ہم دنیا ٹی وی کا الیکشن کارواں لیے بھکر کے اجڑے ہوئے ریلوے اسٹیشن کے سامنے کھڑے بلدیاتی امیدواروں کے ساتھ پروگرام کی ریکارڈنگ میں مصروف تھے کہ مجمع میں کھڑا ایک نوجوان بلند آواز سے بولا: ''بھائی صاحب میں بھی کچھ کہنا چاہتا ہوں، میری بات بھی سنیں‘‘، یہ کہہ کر اس نے میرے ہاتھ میں پکڑے مائیک کو اپنی طرف کھینچنے کی کوشش کی۔ میں سمجھا کہ یہ نوجوان خود بلدیاتی امیدوار ہے یا اپنے سیاسی خیالات کا اظہار ٹی وی پر چاہتا ہے۔ میں نے مائیک اس کی طرف کیا تو کیمرا بھی اس کی طرف مڑ گیا ''آپ ہر وقت ٹی وی پر سیاست سیاست کرتے رہتے ہیں، حالانکہ آپ کو صنعت کاری کے بارے میںکوئی بات کرنی چاہیے، ہمارے شہر میں سیاست بہت ہے، مگر ہمیں صنعت کی ضرورت ہے، روزگار کی ضرورت ہے، آپ یہ بات کیوں نہیں کرتے‘‘، وہ بولنا شروع ہوا تو بولتا چلا گیا۔ میں نے ریکارڈنگ روک کر اسے پروگرام کے بعد ملنے کے لیے کہا تو وہ اثبات میں سر ہلا کر ایک طرف ہٹ کر کھڑا ہوگیا۔ ریکارڈنگ ختم ہوئی تو وہیں اسٹیشن کے ساتھ ایک چائے والے کے بنچوں پر میں اس کے ساتھ بیٹھ گیا۔ معلوم ہوا کہ اس نے بی کام کر رکھا ہے اور گزشتہ پانچ دن سے بھکر میں نوکری کی تلاش میں ہے اور اب مایوس ہوکر اپنے گاؤں واپس جارہا ہے، جہاں بے کاری کی زندگی کی اس کی منتظر ہے۔ اس کے سرائیکی لہجے میں فرسٹریشن بھری ہوئی تھی ۔ وہ کہہ رہا تھا کہ بھکر کی سڑکیں ٹھیک ٹھاک ہیں، گلیاں بھی مناسب ہیں، دیگر شہری سہولیات بھی موجود ہیں، ہمیں بس روزگار چاہیے،
ایک دو بڑے کارخانے اگر یہاں لگ جائیں تو ہمارا کام بن جائے گا۔اس نے مجھے بھکر کی ایک ٹیکسٹائل مل کے بارے میں بھی بتایا جو عرصہ دراز سے بند پڑی ہے اور اب اس کی زمین پر رہائشی کالونی بنا کر بیچنے کی باتیں چل رہی ہیں۔ ''خدا کے لیے کچھ کریں، ورنہ ہم سب برباد ہوجائیں گے‘‘، اس نے بات ختم کی اور چل پڑا۔
بے روزگاری کا مسئلہ تنہا بھکرمیں ہی نہیں، پاکستان بھر کا ہے۔ ہر شہر میں بے روزگار نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد حکومت کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھ رہی ہے کہ شاید وہ اس مسئلے کی طرف کچھ توجہ دے، لیکن مصیبت یہ بن گئی ہے کہ ہمارے وزیراعظم جو کسی زمانے میں معیشت کو متحرک کرنے کی وجہ سے جانے جاتے تھے، آج فلسفیانہ بھول بھلیوں میں کھو کر لبرل ہوچکے ہیں جبکہ صوبائی حکومتیں اپیکس کمیٹیوں کے اجلاسوں اور ان کے نتائج و عواقب میں ایسی الجھی ہیں کہ کام کرنے کے قابل ہی نہیں رہیں۔ رہی سہی کسر ہمارے ان آزاد منش صحافیوں نے نکال دی ہے جنہیں اپنے گھر سے باہر صرف سکینڈل نظر آتے ہیں۔ ایل این جی سکینڈل، سٹیل مل سکینڈل، ایک بیمار بینک کی دوسرے بینک کو حوالگی کا سکینڈل، ریکوڈک میں تانبے کے ذخائر بیچنے کا سکینڈل، اوگرا سکینڈل، نیپرا سکینڈل، سٹاک ایکسچینج سکینڈل، یہ سکینڈل ، وہ سکینڈل۔۔۔۔ سکینڈل ، سکینڈل کی اس رٹ نے حکومتوں کی قوتِ عمل کو اتنا نقصان پہنچایا ہے کہ اب وہ کچھ کرنے کے قابل ہی نہیں رہیں۔ اس پر طرہ یہ کہ ہماری اعلیٰ عدلیہ بھی اس سکینڈل سنڈروم کا شکار ہوکر ان کا سراغ لگانے چل پڑی اور سرکاری مشینری ایک عدالت سے دوسری عدالت اور ایک تاریخ سے دوسری تاریخ کے چکر میں الجھ کر رہ گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ ایل این جی آج سے نوسال پہلے آجاتی، سٹیل مل دس برس پہلے نجی شعبے میں چلی جاتی، پی آئی اے کسی مناسب خریدار کے حوالے کر دی جاتی، ریکو ڈک میں ثمر مبارک مند اپنی واردات ڈالنے میں کامیاب نہ ہوتے تو آج ملک کے یہ حالات نہ ہوتے کہ سیاست تو بہت ہے مگر صنعت سمٹتی جا رہی ہے۔
بھلے دنوں کی بات ہے کہ نوے کی دہائی میں نواز شریف ہی وزیراعظم تھے مگر لبرل نہیں ہوئے تھے، اس لیے ان کی پوری توجہ ملکی و
معاشی امور پر رہتی تھی۔ ان کی تحریک پر ایک تحقیق ہوئی جس میں پتا چلا کہ بڑی صنعتوں میں پچاس لاکھ روپے کی سرمایہ کاری کے بعد روزگار کا ایک موقع پیدا ہوتا ہے جبکہ چھوٹی صنعتوں میں صرف تین لاکھ روپے لگانے سے ایک نوکری پیدا ہوتی ہے۔ اس تحقیق کے نتائج کو مد نظر رکھتے ہوئے حکومت نے پنجاب سمال انڈسٹری کارپوریشن کے ذریعے تین سے سات لاکھ روپے کے قرضے مارک اپ کی رعایتی شرح پر چھوٹے چھوٹے کارخانے لگانے کے لیے دیے تھے۔ مجموعی طور پر ان قرضوں کی مالیت صرف ایک ارب تھی لیکن ان کا اثر یہ ہوا کہ پنجاب کے ہر شہر میں چھوٹی صنعتیں لگیں اور لوگوں کو یکایک روزگار میسر آگیا۔ عجیب بات یہ ہے کے عام لوگوں کو دیے گئے یہ قرضے سوفیصد مع مارک اپ وصول بھی ہوگئے اور پنجاب کی حد تک بے روزگاری کا مسئلہ بھی کچھ نہ کچھ حل ہوگیا۔ 2013ء میں نواز شریف تیسری بار اقتدار میں آنے سے پہلے ہی یوتھ لون سکیم کی بات کرکے واضح کرچکے تھے کہ اب قرضوں کا یہ پروگرام پورے ملک میں پھیلایا جائے گا۔ حکومت سنبھالنے کے بعد اس پر کچھ کام بھی ہوا، اعلانات بھی ہوئے لیکن عملی طور پر کیا ہوا، اس بارے میں سب خاموش ہیں۔
صوبوں میں چھوٹی صنعتوں کو فروغ دینے کے ذمہ دار اداروں کی بھی سن لیجیے۔ پنجاب میں سمال انڈسٹریز کارپوریشن کی صورت حال یہ ہے کہ اس کے اعلیٰ افسران، وزیر صنعت کے ساتھ مل کر صوبے بھر میں مکھیاں مارتے پھرتے ہیں۔ خیبر پختونخوا کی سمال انڈسٹریز کارپوریشن سے وہاں کے ایک اعلیٰ حکومتی عہدیدار سے عرض کی کہ اس محکمے سے کام لینے کا کوئی طریقہ سوچیں تو انہوں نے فرمایا: ''ہمارے قائد عمران خان کے خیال میں قرضے دینا ایک سیاسی ڈھکوسلا ہے جس کا کوئی عملی فائدہ تو ہے نہیں البتہ بدنامی بہت ہے‘‘۔ بلوچستان کے وزیراعلیٰ میڈیا کے اس سکینڈل مافیا سے اتنے خوفزدہ ہیںکہ وہ شدید ضرورت کے باوجود اپنے سفر کے لیے ہیلی کاپٹر تک خریدنے سے گریزاں ہیں چہ جائیکہ چھوٹے قرضوں کا کوئی مؤثر پروگرام شروع کرسکیں، اس لیے وہاں کا یہ محکمہ صرف تنخواہیں لے رہا ہے۔ رہ گئی سندھ کی حکومت تو اسے ہم سب نے مار مارکر اتنا نڈھال کرڈالا ہے کہ وہ کچھ کرنا بھی چاہے تو نہیںکرسکتی۔
دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں صنعت کار اور سرمایہ کارمعاشرے کا ایک معزز طبقہ ہوتے ہیں۔ بڑے بڑے صنعتی گروپ ملکوں کی شان ہوا کرتے ہیں، حکومتیں ان کی بات غور سے سنتی اور ان کے مشوروں کو وزن دیتی ہیں۔ ان اداروں سے ٹیکس وصول کرنے کے ساتھ ساتھ ضرورت کے وقت ان کی مدد بھی کرتی ہیں۔ اس کے برعکس پاکستان میں حال یہ ہے کہ عدالتی تحرک اور سکینڈل مارکہ صحافت نے مل کرسرمایہ کارکو سو فیصد چور، حکومتوں کو سو فیصد بدعنوان اور عوام کو سو فیصد بے وقوف قرار دے رکھا ہے۔ ہر کاروباری جو اپنے ساتھ سینکڑوں گھروں کے چولہے روشن رکھے ہوئے ہے، اپنا منہ چھپاتا پھرتا ہے مبادا سکینڈل مافیااس کے درپے ہوجائے۔ اس ماحول میں سرمایہ کاری اور روزگار کے نئے مواقع کی امید رکھنے کے لیے بھی چیتے کا جگر اور اسحٰق ڈار کا حوصلہ چاہیے جو بے روزگاروں میں تو نہیں۔