تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     16-11-2015

خراٹے اور تعلیم

تحقیق کا بازار گرم ہے اور ایسی خبریں دھڑا دھڑ آرہی ہیں جنہیں پڑھ کر ہم انگشت بدنداں اور ہمارا ناطقہ سر بہ گریباں رہتا ہے۔ کبھی کبھی ہمیں ایسا لگتا ہے کہ تحقیق کا سارا میلہ صرف اس لیے سجایا گیا ہے کہ کسی نہ کسی طور ہمیں تنقید کا ہدف بنایا جاسکے۔ ہمیں تو ہر تحقیق بدوش خبر تیر کی طرح اپنی طرف آتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ 
نیوزی لینڈ کے شہر ڈونیڈن کی وناگو یونیورسٹی کے ماہرین کی تحقیق پر مبنی ایک خبر کی اشاعت نے ہمیں مزید الجھا دیا ہے۔ وناگو یونیورسٹی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ زیادہ خراٹے لینے والے اسکول میں خراب کارکردگی کا مظاہرہ کرسکتے ہیں یعنی وہ بہتر تعلیم پانے کی پوزیشن میں نہیں رہتے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ سانس لینے میں دشواری کے باعث بچہ بھرپور نیند میں خراٹے لیتا ہے جس کے نتیجے میں آگے چل کر ایک طرف تو، ذہن کے کمزور ہوجانے سے، تعلیم کے حصول میں دشواری پیش آتی ہے اور دوسری طرف بچہ کھیلوں میں بھی کمزور کارکردگی کا اسیر ہو جاتا ہے۔ خبر کی سُرخی مزید آگ لگانے والی تھی جس میں لکھا تھا کہ خراٹے لینے والے بچے اسکول میں نالائق ثابت ہوتے ہیں! 
اس خبر نے ہمارے گھر میں ہنگامہ کھڑا کردیا۔ ہم بھی نیند میں خراٹے لینے کے عادی ہیں۔ اہل خانہ کا کہنا ہے کہ کبھیی کبھی ہمارے خراٹے اتنے بھیانک ہوجاتے ہیں کہ اگر انہیں ریکارڈ کیا جائے تو ہارر فلموں کے کلائمیکس میں بخوبی بروئے کار لائے جاسکتے ہیں! یہاں ہم یہ عرض کردیں کہ اہل خانہ اور بالخصوص اہلیہ کی ہر بات سے متفق ہونا ہمارے لیے لازم نہیں۔ ہر معاملے میں ہماری اپنی بھی ایک رائے ہے مگر چونکہ ہم انتہائی امن پسند واقع ہوئے ہیں اور فسادِ خلق کی راہ ہموار کرنا ہماری طینت میں نہیں اس لیے گھر کی حدود میں ہم اپنی رائے اپنے تک محدود رکھتے ہیں! جب کبھی ہم نے اس روش کو ترک کرنے کی حماقت کی ہے، حبیب جالبؔ بے ساختہ یاد آکر رہ گئے ہیں ؎ 
دل کی بات لبوں پر لاکر اب تک ہم دکھ سہتے ہیں 
ہم نے سنا تھا اس بستی میں دل والے بھی رہتے ہیں
خراٹوں اور خراب تعلیمی کارکردگی کے تعلق پر مبنی تحقیق کے حوالے سے ہمارے بارے میں اہل خانہ کا تبصرہ یہ تھا کہ ہم پر خراٹے کوئی منفی اثر مرتب نہیں کرسکتے کیونکہ ہم اب اسکول نہیں جاتے! ہاں، ذہن کمزور پڑنے کی بات سے اہل خانہ اور خصوصاً اہلیہ نے مکمل اتفاق کیا اور سند یہ پیش کی کہ اب ہم ہر معاملے میں کالم کا موضوع سُونگھتے پھرتے ہیں اور انٹ شنٹ لکھ کر موضوع کو عبرت ناک انجام سے دوچار کرکے دم لیتے ہیں! ہماری کالمانہ صلاحیتوں کو کچھ اِسی نوعیت کا ''خراجِ عقیدت‘‘ ہمارے احباب بھی پیش کرتے رہتے ہیں۔ ہم پھر وضاحت کردیں کہ دوستوں کی بھی ہر رائے سے متفق ہونا ہمارے لیے قطعی ضروری نہیں! 
ڈنمارک ہی میں تعلیم سے متعلق تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ بچوں کو چھوٹی عمر میں اسکول بھیجنے سے ان میں ذہنی پیچیدگیاں بڑھ جاتی ہیں۔ کنڈر گارٹن میں بچوں کو ایک سال کی تاخیر سے داخل کرانے کی صورت میں ان کی سیکھنے کی صلاحیت بہتر ہوتی ہے اور ان میں خراب رویّہ پنپنے کا امکان 73 فیصد کم ہو جاتا ہے! گیارہ سال کی عمر کے 35 ہزار بچوں کا جائزہ لے کر جب ان کے والدین سے 
سوالات کیے گئے تو معلوم ہوا کہ بڑی عمر میں اسکول میں داخل کرائے جانے والے بچوں میں گیارہ سال کی عمر تک ذہنی ارتکاز قابل رشک رہا۔ بچوں کو بہت چھوٹی عمر میں کھیل کود کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ اگر انہیں خاصی چھوٹی عمر ہی میں اسکول بھیجا جائے تو وہ پڑھنے کے بجائے کھیل کود کے زیادہ عادی ہوجاتے ہیں۔ اور ساتھ ہی ان میں بدمزاجی بھی پنپتی جاتی ہے۔ اس خبر نے ہمارے دل کو کچھ ڈھارس بندھائی۔ بات یہ ہے کہ ہم خاصی بڑی عمر میں اسکول بھیجے گئے تھے۔ وہ دور تھا ہی کچھ ایسا کہ لوگ بچوں سے پیار کرتے تھے، بہت چھوٹی عمر میں ان سے چار پانچ گھنٹے کے لیے جان چھڑانے کا نہیں سوچتے تھے! 
ماہرین کے اندازوں کی روشنی میں تو ہمیں زیادہ ''صاحبِ علم‘‘ ہونا چاہیے تھا کیونکہ ہم نے اسکول دیر سے جانا شروع کیا۔ مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظر تھا۔ حصولِ علم کی طرف مائل ہونے کا رجحان ہم میں خاصا کمزور تھا۔ کھیل کود سے بھی خیر کچھ زیادہ شغف نہ تھا مگر ہاں، اسکول میں جی نہ لگتا تھا اور یاروں کی ٹولی ہاف ٹائم ہی میں اسکول کو داغِ مفارقت دے کر سنیما یا پارک کا رخ کرتی تھی۔ 
ہاف ٹائم میں اسکول سے نکل بھاگنے کے رجحان کا پتا چلتے ہی ہم سب کے اہل خانہ نے ''ایجنسیوں‘‘ کی طرح ہم پر نظر رکھنا شروع کیا۔ کبھی کبھی کسی پارک یا سنیما پر اہل خانہ چھاپا مارتے تھے اور انکاؤنٹر والا ماحول پیدا ہو جاتا تھا مگر ہم بھی دُھن کے پکے تھے، باز نہ آئے! آوارہ خرامی کا (ظاہر ہے، منطقی) نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ ہم کلاس روم میں تو زیادہ قابل ستائش کارکردگی کا مظاہرہ نہ کر پائے، ہاں ''ذہانت‘‘ خوب پروان چڑھتی رہی اور جہاں دیدہ شخصیات نے پیش گوئی کی کہ مزاج کی ٹیڑھ بتا رہی ہے کہ لڑکا ڈھنگ اور ترتیب کا کوئی کام نہ کرسکے گا یعنی فنکاری یا صحافت وغیرہ کی طرف چلا جائے گا! ہمارے بعض احباب کا خیال ہے کہ بزرگوں کی پیش گوئی دونوں حوالوں سے درست ثابت ہوئی! 
خراٹوں کے نتیجے میں حصولِ علم کی صلاحیت متاثر ہونے کی بات کرکے ماہرین نے ہمارے لیے اب مزید تعلیم کا حصول خاصا مشکل بنادیا ہے۔ ارادہ تو یہ تھا کہ ایم فِل وغیرہ کرکے کچھ توقیر پانے کی کوشش کریں مگر ماہرین نے خراٹوں کے ذریعے دخل در معقولات کرکے ہماری ذہنی صلاحیتوں کے مزید پنپنے کی راہ مسدود کردی ہے۔ یعنی نامعلوم مدت تک ہم حلقہ بگوشِ صحافت ہی رہیں گے! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved