تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     17-11-2015

غریب

ایگور پاشا خود نہ بتاتا تو میں کبھی اس بات پر یقین نہ کرتا ۔ مجھ سے جھوٹ وہ بولتا نہیں تھا اور اس وقت تو وہ زندگی اور موت کی کشمکش میں تھا۔ 
پہلے پہل مجھے یقین نہ آیا۔ میں یورپ سے لوٹاتھا اور اہم معاملات پر بریفنگ لے رہا تھا۔ تب یہ افسوسناک خبر ملی کہ ایگور فالج کے شدید حملے کا شکار ہوا ہے ۔ڈاکٹروں کے مطابق کسی بڑے صدمے نے اسے روند ڈالا ہے ۔ میں اس پر بھلا کیا کہتا ۔ پچھلے چالیس برس سے جس پاشا سے میرا یارانہ تھا، وہ بڑا تو کیا ، چھوٹا صدمہ لینے والا بھی نہیں تھا۔ اسے توغم سے واسطہ ہی نہ تھا۔ وہ گھڑ سوار تھا۔ گھنٹوں کسرت کیا کرتا۔ اسے فشارِ خون یا ذیابیطس جیسی کوئی بیماری نہ تھی۔ عام طور پر اہلِ و عیا ل اور رشتے صدمے کا باعث بنتے ہیں ۔اس کا کوئی خونی رشتے دار تھا ہی نہیں ؛حتیٰ کہ بیوی بچوں کے جھنجھٹ سے بھی وہ آزاد تھا۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ تنہائی کا مارا ہوا تھا۔ وہ ایک یار باش آدمی تھا۔ عیاش تھا ، رنگین زندگی گزار رہا تھا۔ اس کی زندگی مسرّتوں کی آماجگاہ تھی ۔ 
وہ ہمیشہ نئی فتوحات پہ تلا ہوتا۔ اسی نے مجھے سیاست کی راہ دکھائی تھی ۔ ہم دونوں کامیاب کاروباری تھے ، ڈالروں میں کھرب پتی۔ہم اپنے اپنے شعبے کے اجارہ دار تھے۔اس نے کہا تھا کہ اب اس سے آگے جانے کا ایک ہی راستہ ہے ۔ ہمیں حکومت میں آنا ہوگا۔ اس نے کہا تھا کہ یہ سب سے منافع بخش سرمایہ کاری
ہوتی ہے ۔''سوچو، جب ہم ہی معاشی پالیسی بنا رہے ہوں تو لامحالہ ہم اسے اپنے کاروبار کو ذہن میں رکھ کر تشکیل دیں گے ‘‘۔ اس کا اندازہ درست ثابت ہوا ۔ چند برسوں میں ہمار ے اثاثے کئی گنا بڑھ گئے تھے ۔ میں اس کی غیر معمولی ذہانت کا قائل ہو گیا تھا۔ اگلا منصوبہ یہ تھا کہ اب ہمیں دوسری ریاستوں میں کاروباری سلطنتیں بنانا تھیں، دنیا فتح کرنا تھی ۔اسی سلسلے میں ، میں یورپ گیا۔ میں بہت سی خوش خبریوں کے ساتھ لوٹا تھا لیکن اب یہ سب بے کار تھا۔جی ہاں ، ایگور پاشا کو فالج ہو گیا تھا۔ 
میں اس کے پاس گیا ۔اس کی آنکھیں آنسوئوں سے بھری تھیں اور اس نے انتونیا کا نام لیا تھا۔ مجھے یاد آیا کہ پہلے بھی وہ اس کا ذکر کیا کرتا تھالیکن وہ تو ایک عام رقاصہ تھی۔ درجنوں نہیں ،ایسی سینکڑوں عورتوں سے اس کا واسطہ رہا تھا۔ 
پاشا کی زبان پر بھی فالج کا اثر تھا۔ وہ اٹک اٹک کر بول رہا تھا۔ بمشکل تمام کئی گھنٹوںمیں اس نے مجھے یہ قصہ سنایا:غیر معمولی حسین انتونیا ایک عجیب رقاصہ تھی ۔ وہ مہینوں گم رہا کرتی ۔ آمد کی اطلاع ہوتی تو شہر کے رئیس بھاگم بھاگ وہاں پہنچتے۔عجیب رقاصہ کی عجیب محفل۔ وہاں کسی کو نوٹ نچھاور کرنے کی اجازت تھی اور نہ کوئی ایسی جرأت کرتا۔ صرف مقررہ فیس وصول کر لی جاتی ۔ انتونیا کے رقص میں فحش حرکات بالکل نہ ہوتیں اور نہ جسم کی نمائش۔ وہ ایک ایک قدم سوچ سمجھ کر اٹھاتی ۔ پاشا اسے رقصِ حجاب کہا کرتا۔ 
پاشا کاخیال یہ تھا کہ انتونیا اپنی قیمت بڑھانا چاہتی ہے ۔ جس روز اسے اس قیمت کی پیشکش ہوئی ، وہ بے حجاب ہو جائے گی ۔ شہر کے کتنے ہی رئیس اس تگ و دو میں تھے ۔ وہ اشارے کنایے میں اس کا ذکر کرتے ۔ کسی کو کھل کر بات کرنے کی ہمت نہ ہوتی ۔
انتونیا کا لباس معمولی ہوا کرتا۔ وہ لاپروائی سے ہلکا سا میک اپ کیا کرتی ۔ اسی اثنا میں ایک پورا عشرہ گزر چکا تھا۔ انتونیا اب چالیس کے پیٹے میں داخل ہونے کو تھی ۔اس کے پاس اب زیادہ وقت نہیں تھا۔یہ بات صاف ظاہر تھی کہ وہ اپنی منہ بولی قیمت پانے میں ناکام تھی ۔ پاشا کو اس پہ تر س آتا تھا۔ ایک روز خبر آئی کہ آج انتونیا آخری بار رقص کرے گی ۔ وہ شہر چھوڑ کے جار ہی تھی ۔ 
اس روز پاشا کو محسوس ہوا کہ اندر ہی اندر وہ اس سے کچھ نہ کچھ محبت ضرور کرتا ہے ۔ انتونیا کی کہانی کا انجام یوں اچانک ہوگا ، اس نے یہ سوچا بھی نہ تھا اور نہ اسے یہ گوارا تھا۔ اس نے ایک بڑا بیگ نوٹوں سے بھرا ۔ یہ لاکھوں ڈالر کی رقم تھی ۔ محفل میں جانے کی بجائے وہ باہر ہی انتظار کر تا رہا۔ 
انتونیا باہر آئی ۔ اس کے پاس صرف ایک سوٹ کیس تھا اور وہ ٹیکسی کے انتظار میں تھی ۔ پاشا وہاں جا پہنچا۔ اس نے بیگ کھول کر اسے رقم دکھائی۔ اپنے حر م میں داخل ہونے کی پیشکش کی ۔ یہاں تک بتانے کے بعد پاشا درد کی شدّت سے تڑپنے لگا۔ وہ روتا رہا ، بلکتا رہا۔ میں خاموشی سے انتظا ر کرتا رہا۔ میرا خیال یہ تھا کہ انتونیا نے انکا رکر دیا ہوگا۔ وہ پہلے ہی کسی کی پیشکش قبول کر چکی ہوگی ۔ حقیقت پسند پاشا کی اس درجہ جذباتیت میری سمجھ سے باہر تھی ۔ حسین چہرے اس شہر میں عام تھے اور پاشا تو کھرب پتی تھا۔
بہت مشکل سے پاشا سنبھلا۔ اس نے بتایا: انتونیا نوٹوں سے لبالب بیگ دیکھتی رہی ۔ کچھ دیر وہ ضبط کرتی رہی ۔ پھر شدّتِ غم سے رونے لگی ۔ اس نے کہا کہ اس کے ماں باپ بچپن ہی میں مر گئے تھے ۔ در در کی ٹھوکریں کھاتی ہوئی وہ جوان ہوئی تو نوکری ڈھونڈنے لگی ۔ اس کی حسین صورت پہ ہمیشہ بری نگاہ ڈالی گئی ۔ وہ ناچنا نہیں چاہتی تھی مگر اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے ناچتی رہی ۔ یہاں اس نے اپنے آپ سے ایک عہد کیا ۔ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ صرف ضرورت پوری کرے گی۔ وہ طے شدہ رقم وصول کرتی ، نوٹ نچھاور کرنے کی اجازت نہ دیتی ۔معقول رقم اکھٹی ہوجاتی تو وہ گوشہ ء عافیت میں چلی جاتی ۔ پیسے ختم ہوتے تو لوٹ آتی۔ اس نے کہا کہ وہ خوش ہے کہ اس کا حسن اب ڈھلنے لگا ہے ۔ اب اسے ایک ایسی نوکری ملی ہے ، جہاں وہ محفوظ رہے گی ۔ اسی لیے وہ شہر چھوڑ کے جا رہی ہے ۔ 
گو کہ دلگداز داستان تھی مگر میں یہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ پاشا اجڑ کے کیوں رہ گیا۔ میں اس سے پوچھتا رہا۔ پاشا نے بمشکل تمام یہ کہا کہ غربت کی ماری انتونیا اپنی ضرورت پوری کرکے مطمئن ہوجاتی تھی ۔ اس نے مجھ سے یہ کہا کہ ساری دنیا کا مال اکٹھا کر کے بھی ہم دونوں کا پیٹ کیوں نہیں بھرتا۔ کیا ہم ایک حرّافہ سے بھی بدتر ہیں ؟ 
اس بات کو کئی برس گزر چکے ۔ آہستہ آہستہ پاشا صحت یاب ہو گیا تھالیکن ایک روز وہ کسی کو بتائے بغیر خاموشی سے کہیں چلا گیا تھا۔ میں اس بات کو بھولنا چاہتا ہوں ۔ میں ایک کامیاب آدمی ہوں۔ دنیا مجھے جھک کے سلام کرتی ہے لیکن اندر ہی اندر یہ سوال مجھے ڈستا رہتاہے کہ کیا میں ایک حرافہ سے بھی بدتر ہو ں؟ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved