شمارہ نمبر25میں جو خاصے کی چیزہے وہ انتظار حسین کی کتاب ''اپنی دانست میں‘‘ سے کچھ منتخب جملے ہیں جن میں سے کچھ حسب ذیل ہیں۔
٭ اب وہ زمانہ نہیں کہ شعر‘شاعر کی زبان سے نکلا اور خوشبو کی طرح دور و نزدیک پھیلتا اور دلوں میں اترتا چلا گیا ۔ اب نظم سن کر سننے والا پہلے شاعر کے منہ کوتکتا ہے‘ پھر نقاد کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھتا ہے۔ نقاد تنقید کے نام پر اپنے طوطا مینا اڑاتا ہے(ص 71)
٭ نقادوں پر زیادہ اعتبار نہیں کرنا چاہیے۔ اُبھرے ہوئوں کو ڈبونے اور ڈوبے ہوئوں کو ترانے کے شوق میں صریحاً وقتاً فوقتاً ان ڈوبے ہوئوں کو بھی ترانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں جن کا ڈوب جانا ہی شاعری کے حق میں بہتر ہوتا ہے(ص 91)
٭ شاعر کو آپ کسی کُھونٹے سے باندھ کر تو نہیں رکھ سکتے۔ اس کی مرضی ہے جتنی دیر کسی چراگاہ میں چرے چگے پھر جس طرف اس کے سینگ سمائیں نکل جائے(ص 107)
٭ منشا یاد میں ایک بات ایسی ہے جو صرف اچھی لڑکیوں میں پائی جاتی ہے کہ ایک بار ملنے کے بعد دوبارہ ان سے ملنے کو جی چاہتا ہے(ص111)
٭ اصل میں ادب میں جب کوئی نیا تجربہ ہوتا ہے یا کوئی نیا طرز اظہار نمودار ہوتا ہے تو اسے مخالفوں سے خطرہ کم ہوتا ہے، مقلدوں سے زیادہ ہوتا ہے۔ ان کے ہاتھوں میں وہ ایک فیشن بن جاتا ہے(ص 111تا112)
٭بات یہ بھی ہے کہ لکھنؤ کے دروازے پر ایک جن بیٹھا ہے جو شخص بھی لکھنؤ میں داخل ہونے کی کوشش کرتا ہے یہ جن اس سے نام پوچھتا ہے۔ اس جن کا نام رتن ناتھ سرشار ہے(ص122)
٭ادب میں ایسی مثالیں مل جائیں گی کہ خود لکھنے والا اس سے بے خبر ہے کہ اس کے فکر و احساس کا رشتہ کہاں جا کر کس اگلے پچھلے لکھنے والے سے ملتا ہے(ص106)۔
٭ ہمارا دوست مظفر علی سید داد دینے میں بہت بخیل تھا مگر جب فیاضی پر آتا تھا تو شمس الرحمن فاروقی سے بھی آگے نکل جاتا تھا(ص185)۔
٭ برا ہو پرنٹنگ پریس کا‘ جس نے ایک طرف لکھے ہوئے لفظ کی توقیر کو ختم کیا دوسری طرف بولے ہوئے لفظ کی اہمیت پر پردہ ڈال دیا اور سننے والوں سے ان کا حافظہ چھین لیا۔ اب ہم تحریری روایت ہی کو سب کچھ جانتے ہیں(ص187)۔
اس کے بعد صاحب موصوف کا وارث علوی کے بارے میں بہت عمدہ مضمون ہے جس کا آغاز اس طرح کرتے ہیں۔ یہ بھی ایک ماجرا ہے کہ ایک ہنر مند جاتا ہے تو آگے پیچھے کئی ایک اور چلے جاتے ہیں۔ ان دنوں کچھ ایسا ہی ہوا۔ابھی ہم دائود رہبر کے چلے جانے پر اپنے افسوس کا اظہار کر رہے تھے کہ ایک ایسے ناشر نے جس نے اس بے فیض عہد میں اردو ادب کے پرانے سوتوں کو جو کب سے بند پڑے تھے‘ پھر سے کھولنے کا اہتمام کیا‘ دنیا سے گزر گیا۔ یہ تھے سنگ میل والے نیاز احمد۔اور عین اس ہنگام ہندوستان سے خبر آئی کہ وارث علوی گزر گئے۔ جو جانتے ہیں وہ تو جانتے ہیں‘ جو نہیں جانتے وہ یہ جان لیں تو اچھا ہے کہ اس وقت ہمارے ادب میں جو گنے چنے چوٹی کے نقاد ہیں، ان کے بیچ وارث علوی کی تنقید اس طرح جلوہ گر تھی کہ اس کا لہجہ ہم عصر تنقید سے بالکل الگ نظر آتا۔ عالمانہ اورثقہ لہجے کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اس نقاد نے بات کہنے کا ایسا طور اپنایا تھا کہ فقرہ تیر کا کام کرتا تھا۔
اس وقت ہمارے سامنے ان کی ایک ایسی تحریر ہے جس میں وہ نئے افسانے پر رواں نظر آ رہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ''نئے اردو ادب کی نجات اسی میں ہے کہ نئے افسانے کی گردن بے دریغ مار دی جائے‘‘ مگر کیوں؟ ان کا استدلال سنیے: یہ قتل اس لیے ضروری ہے کہ اردو ادب کو اپنا کھویا ہوا قاری مل جائے... ادب کی تخلیقی اصناف زندہ نہ ہوں تو ادب تحقیقی ‘ تنقیدی‘ تاریخی ‘ مذہبی اور عالمانہ کتابوں کا ذخیرہ بن کر رہ جاتا ہے۔ ہمارے یہاں بیورو اور اکیڈمیاں ایسی ہی کتابیں ضائع کر رہی ہیں، لیکن یہ کتابیں زندگی کی علامت نہیں‘ موت کی نشانیاں ہیں‘ زبان کو صرف شاعر اور افسانہ نگار زندہ رکھتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جب زبان اپنی مرگ کے قریب آتی ہے تو پنڈت اور عالم زیادہ پیدا ہوتے ہیں۔ سنسکرت کے مرنے کے بعد بھی سنسکرت کا پنڈت نہیں مرا تھا بلکہ آج بھی زندہ ہے۔ ہتھوڑا جادوئی چھڑی سے زیادہ دیرپا ہوتا ہے، جب ٹوٹ جائے تو دوبارہ بنایا جا سکتا ہے۔ جادوئی چھڑی ایک بار گم ہو جائے تو اس کا دوبارہ ملنا ایک معجزہ ہی ہوتا ہے ۔ اور آج اردو افسانہ اسی معجزے کے انتظار میں ہے‘‘۔
اس بے مثال نقاد پر دوسرا مضمون محمد شاہد حمید کا تحریر کردہ ہے جس میں بھی وارث علوی کے فن پر کھل کر بحث کی گئی ہے جبکہ اسی موضوع پر تیسرا مضمون شاہ فیصل کا ہے۔ اس کے مطابق وارث علوی نے لکھا ہے: ایک نوجوان بزرگوار فرماتے ہیں ''وارث علوی وغیرہ کو کوئی تو سمجھا سکتا ہے کہ تنقید کی زبان کا کیا معیار اور نمونہ ہے۔ اور کچھ نہیں تو خلیل الرحمن اعظمی‘ وحید اختر‘ وزیر آغا اور فاروقی وغیرہ کی تنقیدی تحریریں سامنے ہیں‘‘ عین صاحب! کوئی مجھے سمجھا نہیں سکتا۔ وہ جو سمجھانے آتے ہیں پوپلے منہ سے باتیں کرتے ہیں کیونکہ انہوں نے اپنے تمام دانت اکھڑوا لیے ہیں۔ نقاد کو شریف بنانے کے تمام ہتھکنڈوں سے میں واقف ہوں۔ بچھو کا ڈنک نکال لیجیے ‘ وہ صرف ایک لعاب دار کیڑا رہ جاتا ہے۔ میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو گزرے دنوں کا قصہ معطر زبان میں سناتے ہیں اور روح کے جہنم زار کا بیان حسن خانوں کی زبان میں کرتے ہیں تاکہ نفاست پسندوں میں نفیس کہلا سکیں۔ میں جانتا ہوں کہ بیوقوفوں پر تنقید ممکن نہیں‘ انہیں صرف بے نقاب کیا جا سکتا ہے اور بے نقاب کرنے میں نقاد کو جو آپسی لذت ملتی ہے اس کی تلچھٹ پر میں نے کبھی قناعت نہیں کی‘ جام پر جام لنڈھائے ہیں۔ غیظ و غضب محرکِ فکر و خیال ہے اور اس سرچشمہ پر شرافت کی دیوار چننے کا کام میں نے دوسروں کے سپرد کر رکھا ہے۔ میں جب ڈھائی تولے کے شاعر کو سورما اور تنقید کے بونے کو باون گزا کہنے سے انکار کرتا ہوں تو لوگ میری زبان کو غیر مہذب کہتے ہیں‘‘
گزر جانے والے ہمارے دوست شہزاد احمد کو ڈاکٹر تبسم کاشمیری نے یاد کیا ہے اور ان کی شاعری اور نفسیات سمیت ان کی دیگر مصروفیات کا جائزہ لیا ہے اور ایک دلچسپ لطیفہ بھی بیان کیا ہے کہ ایک بار حلقے کا انتخاب معمول کے مطابق آیا۔ شہزاد صاحب نے انتخاب لڑنے کا اعلان کیا۔ ان کے مقابل جاوید شاہین تھے۔ جاوید شاہین نے پوچھا ووٹ کسے دو گے؟ میں نے کہا شہزاد کو۔ کہنے لگے میں اس سے بڑا شاعر ہوں‘ شہزاد کی ایک بیوی ہے اور میری دو بیویاں ہیں‘ اس لیے ووٹ مجھے دو۔ اس کے علاوہ سحر انصاری نے شہزاد احمد سے ملاقاتوں کا دلچسپ احوال بیان کیا ہے۔
اور ‘ اب جام پور سے موصول ہونے والے شعیب زمان کے اشعار ؎
خوف نے جب دستک کے لہجے پہنے تھے
جانے کس نے کس کے جوتے پہنے تھے
جس دن سے اسکول کا رستہ دیکھا تھا
ماں نے خواب اور ہم نے بستے پہنے تھے
جن پر جنگل صاف دکھائی دیتا تھا
دیواروں نے ایسے پردے پہنے تھے
دھوپ کی شدت بے معنی سی لگتی تھی
سب لوگوں نے کالے چشمے پہنے تھے
اس کو پاگل یا پھر میں درویش کہوں
جس نے قد سے لمبے کپڑے پہنے تھے
چھپتے چھپتے: اڑتی ہوئی خبر ہے زبانی طیور کی کہ بطور چیئرمین پی ٹی وی عطاء الحق قاسمی کی سمری وزیر اعظم کو ارسال کر دی گئی ہے۔ مزید بہتر ہو اگر ان کی جگہ امجد اسلام امجد کو تعینات کر دیا جائے جو اس ادارے کو بدستور فعال اور زندہ کر سکتے ہیں۔
آج کا مطلع
کہ اُس بزم میں کچھ اپنا پتا بھی دینا
پائوں پر پائوں جو رکھنا تو دبا بھی دینا