بھی ہوتی رہنی چاہئیں۔ آپ لکھتے ہیں کہ اُردو والے اگر صرف اُردو پڑھتے ہیں تو وہ بھی کوئی اچھی بات نہیں؛ چنانچہ اس وقت جو نسلیں آپ کے سامنے آ رہی ہیں، وہ ایسی کھچڑی زبان بولتی ہیں جو نہ اچھی ہندی ہے اور نہ اچھی اُردو۔ اگر کوئی اچھی ہندی بولے، سمجھ میں آنے والی، جس میں تصنع نہ ہو، خواہ مخواہ بناوٹ کے طور پر اس میں لفظ ڈالے نہ جائیں سنسکرت کے، تو وہ اچھی بات ہے، لیکن اس وقت جو ہمارے سامنے نسلیں آ رہی ہیں وہ ایسی گونگی 
بہری نسلیں ہیں جو نہ اپنی زبان میں ٹھیک گفتگو کر سکتی ہیں، نہ انگریزی میں گفتگو کر سکتی ہیں۔ اس کا کچھ تعلق ہمارے قومی احساسِ کمتری سے بھی ہے۔ اس سے ہمیں نکلنا چاہیے۔ معاشی قدر کا تعلق اچھی تعلیم سے ہے اور بی اے کی سطح تک جن کی مادری زبان اُردو ہے وہ لوگ اُردو کو ایک مضمون کے طور پر پڑھیں اور جن کی مادری زبان اُردو نہیں ہے، وہ اردو کو شوقیہ اختیار کر سکتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ اس کے بعد ایک نہایت اہم مضمون شمس الرحمن فاروقی کے قلم سے مرحوم نقاد اور شاعر سید حامد پر ہے جس میں ان کی شخصیت کے مختلف پہلوئوں پر سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے۔ علاوہ ازیں محمود الحسن کے قلم سے پاکستانی عالم، محقق اور نہایت معتبر شخصیت محمد کاظم پر مضمون ہے جو اپنے طور پر بے حدوسیع اور اہم ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ عربی کے عالم اور اردو کے ممتاز ادیب کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی اور علم و ادب سے وابستہ معتبر ہستیوں نے جن کے تبحرِعلمی کی گواہی دی۔ ان کی زندگی کا دھارا بدلنے والے واقعات اس مضمون میں تفصیل سے بیان کئے گئے ہیں جن کا اندازہ ہم بہت سے پاکستانیوں کو بھی اب اس مضمون سے ہوا ہے۔ واضح رہے کہ یہ مضمون پاکستان رائٹرز فورم کے زیر اہتمام محمد کاظم کی یاد میں منعقدہ تقریب میں پڑھا گیا تھا۔ اسی طرح اُردو کے بڑے ادیب اور مجاہدِ آزادی مظفر حسین کی شخصیت اور علم و فن پر ویر ساورکر نے روشنی ڈالی ہے؛ جبکہ وشوا ناتھ عادل نے فلمی دنیا سے وابستہ بھولی بسری یادیں تازہ کی ہیں جس میں دونوں ملکوں کی فلم انڈسٹری سے متعلقہ شخصیات کا احاطہ کیا گیا ہے ، جو بے حد دلچسپ اور معلومات افزاء تحریر ہے۔
الف ۔خ نے صبا اکرام کے حالات و واقعات پر سے پردہ اُٹھایا ہے جو بجائے خود خاصے کی چیز ہے۔ جدیدیت سے غزل میں تہہ داری کے سوال پر ان کا مؤقف اُردو شاعری میں جدیدیت کی آمد کے بعد یہ ہے کہ نظم کے ساتھ غزل نے بھی نیا رُخ اختیار کیا۔ ظفر اقبال اور عادل منصوری جیسے تخلیق کاروں نے تجربات کیے، غزل خوبصورت شکل اختیار کر گئی۔ اس میں تہہ داری پیدا ہوئی۔ موجودہ غزل میں جدید اور کلاسیکی، دونوں کا امتزاج نظر آتا ہے۔ اس نے سماجی صورتِ حال کو اپنے اندر سمیٹا ہے۔
'باقر مہدی سے چند ملاقاتیں‘ کے عنوان سے سلام بن رزاق نے تفصیل سے گفتگو کی ہے جس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ سید امین اشرف کی شاعری پر معروف نقاد احمد محفوظ نے روشنی ڈالی ہے۔ صفدر رشید نے شمس الرحمن فاروقی سے مفصل اور بے دھڑک گفتگو ریکارڈ کی ہے اور ان کے سوالات کے جوابات سے ہمیں آگاہ کیا ہے جو زیادہ تر جدید تنقید کے بارے میں ہیں۔ ایک دلچسپ سوال یہ تھا کہ غزل کا مستقبل آپ کے نزدیک کیا ہے؟ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ظفر اقبال نے غزل کو بہت توڑا مگر وہ کچھ نہیں بنا سکے، جو بنایا ہے وہ نظم کے قریب چلا گیا ہے۔ فاروقی صاحب کا جواب یہ تھا کہ مستقبل کی خبر دینا میری استطاعت سے باہر ہے لیکن ماضی کی روشنی میں یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ غزل کے منسوخ یا متروک ہونے کا امکان نہیں ہے اور یہی بہتر بھی ہے۔ ظفر اقبال صاحب نے غزل میں نیا رنگ بھرنے، یا حسرتؔ موہانی نے جس غزل کو رائج کیا تھا، اسے بدلنے کی بہت کوشش کی اور وہ اپنی کوشش میں کامیاب بھی ہوئے۔ رہی بات غزل اور نظم کے قریب ہونے یا قریب آ جانے کی تو غزل میں یہ امکان ہمیشہ سے تھا۔ غزل کے اندر قطعہ ڈالنے، یا غزل مسلسل لکھنے کا رواج ہمارے 
ہاں شروع سے رہا ہے۔ ظفر اقبال صاحب نے غزل کی زبان میں تبدیلی لانے، یعنی غزل کو نام نہاد تغزل، سے آزاد کرانے کی سعی بلیغ کی۔ پرانی غزل میں غیرتغزلانہ غزل یا 'اینٹی غزل‘ کی مثالیں وافر ہیں اور ہمارے زمانے میں بھی ظفر اقبال سے پہلے سلیم احمد یہ راہ اختیار کر چکے تھے۔ ظفر اقبال صاحب کا اصل کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے لفظیات اور گرامر دونوں میں تغیر لانے کے عمل کو زور و شور سے اور تسلسل سے برتا۔ گرائمر میں تبدیلیاں لانے کا عمل تو انہوں نے 'گلافتاب‘ کے بعد تقریباً ترک ہی کر دیا(حالانکہ 'گلافتاب‘ کے بعد جو کوششیں انہوں نے اس ضمن میں کیں ان میں بارآوری کے امکانات زیادہ تھے) مگر تغزل سے باہر کی زبان اور بظاہر غیر سنجیدہ مضامین کو غزل میں رائج کرنے کا عمل ان کے یہاں اب بھی جاری ہے؛اگرچہ ہر غزل میں کامیابی کی سطح یکساں نہیں ہے۔
اس کے علاوہ محمد ظفر اقبال نے بھی فاروقی صاحب سے سوال و جواب کی محفل سجائی ہے۔ پرچے میں اور بھی بہت کچھ ہے۔ الٰہ آباد سے شائع ہونے والے اس مختصر پرچے کی قیمت 25 روپے رکھی گئی ہے۔
آج کا مقطع
ہم ان کی بزم کا احوال کیا کہیں کہ ظفرؔ
جو اجنبی ہے وہاں آشنا سے آگے ہے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved