تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     17-11-2015

نوید کمانڈو اور گورننس

وہی رکھے گا میرے گھر کو بلائوں سے محفوظ
جو شجر سے گھونسلہ گرنے نہیں دیتا 
لکھنا تو مون گارڈن کراچی کے مکینوں پر تھا جو تین دن اپنے ہی گھروں کے باہر بے گھر ہوکر اپنے در و دیوار کو حسرت سے دیکھتے اورشہر قائد میں' گڈگورننس‘ کے مزے لیتے رہے۔ لیکن فیصل آباد کے نوید کمانڈو کے اعترافی بیان نے توجہ اپنی جانب کھینچ لی۔ چیمبرلین نے میونخ میں عاجزی اور انکساری کے ساتھ ہٹلر کے سامنے سر جھکاتے ہوئے اسے چیکوسلواکیہ کے خلاف طاقت کے استعمال کی اجا زت دے دی اور کہا کہ جنگ روکنے کی یہی قیمت تھی۔ جرمن فوجیں چیکو سلواکیہ میں داخل ہو رہی تھیں؛ اگرچہ یہ خطرناک حد تک تباہ کن عمل تھا لیکن چیمبر لین نے اسی پرانی کہاوت پر عمل کیا۔۔۔۔ '' تباہی کی طرف جانے والی سڑک کا اچھے ارادوں کے ساتھ تعمیرکیا جانا‘‘۔ افسوس کہ سابق سی سی پی او فیصل آباد سہیل حبیب تاجک نے بھی چیمبر لین کی طرح تحریک انصاف کے کارکن حق نوازکے قاتلوں کے سامنے اسی طرح سر جھکا دیا جیسے چیمبرلین نے میونخ میں ہٹلر کے سامنے اچھے انجام کی خاطر سر جھکایا تھا۔ لیکن افسوس کہ اس کا انجام بھی وہی ہوا۔ سہیل حبیب اپنی نیک نامی کی بھینٹ چڑھ کر اس وقت کا انتظار کرتے رہے جب سچائی اندھیروں اور جھوٹ کے پردوں کو چاک کرے گی ۔ حالات نے ایسی کروٹ بدلی کہ بلدیاتی انتخابات نے دو مسلم لیگی گروپوں کو ایک دوسرے کے سامنے لا کھڑا کیا۔ اپنے جلسوں میں ہرکوئی سچ بولنا شروع ہو گیا۔ اس انتخابی جنگ میں نیک نام پولیس افسرکے ساتھ کی گئی زیادتی دفن نہ ہو سکی۔ چوہدری شیر علی اور ان کے صاحبزادے وزیر مملکت پانی و بجلی عابد شیر علی یہ کہتے ہوئے میدان میں آگئے کہ نویدکمانڈو کی جیل میں حفاظت کی جائے، انہیں خدشہ ہے کہ ایک طاقتورصوبائی وزیر کے خلاف بیان دینے پر با اثر لوگ جیل میں بھی اس کی جان لے سکتے ہیں۔
فیصل آباد کے ایڈیشنل سیشن جج کی عدالت میں نوید کمانڈو کے اقبالی بیان نے ہلچل مچا دی۔ یہ معاملہ میڈیا کی نظروں سے بھی زیادہ دیر چھپا نہ رہ سکا۔ ٹی وی چینلز نے اقبالی بیان کی دستاویزات عوام کو دکھا دیں۔ اقبالی بیان میں سچائی کتنی ہے، اس کی شفاف تحقیقات کے لیے کوئی نیک نام پولیس افسر مقررکیا جاناچاہیے۔کیا یہ مناسب نہ ہو گا کہ ان پولیس افسران کو بھی شامل تفتیش کرتے ہوئے ان کے بیانات ریکارڈ کر لیے جائیں جنہوں نے نوید کمانڈو کو گرفتار کیا تھا؟ اگر بھولا گجراور دوسرے لوگوںکی ٹارگٹ کلنگ کی حقیقت تک پہنچنے کے لیے سابق سی سی پی او فیصل آباد سہیل تاجک سے بڑھ کر کون قانون کا مدد گار ثابت ہو سکتا ہے؟ آر پی او بہاولپور احسان صادق کو بھی سامنے لایا جاسکتا ہے کیونکہ بطور ایس پی اوکاڑہ ان سے بہت سی باتیں منسوب رہی ہیں۔ نوید کمانڈو نے ایڈیشنل سیشن جج فیصل آباد کی عدالت میں جو کچھ کہا، چاہیے تو یہ تھاکہ ملک کی اعلیٰ عدالت اس کا فوری طور پر نوٹس لیتی لیکن نہ جانے یہ اہم اور چونکا دینے والا اعترافی بیان ان کے علم میں کیوں نہ لایا جا سکا۔ تاہم اب بھی وقت ہے کہ نویدکمانڈوکا بیان سیاست کی نذر ہونے سے پہلے کچھ کر لیا جائے۔
وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف کو یاد ہوگا کہ ان کی زیر صدارت فیصل آباد کے ریسٹ ہائوس میں اعلیٰ سطحی میٹنگ کے دوران فیصل آباد کے ارکان اسمبلی نے انہیں بتایا تھا کہ ان کے خاندان کی زندگیوںکوکچھ لوگوں سے خطرہ ہے۔ وزیر اعلیٰ نے وہاں موجود سی سی پی او اور دوسرے اعلیٰ افسروں کی سرزنش کی تھی کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ اس پر پولیس کے اعلیٰ افسروں نے کہا کہ جناب فیصل آباد میں امن و امان کی سنگین صورت حال اور بھتہ خوری میں بے تحاشا اضافے کی وجہ یہاںکی ایک بڑی سیاسی شخصیت ہے۔ اس میں دہشت گردوںکے معاون بننے والے چند پولیس افسران بھی شامل ہیں۔ پھر ان افسروں نے حافظ آباد سے پکڑے گئے دہشت گرد اور بھتہ خور علی زاہد کمانڈو کے اعترافات وزیر اعلیٰ کے سامنے رکھ دیے۔ وزیر اعلیٰ نے اس طاقتور سیاسی شخصیت کا نام پوچھا تو سب خاموش بیٹھے رہے۔ پھر اچانک عابد شیر علی نے ایک چٹ پر اس سیاسی شخصیت، اس کے معاون ایس پی اور ڈی ایس پی کے نام لکھ کر میاں شہباز شریف کے حوالے کر دیے۔ میاں شہباز شریف نے نظرکی عینک لگا کر یہ چٹ دیکھی اور پھر اپنی جیب میں ڈال لی۔ واپس لاہور جاتے ہوئے انہوں نے اس پولیس افسر کو او ایس ڈی بنانے کا حکم جاری کردیا جس نے ایک اہم سیا سی شخصیت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اسے امن وامان کی بگڑتی ہوئی صورت حال کا ذمہ دار قراردیا تھا۔ یہ پولیس افسر سہیل حبیب تاجک تھا۔ 
اگر کوئی بااختیار حاکم یہ سمجھتا ہے کہ بنی نوع انسان کے قتل پر اس کی خاموشی اﷲ کے حضور پیش نہیں ہوگی تو یہ اس کی بھول ہے۔ حق نواز شہید کے قاتلوںکو قانون کے کٹہرے میں لایا جاتا تب بھی سی سی پی او فیصل آباد کے ساتھ یہی ہونا تھا۔ کسی عام جگہ تبادلہ یا او ایس ڈی! اس ذمہ دار پولیس افسر نے اس سے قبل رحیم یار خان اور بہاولپور میں بھی بطور ڈی پی او بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا۔ انہیں یہی تاریخ دہرانے کے جرم میں او ایس ڈی بنا دیا گیا ہے۔ ان کا جرم فرض شناسی ہے۔ میرا خیال ہے، ہر پولیس افسر کو ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ سیاسی حکومت میں جب اس کی کسی اچھی تقرری کی جاتی ہے تو وہ یہ بنیادی نکتہ کبھی نہ بھولے 
کہ'' پولیس کا ہے فرض مددآپ کی‘‘۔ یہاں آپ کا مطلب عوام نہیں بلکہ'' آپ‘‘ ہوتا ہے۔ جو آپ، جناب، سرکار کی بے لوث خدمت کرتا رہتا ہے وہ ایک اچھی جگہ سے دوسری بہترین جگہ پر پہنچتا رہتا ہے اور جو بے چارہ عوام یا ملک کی خدمت کو فرض سمجھ بیٹھتا ہے وہ آفتاب چیمہ اور نیکو کارا بنا دیا جاتا ہے۔ تاجک صاحب کو علم تھا کہ جنہیں وہ زبردست حاکم سمجھنے کی غلطی کر رہے ہیں انہیں صرف کام پسند نہیں بلکہ اپنی مرضی کے مطابق ہوتا ہوا کام پسند ہے، لہٰذا انہیں حق نوازکے قتل کے علاوہ علی زاہد کمانڈو اور پولیس انسپکٹر فرخ وحید کے معاملے پر بھی خاموشی اختیار کیے رکھنی چاہیے تھی۔ انہوں نے حافظ آباد کے دہشت گرد اور بھتہ خور علی زاہد عرف کمانڈوکو اپنے بارہ رکنی گینگ سمیت بھتہ کی رقم وصول کرتے ہوئے گرفتار کیا جو فیصل آباد کے ایک انسپکٹر کا کار خاص تھا اور وہ انسپکٹر کسی بڑے طاقتورکا کار خاص! اس گینگ اور اس کے سربراہ سے تفتیش ہوئی تو ان کے اعترافات نے فیصل آباد سے لے کر حکمرانوں کے بڑے ایوانوں تک تہلکہ سا مچا دیا۔ علی زاہدکمانڈو کا پہلا اعتراف یہ تھاکہ اس نے اب تک 19 افرادکی ٹارگٹ کلنگ کی ہے جس میں فیصل آباد کی ایک انتہائی اہم شخصیت کا کار خاص بھولا گجر بھی شامل ہے۔ اس کے بعد فیصل آباد سے حکمران جماعت کے مرکزی وزیر سمیت تین ارکان قومی اور ایک رکن پنجاب اسمبلی خود کو غیر محفوظ سمجھنے لگے۔ اس وقت یہ بات کسی کی سمجھ میں نہ آئی لیکن حالیہ بلدیاتی انتخابات میں آپس کی جنگ اوراس کے فوراً بعد نوید کمانڈو کے اعترافی بیان نے شکوک و شبہات کو تقویت دینا شروع کر دی۔ سی سی پی او عہدے کے پولیس افسر کے لیے اس سے زیادہ تکلیف دہ بات کیا ہوگی کہ مفرور بھتہ خور اور کرائے کے قاتل گروہ کوگرفتارکرنے اور ان کی پشت پناہی کرنے والے پولیس انسپکٹر کے خلاف کارروائی کرنے کی پاداش میں اسے او ایس ڈی بنا دیا جائے جبکہ مطلوب اور مفرور پولیس انسپکٹر کوپہلے سعودی عرب پھر دوبئی اور وہاں سے لندن روانہ کردیا جائے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved