بھارتیہ جنتا پارٹی نے ایک بار پھر بے حِسی اور بے عملی کی فصل کاٹی ہے۔ ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ اقتدار ملا ہے اور بی جے پی نے اس کی ناقدر شناسی کی ہے۔ وہ ایک بار پھر اپنے تمام وعدے بھول گئی، قول و قرار یاد نہیں۔ یہ بات البتہ زیادہ یاد رکھنے کی ہے کہ اب کے بی جے پی نے جو فصل کاٹی ہے وہ مکمل طور پر اس کی بوئی ہوئی نہیں تھی۔ مخلوط حکومت میں اتحادیوں کے ناز تو اٹھانا ہی پڑتے ہیں۔ انتہا پسندی کا لیبل ایسا چسپاں ہوا ہے کہ اب اتارے نہیں اتر رہا۔ بی جے پی کا معاملہ بھی مور کا سا ہے جو انتہائی دل کش پَر پھیلاکر ناچتے ناچتے جب اپنے پیر دیکھتا ہے تو رو دیتا ہے! انتہا پسندوں سے تعلق بھی کمبل ہوگیا ہے۔ بی جے پی کمبل کو چھوڑنا چاہتی ہے مگر کمبل اسے چھوڑنے کو تیار نہیں۔
شیو سینا، بجرنگ دَل اور وشوا ہندو پریشد نے ایک بار پھر بی جے پی کی لٹیا ڈبونے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ نریندر مودی انتہا پسندوں کو ساتھ رکھے ہوئے ہیں اور ان کے آگے قدرے بے بس دکھائی دے رہے ہیں۔
بہار میں وہی ہوا جس کا خدشہ تھا۔ بی جے پی کے اقتدار کی فصیل میں شیو سینا اور دیگر انتہا پسند تنظیموں کی پھیلائی مذہبی و نسلی منافرت نے ایسی نقب لگائی کہ پارٹی کی قیادت کچھ بھی سمجھنے سے قاصر دکھائی دے رہی ہے۔ شیو سینا نے گائے کے ذبیحے کا ایشو کھڑا کرکے بہار اسمبلی کے انتخابات میں بی جے پی کے تمام امکانات پر چُھری پھیر دی۔ شیو سینا اور بجرنگ دَل نے گائے کا گوشت کھانے کا بہانہ گھڑ کر مسلمانوں کے خلاف نفرت کی جو لہر پیدا کی وہ ووٹ بینک بڑھانے کی غرض سے تھی مگر پورا معاملہ بیک فائر کرگیا یعنی بہار اسمبلی میں بی جے پی منہ کے بل گِر پڑی۔ اور یہ بھی پہلی بار ہوا ہے کہ بی جے پی نے عام انتخابات میں شکست کا منہ دیکھنے کے بعد اپنی غلطی تسلیم کرنے میں دیر نہیں لگائی اور غلطی نہ دہرانے کا عزم بھی ظاہر کیا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ شیو سینا کی بے عقلی نے بی جے پی کو کتنی شدت سے ڈسا ہے۔ بی جے پی کے ترجمان نے کہا ہے کہ شیو سینا اور اسی قبیل کی دیگر تنظیموں کی ناقص سوچ بی جے پی کو بھی لے ڈوبی یعنی گائے کا گوشت کھانے کا الزام لگاکر مسلمانوں کو قتل کرنا اور مجموعی طور پر تمام اقلیتوں سے نفرت کا اظہار بہت مہنگا پڑگیا۔
بی جے پی کی قیادت سمجھتی ہے کہ شیو سینا، بجرنگ دَل اور وشوا ہندو پریشد نے گائے کا گوشت کھانے کا ایشو کھڑا کرکے مسلمانوں سمیت اقلیتوں کے خلاف نفرت کی جو لہر پیدا کی، اس کے حوالے سے خاموش رہنا پارٹی اور بالخصوص نریندر مودی کو بہت مہنگا پڑا ہے۔ اس خاموشی ہی کے باعث بہار میں تمام انتخابی امکانات دُھول چاٹتے رہ گئے۔ چلیے، نریندر مودی کو اپنی غلطی کا احساس تو ہوا۔ ع
یہاں تک تو پہنچے، یہاں تک تو آئے
نریندر مودی نے گجرات کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے دو انتخابی مدتوں تک کام کرکے یہ جان لیا تھا کہ ہندو انتہا پسند رجحانات کی حامل ریاست کس طور چلائی جاتی ہے۔ انہیں تمام مشکلات کا اندازہ تھا، پھر بھی شیو سینا کے سامنے مِٹی کے مادھو ثابت ہوئے۔ لوگوں نے بہت سمجھایا مگر وہ کچھ سمجھنے کے لیے تیار نہ ہوئے۔ پانی سَر سے گزرا تو بات سمجھ میں آئی۔ ؎
لوگ سمجھاتے رہ گئے دل کو
ہوش جاتے رہے تو ہوش آیا!
خیر، لالو پرشاد یادو نے ایک بار پھر ثابت کردیا کہ منافرت کی لہر کے خلاف جاکر ہی کچھ پایا جاسکتا ہے، یعنی یہ کہ مذہبی رواداری اور ہم آہنگی کی راہ پر گامزن رہ کر ہی حقیقی کامیابی پائی جاسکتی ہے۔ بہار کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے لالو پرساد یادو کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے بہار میں کہیں بھی منافرت کی سیاست کو پنپنے نہیں دیا۔ ان کے دو ادوار ختم ہونے کے بعد ان کی اہلیہ رابڑی دیوی کی وزارتِ اعلیٰ کے دور میں بھی مذہبی ہم آہنگی کی پالیسی پر عمل کیا جاتا رہا۔ اقتدار سے مکمل بے تعلق ہوکر بھی لالو پرشاد یادو نے بہار میں مسلمانوں سمیت تمام اقلیتوں کے لیے بہترین ماحول یقینی بنائے رکھا۔ مذہبی منافرت کے خلاف سخت لائن آف ایکشن اپناکر لالو نے کمال کر دکھایا ہے۔
بی جے پی میں شامل چند نا عاقبت اندیش قسم کے لوگوں نے آخر تک مسلمانوں کے خلاف جاکر ووٹرز کو متوجہ کرنے کی کوشش کی۔ رائے دہندگان کو رام کرنے کے چکر میں وہ مسلمانوں کے لیے راون بن گئے! گائے کے ایشو پر انتخابی مہم کے آخری لمحات میں ایک اشتہار بھی شائع کرایا گیا جو پوری شدت سے بیک فائر کرگیا یعنی اس نے بی جے پی کے منہ پر لات مار دی! مسلمانوں کے خلاف جذبات بھڑکاکر ہندوؤں سے ہمدردی بٹورنے کی کوشش بی جے پی کو دھتکار سے دوچار کرگئی۔ یہ بات لالو پرساد یادو بہت پہلے سمجھ چکے ہیں کہ ہم آہنگی ہی کے ذریعے بہترین ترقی دوست ماحول پیدا کیا جاسکتا ہے مگر ''تخت دہلی‘‘ پر براجمان ہونے والوں کی سمجھ میں یہ بات اب تک نہیں آئی!
بہار اسمبلی میں شاندار کامیابی حاصل کرنے کے بعد راشٹریہ جنتا دل کے کارکن 175 کلو کا لڈو بناکر لائے اور اپنے لیڈر کے چرنوں میں رکھ کر انہیں ''لڈو پرساد یادو‘‘ میں تبدیل کردیا! بی جے پی کے لیے یہ لڈو ہزاروں من کے ایسے تودے جیسا ہے جو سَر پر آن گرا ہو! اُدھر من ہی من میں لڈو پُھوٹے اور اِدھر سَر پر لڈو پُھوٹا! لالو پرساد نے دو عشروں سے بھی زائد مدت سے جو حکمتِ عملی اپنا رکھی ہے، اُس نے بی جے پی کو یہ دن دکھایا۔ مرکز میں کئی بار نصیب ہونے والے اقتدار کے لڈو کو بی جے پی کی قیادت نے شادی کا لڈو ثابت کرنے کی کوشش کی، جو کھا نہ پائے وہ بھی پچھتائے اور جو کھائے وہ بھی پچھتائے!
دیوالی رنگوں اور روشنیوں کا تہوار ہے، گھر گھر چراغ جلائے جاتے ہیں۔ جب ملک بھر میں خوشیاں منائی جارہی تھیں تب ملک کی حکمراں جماعت کے آنسو نکل آئے۔ اب کے دیوالی نے اپنی آمد سے ذرا قبل بی جے پی کے لیے کم از کم بہار میں تمام چراغ بجھاکر رکھ دیے! شیو سینا، بجرنگ دَل اور وشو ہندو پریشد نے ع
'اِس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے ،والا کام کر دکھایا ہے۔ مخالف جماعتوں کو راون کی طرح جلاکر راکھ کرنے کے بجائے اس چراغ نے اپنے ہی امکانات بھسم کر دیے۔ ہندوؤں کے سب سے بڑے تہوار کی آمد کے موقع پر یوں شکست کھا جانا بی جے پی کے لیے اچھا شگون نہیں، اور اِس سے بھی بڑی بدشگونی ہے شیو سینا اور دیگر اتحادی تنظیموں کا پورس کے ہاتھی ثابت ہونا اور اپنی ہی صفوں کو الٹ کر رکھ دینا۔ اور سچ یہ ہے کہ سب سے بڑی بدشگونی ہے جنونی ہندوؤں کو اب تک اپنے ساتھ رکھنا۔ شیو سینا اور اِسی قبیل کی دیگر جماعتوں کے ہوتے ہوئے بی جے پی کو کسی اور دشمن کی ضرورت نہیں۔ ع
ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو!
شیو سینا نے غالبؔ کا ''کلیہ‘‘ بھی غلط ثابت کردیا۔ غالبؔ نے کہا ہے ع
قطرہ دریا میں جو مل جائے تو دریا ہو جائے
شیو سینا وہ قطرہ ہے جو دریا میں ملے تو دریا کو بھی تنگ دامانی سے دوچار کرکے قطرے میں تبدیل کردے! نریندر مودی کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے، ع
کام اچھا ہے وہی جس کا مآل اچھا ہے
''وہی مرغی کی ایک ٹانگ‘‘ کے مصداق جنونی ہندوؤں نے چند ایشوز اپنا رکھے ہیں۔ گائے کو بچانے کے نام پر معاشرے کی ہم آہنگی داؤ پر لگانا ان کا وتیرہ رہا ہے۔ یہ کام وہ ہے جس کا مآل اچھا نہیں۔
بی جے پی کو کم از اس بار تو سیکھ ہی لینا چاہیے کہ ندی نالوں کا مزاج مرکزی دھارے کی سیاست کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہو سکتا۔