مسلمان ملکوں میں انتہاپسندی پر مبنی تصادموں کو فروغ دے کر ‘ مغربی طاقتوں نے جو کچھ حاصل کیا ہے‘ اس کی تازہ مثال پیرس کا حملہ ہے۔ فرانس بھی ایک قدیم نوآبادیاتی طاقت ہے۔ اس نے اپنی کالونیوں میں جو مظالم ڈھائے اور ان کے نتیجے میں فرانس کی سابق کالونیوں میں جو مذہبی انتہاپسندی فروغ پا رہی ہے‘ ابھی مغرب اس کے اثرات سے محفوظ ہے۔ لیکن وہ بھی کب تک؟ 9/11 کس کا کارنامہ تھا؟ یہ تو مغربی طاقتوں کی بڑی بڑی ایجنسیوں کے ریکارڈ منظرعام پر آنے کے بعد پتہ چلے گا‘ لیکن اس کے پیچھے فتنہ گرصیہونیوں اور امریکہ کی قیادت میں مغربی ممالک کی منصوبہ بندیوں کے راز منظرعام پر آنے کے بعد ہی پتہ چلے گا۔ ابھی ہمیں اصل حقائق دستیاب نہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ میڈیا اور معلومات کی تیزرفتار ی کے باوجود‘ دنیا حقائق سے لاعلم ہے۔ مثلاً ہمیں ابھی تک سمجھ نہیں آ رہی کہ 9/11 کا سانحہ سرمایہ دارانہ نظام کے سب سے بڑے مرکز میں کیوںہوا؟ اس کے ردعمل میں افغانستان اور عراق کو حملوں کا نشانہ بنانے کا فیصلہ کیوں کیا گیا؟ اول تو ان پُراسرار کرداروں کی جڑوں کا ہی کسی کو پتہ نہیں‘ جنہوں نے 9/11 کے واقعات کو جنم دیا۔ ابھی تک جو کردار منظر عام پر آئے ہیں‘ ان میں سے بیشتر کے رشتے شرق اوسط اور خصوصاً سعودی عرب سے جُڑے نظر آتے ہیں اور ردعمل کہاں پر آیا؟ افغانستان اور بعدازاں عراق میں۔
کیا افغانستان اور عراق پر ہونے والے حملے 9/11 کے واقعات کا نتیجہ تھے؟ جو کہ ہمیں باور کرانے کی کوشش کی گئی یا کسی دوسرے منصوبے پرعملدرآمد کی ابتدا؟ میں دنیا کی سب سے ترقی یافتہ قوموں اور ان کے اداروں کو اتنا احمق نہیں سمجھتا کہ وہ نیویارک میں ہونے والے سانحے کا بدلہ لینے کے لئے افغانستان اور عراق میں تباہی مچائیں۔ آج تو ٹونی بلیئر بھی عراق پر حملے کو غلطی قرار دیتے ہیں اور خود امریکی اداروں سے بھی یہی خبریں آ رہی ہیں کہ افغانستان پر فوج کشی کا فیصلہ‘ امریکہ کے لئے تباہ کن ثابت ہوا۔ میں حالیہ تجزیوں اور ماہرانہ تبصروں میں مضمرنام نہاد غلطیوں کی نشاندہی کو آنکھیں بند کر کے‘ تسلیم کرنے پر تیار نہیں۔ اس موضوع پر مزید بحث کی گنجائش نہیں۔ امریکہ اور برطانیہ دونوں کے حکمران خود ہی اپنی غلطیاں تسلیم کر رہے ہیں کہ انہوں نے9/11 کا بدلہ لینے کے لئے افغانستان اور عراق پر حملوں کا فیصلہ کر کے‘ غلط اقدامات کئے تھے۔ سوال یہ ہے کہ ان دونوں ملکوں پر حملہ کر کے‘ جو نتائج حاصل کئے گئے کیا وہ اتفاقیہ تھے یا سوچے سمجھے منصوبوں کا نتیجہ؟ اگر واقعی یہ حملے ان دونوں طاقتوں کے لیڈروں اور اداروں کی غلطی کا نتیجہ تھے‘ تو پھر ان کے تسلسل کو برقرار کیوں رکھا گیا؟ عراق کے بعد شام‘ لبیا‘ بحرین‘ یمن اور اب سعودی عرب کو انتشار اور تصادم میں کیوں دھکیلا جا رہا ہے؟ القاعدہ اچانک منظر سے غائب کیوں ہو گئی؟ اور اس سے بھی زیادہ وحشت و بربریت کی نئی مثالیں قائم کرنے والی داعش دیکھتے ہی دیکھتے‘ ایک نئی تخریبی طاقت بن کر سامنے کیسے آگئی؟ داعش نے ایسے ملکوں کے اندر جنم لیا‘ جہاں کے ریاستی ڈھانچے توڑ پھوڑ دیئے گئے۔ کیا عراق پر حملوں اور شام‘ یمن اور لبیا میں ہونے والی خونریزی‘ حالات کو کسی مخصوص سمت کی طرف موڑنے کی خاطر تو نہیں تھی؟
ہم ترقی یافتہ مغربی معاشروں اور ان کے اداروں کی طرف سے کئے جانے والے تجزیوں پر غور کریں‘ تو سماجی سائنس دانوں کے یہ مطالعے سامنے آتے ہیں‘ جن میں بڑھتی ہوئی انسانی آبادی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے خطرات کی مسلسل نشاندہی کی جا رہی ہے۔ اگر آپ بڑھتی ہوئی آبادی کی تشخیص اور تحقیق کے نتائج کو ایک نئے تباہ کن عنصر کی شکل میں نہیں دیکھ رہے یا ہمیں نہیں دکھایا جا رہا؟ اگر آپ مغربی تجزیوں اور چین کی عملی پالیسیوں کا موازنہ کر کے دیکھیں‘ تو ایک اور ہی چیز سامنے آتی ہے۔ جس کثرت آبادی کو مغرب کے ماہرین‘ آنے والی تباہی کی نشانی بتا رہے تھے‘ چین نے اسی کو طاقت میں بدل کر دکھا دیا۔ جو اس بات کا ثبوت ہے کہ زیادہ آبادی‘ معاشروںکو وسائل سے محروم کرنے کا ذریعہ نہیں‘ بلکہ ترقی و خوشحالی کا وسیلہ بھی بن سکتی ہے۔ لیکن مغرب کی سوچ میں کبھی انسانی اقدار کو پیش نظر نہیں رکھا گیا۔ مغربی طاقتوں کی نظر ہمیشہ کمزور اور پسماندہ قوموں کو ان کے وسائل سے محروم کر کے‘ اپنی خوشحالی میں اضافے پر لگی رہی۔ اگر آپ 18ویں اور 19ویں صدی میں مغربی فتوحات کا جائزہ لیں‘ تو آسانی سے سمجھ میں آ جاتا ہے کہ سائنسی اور تجارتی ترقی کرنے والے مغربی ملکوں کی قیادتوں نے اپنی خوشحالی کے لئے کمزور اور پسماندہ قوموں کا استحصال کرنے کو ترجیح دی۔ یہاں ایک اورنکتہ بھی سامنے آتا ہے۔ جب سائنسی علوم اور ترقی یافتہ ذرائع پیداوار سے محروم قوموں نے منظم ہو کر اپنی طاقت میں اضافے کی کوشش کی‘ تو ترقی یافتہ اقوام نے کس طرح منظم ہوکر‘ انہیں اپنی پیداواری صلاحیتوں کا رخ عوام کی خوشحالی کی طرف سے موڑ کر‘ اسلحہ سازی اور جنگوں پر مجبور کیا؟ کیا سوویت یونین کی قیادتوں نے ‘ انسانی ترقی و خوشحالی کو منزل قرار دے کر‘ اس لئے بھوک اور بیروزگاری کے خاتمے کے لئے ایک جدید نظام قائم کیا تھا کہ وہ آگے چل کر ‘ جدیدترین اسلحہ اور ایٹمی ہتھیار بنایا کریں؟ کیا یہ امر واقعہ نہیں کہ سوویت یونین کی ابھرتی ہوئی عوامی طاقت کو اسلحہ کی دوڑ کی سمت دھکیل کر‘ سامراجی طرز کا استحصالی نظام قائم کرنے پر مجبور کیا گیا؟
یہی سوال ایک اور زاویئے سے کیا جا سکتا ہے اور وہ یہ کہ کیا پورا افریقہ غریبی‘ پسماندگی اور بیروزگاری کے لئے معرض وجود میں لایا گیا تھا کہ وہاں کوئی بھی معاشرہ ترقی اور خوشحالی کی طرف گامزن نہ ہو سکے؟ کیا یہ نظام قدرت کا حصہ ہے یا طاقتور ملکوں کے حکمران طبقوں کی منصوبہ سازی کا نتیجہ؟ یہی کچھ لاطینی امریکہ کے بارے میں پوچھا جا سکتا ہے۔ اسے تو امریکیوں نے باضابطہ طور پر اپنا پچھواڑہ ڈکلیئر کر رکھا ہے۔ وہاں کے سماجی نظام اور صنعتی و سائنسی ترقی کے ارتقاء کی رفتار اور سمت کا تعین امریکی قیادتیں کرتی ہیں۔ شرق بعید نے اپنے مخصوص حالات کے تحت خوشحالی کے چھوٹے چھوٹے جزیرے ضرور بنا لئے‘ لیکن امریکہ اور اس کے حواریوں نے سائنسی و صنعتی ترقی کے باوجود‘ اس خطے کی کسی قوم کو آگے نہیں بڑھنے دیا۔ جاپان کو تو باقاعدہ شکست دے کر‘ ایٹمی طاقت میں بدلنے سے منع کر دیا گیا۔ چینی قیادت نے عوام کی بھاری تعداد کے ساتھ‘ ترقی اور خوشحالی کا راستہ اختیار ضرور کر لیا‘ لیکن وہ اپنے وسائل کو کس طرح نوع انسانی اور اپنے اہل وطن کی خوشحالی اور ترقی کے لئے استعمال کرے؟اس سوال کے جواب میں‘ چینی قیادت کے تصورات بھی واضح نظر نہیں آرہے۔ ایک طرف وہ اسلحہ کے انبار لگا رہا ہے‘ دوسری طرف ڈالر جمع کر رہا ہے اور تیسری طرف عالمی تجارت میں دولت کما کے‘ سامراجی طاقتوں کی طرز پر اپنی طاقت میں اضافہ کر رہا ہے۔
معاشروں اور ملکوں کی ترقی اور پسماندگی‘ کا تقابلی مطالعہ کرتے ہوئے‘ کیا شاعر کے اس خیال کی طرف توجہ نہیں جاتی؟ کہ ع
میری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی
پیرس کے واقعات کے ذمہ دار داعش کے خونخوار جنگجو نہیں‘ وہ طاقتیں ہیں ‘جنہوں نے شرق اوسط کو باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت پسماندہ رکھا اور ان کی دولت خود سمیٹتے رہے۔ شرق اوسط کی بغاوتیں‘ استحصال کرنے والے مقامی اور بین الاقوامی طبقوں کے خلاف ہیں۔ داعش کی انتہا پسندی‘ مقامی اور بیرونی استحصالی طبقوں کے خلاف خونریز بغاوت ہے۔ فرانس کی طرف سے جوابی کارروائی‘ امریکہ اور برطانیہ کے شرق اوسط پر کئے گئے حملوں سے مختلف نہیں ہو گی۔ بھٹو صاحب نے ایک جگہ لکھا تھا کہ ''پاکستان ‘ شرق اوسط اور ہندوستان دونوں کو ملاتا ہے۔‘‘ سماجی اور جغرافیائی اعتبار سے یہ بات سوفیصد درست ہے‘ لیکن شرق اوسط میں جاری فساد اور بھارت کے اندر پیدا ہونے والی بدنظمی اور فسادات کے پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ کیا ہمارے حکمران طبقے‘ پاکستان کو اسی طرف نہیں لے جا رہے‘ جدھر بھارت کے برہمن لئے جا رہے ہیں؟ پاکستان اور بھارت کے عوام‘ امن اور بھائی چارے کے ماحول میں رہنا چاہتے ہیں۔ جب بھی اس کا موقع آیا‘ دونوں ملکوں کے عوام نے دوستی اور بھائی چارے کے جذبات کا اظہار کیا۔ دونوں ملکوں کے حکمران‘ اپنے عوام کو امن کا راستہ اختیار کرنے کی اجازت نہیں دے رہے۔امن کی تلاش میں کیا ہمیں بھی وہی راستہ اختیار کرنا پڑے گا‘ جو شرق اوسط یا وسطی ایشیا کی ریاستیں اختیار کریں گی؟ یا ہمارے لئے کوئی اور راستہ بھی ہے؟