سب سے پہلے مُحبّی ڈاکٹر شمیم حنفی کا نئی دہلی سے محبت نامہ:
برادرم ظفر اقبال صاحب!
آداب، سب سے پہلے تو یہ معذرت کہ مجھ سے اس خط کے لکھنے میں تاخیر ہوئی۔ اصل میں گزرے ہوئے تقریباً 12 مہینے میرے لئے سخت آزمائش تھے۔ سات Sessions کیموتھراپی کے ہوئے۔ خدا کا شکر ہے کہ میں اس آزمائش کو سہولت کے ساتھ جھیل گیا۔ کچھ زیادہ تکلیف نہیں ہوئی۔ اب ہر مہینے دو تین طرح طرح کے Tests ہوتے رہیں گے۔ کوئی دو برس تک۔
میں نے آپ کی کتاب شوق سے پڑھی۔ مجھے تنقید سے کوئی دلچسپی نہیں ہے اس لئے کتاب کا نام ''لاتنقید‘‘ ہی میرے لئے خاصا پُرکشش تھا۔ بہت عمدہ، توجہ طلب اور معنی خیز کام اور مضامین ہیں۔ رہی آپ کی نثر تو وہ بھی شاعری ہی کی طرح آپ کی قادر الکلامی سے متصف ہے۔ رواں دواں، بے تصنع اور علم نمائی سے محفوظ۔ مجھے بہت مزا آیا۔ آپ کی بہت سی باتیں ایسی ہیں جن سے میں اتفاق نہیں کرتا، لیکن وہ باتیں بھی دلچسپ ہیں اور پیرایۂ بیان بھی۔ مناظراتی تنقید کے بھی کچھ اچھے نمونے نظر آئے۔ بہرحال، میں اس خوبصورت اور وقیع تحفے کے لئے آپ کا شُکرگزار ہوں۔
اگر میری صحت نے کوئی مسئلہ پیدا نہیں کیا اور ڈاکٹروں نے اجازت دی تو انشاء اللہ اوائل دسمبر میں لاہور آنا ہوگا، الحمرا کی کانفرنس میں شرکت کے لئے۔
خدا کرے آپ بخیریت ہوں اور دُنیا سے زیادہ ناخوش نہ ہوں۔ یوں خوش تو کوئی بھی نہیں رہ سکتا۔
نیاز مند
شمیم حنفی
114-B ذاکر باغ، اوکھلہ روڈ، نئی دہلی 110025
30 اکتوبر 2015ء
اور اب جموں، مقبوضہ کشمیر سے شائع ہونے والے سہ ماہی ''سیاق‘‘ کا احوال جو خالد کرّار اور زمرد مغل کی ادارت میں شائع ہوتا ہے۔ اس کے عمدہ معیار کا اندازہ اس کے قلم کاروں ہی سے ہو جاتا ہے جن میں شمس الرحمن فاروقی، شمیم حنفی، ستیہ پال آنند، نصیر احمد ناصر، ندا فاضلی، حامدی کشمیری، عمران شاہد بھنڈر، علی اکبر ناطق، تصنیف حیدر اور دیگر حضرات شامل ہیں۔ بسم اللہ شمس الرحمن فاروقی کے مضمون سے کی گئی ہے جس میں ''نوآبادیاتی شعریات اور ہم‘‘ کے موضوع پر بحث کی گئی ہے۔ ڈاکٹر شمیم حنفی نے ''گردِ مہتاب کا ہم سفر‘‘ کے عنوان سے احمد مشتاق کی تازہ کتاب ''اوراقِ خزانی‘‘ کا جائزہ لیا ہے۔ حامدی کاشمیری نے اردو تنقید... ''خلط مبحث کی شکار‘‘ پر قلم اُٹھایا ہے جبکہ عبدالماجد قاضی نے اقبال اور احمد شوقی کا تقابلی جائزہ لیا ہے۔ عمران شاہد بھنڈر نے ''فلسفہ بُعد: تھیوری اور عمل کی جدلیات‘‘ سے بحث کی ہے جبکہ حقانی القاسمی نے ''شراب، شبستان اور شاعر مجاز‘‘ کے موضوع پر خیال آرائی کی ہے۔ جدید فارسی شعراء کا انتخاب و ترجمہ احمد سہیل نے کیا ہے۔ حماد نیازی نے محمود درویش کی نظم کا ترجمہ پیش کیا ہے جبکہ پرتھی پال سنگھ نے ''شعر کیا چیز شاعری کیا ہے‘‘ پر مضمون آفرینی کی ہے۔ عرفان جاوید نے گلزار پر مضمون باندھا ہے اور الیاس بابر اعوان نے ''لاتنقید پہ ایک سرسری اظہار‘‘ قلمبند کیا ہے۔ عادل رضا منصوری نے دانیال طریر کی شاعری پر لکھا ہے جبکہ ارجمند آرا نے خالد طور کے ناول 'کانی نکاح‘ کا جائزہ لیا ہے۔ کہانی علی اکبر ناطق نے لکھی ہے جبکہ حصۂ نظم میں ندا فاضلی اور نصیر احمد ناصر شامل ہیں۔ تصنیف حیدر نے ہندی نظموں کا ترجمہ پیش کیا ہے جبکہ شعبۂ شاعری میں رفیق راز، فرحت احساس، خلیل مامون، عبدالاحد راز، نعمان شوق، عرفان ستار، حماد نیازی، عادل رضا منصوری، لیاقت جعفری، سہیل اختر، راغب اختر، تصنیف حیدر، نگہت صاحبہ، شمسہ نجم اور عمر فرحت جلوہ گر ہیں۔ شائع ہونے والی غزلوں میں سے کچھ اشعار:
بہت سی آنکھیں لگی ہیں اور ایک خواب تیار ہو رہا ہے
حقیقتوں سے مقابلے کا نصاب تیار ہو رہا ہے
بہت سے چاند اور بہت سے پھُول ایک تجربے میں لگے ہیں کب سے
سنا ہے تم نے کہیں تمہارا جواب تیار ہو رہا ہے
پُرانی بستی کی کھڑکیوں سے میں دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں
نیا جو وہ شہر ہے‘ بہت ہی خراب ہو رہا ہے
میں جب کبھی اُس سے پوچھتا ہوں کہ یار مرہم کہاں ہے میرا
تو وقت کہتا ہے مُسکرا کر جناب تیار ہو رہا ہے
(فرحت احساس)
دیکھنے کو کیا کیا تھا‘ پَر محتاجی تھی
اِن دو آنکھوں سے ہی گزارہ کرنا تھا
اُس پر چلتے رہنے کی توفیق کے بعد
ہم نے اُس رستے کو سیدھا کرنا تھا
(لیاقت جعفری)
اِن دنوں تیز بہت تیز ہے دھارا میرا
دونوں جانب سے ہی کٹتا ہے کنارا میرا
ایسا عالم ہے نہیں میں بھی میسر خود کو
کیسے اب ہوتا ہے مت پوچھ گزارا میرا
(سہیل اختر)
مرا سفر ہے ترے عشق کی گرانی تک
میں روک لوں نہ کہیں خون کی روانی تک
وہ عشق تُجھ سے کیا ہے کہ بیشتر اوقات
ہمیں تو بار گزرتی ہے مہربانی تک
(تصنیف حیدر)
پرچہ سفید کاغذ پر اعلیٰ گیٹ اپ میں چھاپا گیا ہے جس کی قیمت 200 روپے رکھی گئی ہے۔
آج کا مقطع
اُسی زرد پھول کی بددعا ہے ظفر دل کی فسردگی
مرا منتظر رہا مدتوں جو پسِ نقاب کھِلا ہوا