تحریر : آغا مسعود حسین تاریخ اشاعت     17-11-2015

گڈ گورننس،کرپشن او ر جمہوریت!

گڈ گورننس کا مطالبہ عسکری قیادت کا نہیں ہے، بلکہ پاکستان کے عوام کا ہے جو عرصہ دراز سے خصوصیت کے ساتھ میثاق جمہوریت کے معاہدے کے بعد دونوں بڑی جماعتوں مسلم لیگ ن اور پی پی پی کے ہاتھوں لٹتے اور برباد ہوتے چلے آ رہے ہیں۔ درحقیقت یہ دونوں جماعتیں جمہوریت کے لئے نہیں بلکہ بے لگام کرپشن کو چھپانے کے لئے آپس میںتعاون کرتی ہیں۔ انہیں یہ خوف لا حق ہے کہ انہوں نے کرپشن کا جو ارتکاب کیا ہے اس سلسلے میں ان کی تادیب کی جائے گی۔ یہ سلسلہ شروع بھی ہوچکا ہے، چنانچہ اصل مسئلہ سے توجہ ہٹانے کے لئے یہ عناصر ایک بیان کو بڑھا چڑھا کر پیش کررہے ہیں اور یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ بعض ادارے اپنی حدود سے تجاوز کر رہے ہیں۔ حالانکہ اس بیان میں کوئی منفی بات نہ تھی۔ عام اور کاروباری طبقے کا بھی یہی خیال ہے کہ مسلم لیگ ن گڈگورننس کے پس منظر میں بر ی طرح ناکام ہوچکی ہے، بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ عوامی حلقوں کے تمام تر مطالبات کے باوجود برسراقتدار جماعت اپنی طرز حکمرانی کو بہتر بنانے کی کوشش نہیں کر رہی۔ بلکہ نہایت افسوس کے ساتھ لکھنا پڑ رہا ہے کہ جب مقتدرحلقوں کی جانب سے (جس میں دیگر سیاسی پارٹیاں بھی شامل ہیں)، حکومت سے کہا جاتا ہے کہ وہ نیشنل ایکشن پلان میں ہونے والی سست روی کو دور کرتے ہوئے نیشنل پلان کے تمام نکات (بیس نکات) پر گہرائی اور گیرائی کے ساتھ عمل درآمد کرے (جیسا کہ اس نے اعلیٰ سطح کے اجلاس میں وعدہ کیا تھا) تو بجائے اس قومی مطالبے پر غور وفکر کرنے کے ‘ مسلم لیگ کی قیادت اس مطالبے کو اپنے امور میںمداخلت تصور کررہی ہے۔ میڈیا اس معاملے کو مزید ہوا دے رہا ہے، جس میں پی پی پی کے بعض عناصر بھی حکومت کے ساتھ شامل ہوکر بلاجواز تنقید کررہے ہیں، تاکہ کرپشن کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں کو روکا جاسکے۔پی پی پی کے ان کرپٹ سیاست دانوں کا تضاد دیدنی ہے ، ایک طرف یہ عناصر موجودہ حکومت کو نا اہل بھی قرار دے رہے ہیں دوسری طرف اپنی کرپشن کو بچانے کے لئے اس کی پشت پناہی بھی کر رہے ہیں۔ اس طرح ''جمہوریت ‘‘کی آڑ میں کرپٹ اور نااہل عناصر کا اتحاد اُبھر کر عوام کے سامنے آگیا ہے۔ یہ عناصر موجودہ استحصالی نظام کو قائم رکھنا چاہتے ہیں، باالفاظ دیگر یہ '' جمہوری لوگ‘‘ حکومت کی ناقص کارکردگی اور کرپشن کو تو برداشت کر رہے ہیں جیسا کہ ماضی قریب میں ان عناصر نے سابق حکومت کو برداشت کیا تھا۔ یہ بھی نا قابل تردید حقیقت ہے کہ بعض سیاسی ومذہبی جماعتوں نے باہم مل کر ایک منصوبے کے تحت ملک میں کرپشن کے ساتھ ساتھ لاقانونیت کو بھی پھیلایا ہے جس کی مثال کراچی اور جنوبی بلوچستان کے بعض علاقوں میں دیکھی جاسکتی ہے۔ فاٹا میں دہشت گردوں نے اسلام کے نام پر عوام کو جس بے رحمی اور سفاکیت کے ساتھ قتل کیا تھا، اس کی مثال اب صرف عراق اور شام میں داعش کی جانب سے کی جانے والی قتل وغارت گری سے دی جاسکتی ہے۔ 
اگر ملک کی برسر اقتدار جماعت یا پھر سابق جماعت گڈگورننس کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے عوام کے بنیادی مسائل کو دل جمعی کے ساتھ حل کرنے کی کوشش کرتی اور اس کے ساتھ ہی کرپشن کو موثر اور آہنی ہاتھوں سے روکنے کی کوشش میںکوئی کسر نہ اٹھارکھتی تو پھر ان پر کسی جانب سے تنقید نہ کی جاتی، لیکن برسراقتدار طبقہ اور ان کے حمایتی ماضی اور حال کے کرپٹ عناصر کو بچانے کی کوشش کررہے ہیں۔ایک اور ناقابل تردید حقیقت یہ بھی ہے کہ موجودہ حکومت سمیت بعض سیاسی جماعتوں کو عوام کے
دکھ درد کا ذرا بھی احساس نہیں ہے، کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ عوام غربت ، بے روزگاری اور مہنگائی تلے اتنا پس چکے ہیں کہ ان میں حکومت کے خلاف کوئی بڑی عوامی تحریک چلانے کا حوصلہ اور وقت نہیں ہے۔کرپٹ سیاستدانوں کو عسکر ی قیادت سے یہ خطرہ لاحق رہتا ہے کہ کہیں یہ اقتدار میں نہ آ جائے حالانکہ عسکری قیادت بارہا کہہ چکی ہے کہ وہ ایسا کوئی ارادہ نہیں رکھتی لیکن کرپٹ سیاستدانوں کے اپنے سیاہ اعمال ہی انہیں خوفزدہ کئے ہوئے ہیں۔اسی لئے حکومت سمیت پی پی پی کے بعض رہنما نام نہاد جمہوریت کو بچانے کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کا مظاہرہ کررہے ہیں، بلکہ اس تعاون کا مقصد اپنی ناجائز دولت کو بچانے کے علاوہ نام نہاد سیاسی اتحاد کو بھی بچانا ہے جس کے ذریعے یہ باریاں لینے پر لگے ہیں۔ عسکری قیادت موجودہ طرز حکمرانی کو درست کرنے سے متعلق اگر اپنی تشویش کا اظہار کررہی ہے تو اس میں برا ماننے کی ضرورت نہیں تھی بلکہ حکومت کو اپنے گریبان میں جھانک کر ان کوتاہیوں کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے جس کی وجہ سے ملک کی یہ صورتحال ہو گئی ہے۔ ویسے بھی ''جمہوریت‘‘ کو خطرہ عسکری قیادت سے نہیں بلکہ ہر سطح پر بے لگام
ہونے والی کرپشن اور کرپٹ عناصر کے علاوہ بری طرز حکمرانی سے ہے جس نے ملک کو غیر یقینی صورتحال سے دوچار کر رکھا ہے۔ کرپٹ سیاسی عناصر کا ماضی اور حال مشکوک ہے اور عوام انہیں پہچانتے بھی ہیں۔ یہ ملک کو کمزور رکھنا چاہتے ہیں تاکہ معاشی طور پر عوام محکوم رہتے ہوئے غربت کی چکی میں پستے رہیں۔ ذرا سوچیں کہ موجودہ دور میں پی پی پی کے کسی بھی رہنما نے سنجیدگی کے ساتھ نون لیگ کی کرپشن پر تنقید کیوں نہیں کی ؟اسی لئے کہ ان سب نے کسی نہ کسی طرح کرپشن کی بہتی گنگا میںہاتھ دھو ئے ہوئے ہیںاور ان پر مقدمات بھی زیر سماعت ہیں۔ ان تمام عناصر کا صرف ایک ہی ایجنڈا ہے کہ کسی طرح پاکستان کوعدم استحکام سے دوچار رکھا جائے۔ اس افسوسناک صورتحال کے تناظر میں مسلم لیگ ن اور پی پی پی کے بعض سیاسی رہنما اس نام نہاد جمہوریت اور بری طرز حکمرانی کو بچانے کے لئے جنگ کا محاذ کھول رہے ہیں، لیکن انہیں ماضی کے تمام تجربات کے باوجود اس بات کا ادراک نہیں ہوسکاکہ فوج سیاسی نہیں بلکہ قومی مفادات کی بنیاد پر سوچتی ہے اور انہی مفادات کو بچانے کے لئے آگے بڑھتی ہے۔ یہ ادارہ ملک کی وحدت اور سا لمیت کے لئے کام کررہا ہے، عوام اس پر مکمل بھروسہ رکھتے ہیں ،اور جب ان پر آفت ناگہانی آتی ہے تو یہی ادارہ ان کی مدد کو آگے بڑھتا ہے چنانچہ جس ادارے کو عوام کا مکمل اعتماد حاصل ہو‘ اسے نقصان نہیں پہنچایا جا سکتا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved