تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     18-11-2015

جمہوریت سے عشق

مختصراً یہ کہ پاکستان کا مستقبل کراچی اور بلوچستان میں لکھا جا رہا ہے اور مختصراً یہ کہ ہماری سیاسی پارٹیوں کو اس کی کچھ زیادہ پروا ہے‘ نہ خبر۔ جمہوریت سے البتہ انہیں عشق ہے۔
دو بنیادی سوال تھے‘ جن کے ساتھ کوئٹہ کا سفر کیا۔ کیا سیاسی محاذ پر تبدیلی کے عمل کی قیادت کرنے والے ڈاکٹر عبدالمالک دسمبر کے بعد بھی وزارت اعلیٰ کے منصب پر فائز رہیں گے؟ ثانیاً، یہ کہ جنوبی کمان کے سربراہ جنرل ناصر جنجوعہ کی رخصتی کے بعد بھی بدلتا ہوا بلوچستان اسی رفتار کے ساتھ آگے بڑھتا رہے گا!
اب میں یہاں ایوب سٹیڈیم کے وسیع و عریض میدان میں خون گرما دینے والے کھیلوں کے مقابلے دیکھ رہا ہوں، تین برس پہلے جس کا تصور بھی محال ہوتا۔ صرف جوش و خروش ہی نہیں‘ تعداد کے اعتبار سے بھی طلبہ و طالبات اور نوجوانوں کی موجودگی حیران کن ہے۔ ڈاکٹر عبدالمالک مائیک پر نمودار ہوئے۔ پہلا جملہ کہنے کے بعد رنگ برنگی وردیوں میں ملبوس بچوں سے انہوں نے کہا... ''توڑا سا شور مچائو یار‘‘ فلک شگاف آوازیں سٹیڈیم سے ان پہاڑی سلسلوں تک پھیل گئیں‘ تین اطراف سے جنہوں نے شہر کو گھیر رکھا ہے۔ اس شہر اور چہار جانب پھیلی وادیوں اور ریگ زاروں نے کیسے کیسے نشیب و فراز دیکھے ہیں۔ اب بالآخر یہ خطہ از خود ایک واضح سمت میں گامزن ہے۔ طلوع ہوتے ہوئے نئے عہد کے مناظر ایک روز افزوں ولولے کی بنیاد ہیں، اگرچہ بہت سے سوالوں کے جواب باقی ہیں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ مگر مایوسی تحلیل ہوتی جا رہی ہے اور سپنا اجاگر‘ کوئٹہ کے اوپر پھیلے آسمان کی طرح جو اس قدر نیلگوں ہے کہ تعجب ہوتا ہے۔ یہ اکبر بگتی‘ خیر بخش مری اور عطاء اللہ مینگل کا بلوچستان نہیں۔ اب فقط اس کے فلک ہی پر ستارے نہیں ٹمٹماتے... اس خاک میں بھی نور گھل رہا ہے، جو صدیوں سے نجات کی راہ دیکھ رہی ہے۔
بلوچستان کے کھیل اور تہوار کے انداز مختلف ہیں۔ کرکٹ کی بجائے فٹ بال زیادہ اشتیاق سے کھیلا جاتا ہے۔ دو گھنٹے کا ایک زبردست مقابلہ بلوچستان پولیس اور ایف جی کلب کے کھلاڑیوں میں برپا ہوا۔ بلوچستان پولیس کی ٹیم غیر معمولی سمجھی جاتی ہے مگر آج ایف جی کلب کے کھلاڑی چھائے رہے۔ جدید خان پٹھان نامی ایک کھلاڑی کے طفیل جو پچھلی صدی کے چھٹے اور ساتویں عشرے میں بروئے کار آنے والے اساطیری کرداروں کی یاد دلاتا ہے۔ ایک گول اس نے خود کیا اور دوسرے میں مددگار ثابت ہوا۔ رواں تبصرہ کرنے والے پُرجوش آدمی نے بار بار کہا: گیند جب پٹھان کے ہاتھ لگ جاتی ہے تو کھیل کا آہنگ ہی بدل جاتا ہے۔ میں نے سوچا‘ اگر اس نوجوان کو رہنمائی اور تربیت میسر آ سکے؟ سب لوگ ہی ایک طرح کے ہوتے ہیں۔ یہ تعلیم‘ تربیت اور مواقع ہیں‘ جو انہیں صیقل کر سکتے ہیں اور لوح زماں پہ ان کا نقش گہرا کرتے ہیں۔
نئے کمانڈر‘ جنرل عامر ریاض کو جب معلوم ہوا کہ بلوچستان کے احوال سے دلچسپی رکھنے والا ایک اخبار نویس اسلام آباد سے کوئٹہ پہنچا ہے تو ازراہ کرم اپنی نشست سے اٹھ کر وہ میرے پاس تشریف لائے۔ ان کا چرچا بہت سنا تھا اور ان سے ملنے کا اشتیاق تھا۔ اتنے بہت سے لوگ ان سے حسن ظن کیوں رکھتے ہیں؟ پوچھا: کیا آپ کا دل لگ گیا یہاں پر؟ بولے: دل تو تھا ہی یہیں‘ ایک سپاہی کا دل وہاں ہوتا ہے‘ جہاں معرکہ آرائی کے مواقع زیادہ ہوں۔ پاکستانی فوج خوش بخت ہے کہ اس کے تقریباً تمام افسر عملی تجربے سے گزر چکے۔ جنرل راحیل شریف نے سچ کہا: یہ دنیا کی سب سے زیادہ جنگ آزمودہ سپاہ ہے۔ جنرل جنجوعہ کے بعد ایک موزوں افسر کا انتخاب مشکل مرحلہ تھا۔ بعض لوگ اپنے جانشینوں کے لیے بہت دشواریاں چھوڑ جاتے ہیں۔ جنرل سے مل کر مگر اطمینان ہوا۔ ان کا لہجہ اس آدمی کا تھا‘ جو چیلنج قبول کر چکا ہو۔ کہا: بنیاد رکھی جا چکی ہے‘ کام کرنے کے لیے حالات سازگار ہیں اور امکانات بے شمار۔ یہی وہ انداز فکر ہے‘ جو کامرانی کی نیو رکھتا ہے اور یہی وہ ماحول ہے‘ جو پاک فوج کو دنیا کی دوسری افواج سے ممتاز کرتا ہے۔ امریکی افسر' ایک سوال پاکستانی افسروں سے بار بار پوچھتے ہیں۔ کیا سبب ہے کہ آپ کے لوگ بھگوڑے کبھی نہیں ہوتے‘ عسکری ذمہ داریوں سے نجات حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ خود کشی کا کبھی کوئی ایک واقعہ بھی کیوں نہیں ہوتا؟ بائیں پہلو بیٹھے ہوئے بریگیڈیئر نے‘ جو سمندری پٹی کی نگرانی پر مامور ہے ‘ یہ کہا: یہ بات انہیں کیسے سمجھائی جائے کہ ہم اپنا کام فقط ایک ذمہ داری نہیں بلکہ عقیدے کے طور پر کرتے ہیں۔ ہماری شادمانی اس ولولے میں پوشیدہ ہے‘ جو ایمان اور حب وطن کی دین ہے۔ پھر کمال بشاشت کے ساتھ انہوں نے کہا؛ گوادر مستقبل کا کراچی ہے۔ فروغ کے ہزار امکان اس کے ساتھ وابستہ ہیں۔ گوادر ہی نہیں‘ جیوانی‘ اورماڑہ اور گڈانی بھی‘ جو کراچی سے فقط ایک گھنٹے کی مسافت پر ہے۔ ساحلی سڑک پر ٹریفک اب ہمیشہ رواں رہتی ہے۔ پاکستان کا مستقبل اس کے سمندر سے وابستہ ہے۔
فٹ بال کا میچ تمام ہو چکا تو ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے اڑھائی تین سو بچے میدان میں آئے کہ ٹیبلو پیش کریں۔ یہاں سے وہاں تک پھولوں کی قطاریں دمک اُٹھیں۔ ان معصوم بچوں اور ان کے والدین کا خون بہانے والے کس قدر شقی القلب ہیں‘ میں نے سوچا۔ وہ کہ جن کے اجداد نے قیام پاکستان کی مخالفت کی تھی۔ جو اس راز سے واقف نہیں کہ رواداری اور وسعت قلبی ایک مجبوری نہیں بلکہ ایک زندہ معاشرے کا خوش دلانہ شعار ہوتی ہے۔ وہ اپنے مستقبل پر ایمان اور زندگی کے شعور سے پھوٹتی ہے۔ ہر صاحب علم وسیع النظر ہوتا ہے، ہر جاہل اور متعصب تنگ نظر۔ سیدنا عمر فاروق اعظمؓ کی سپاہ میں دس ہزار یہودی تھے۔ کیا وہ مسلمان ریاست کی قوت کا ذریعہ نہ تھے۔ یہ لوگ تو ہمارے مسلمان بھائی ہیں۔
اب گھڑ سوار میدان میں آئے۔ ایک کے بعد‘ تین تین کی دوسری ٹولی۔ یہ خیرہ کن منظر ہے۔ گھوڑے اس تیز رفتاری کے ساتھ دوڑتے ہیں کہ نگاہ ٹھہر نہیں پاتی۔ یہ نیزہ بازی کا مقابلہ ہے جس میں فرنٹیئر کور کے جوانوں کا پلّہ بھاری رہا۔ پھر وہ کھیل شروع ہوا جو دیکھنے والوں کی رگوں میں خون کی گردش اس طرح تیز کرتا ہے‘ گویا کہ وہ خود مقابلے کا حصہ ہوں۔ بُز کشی!۔
صحرائے گوبی میں ایک ہزار برس پہلے اس خطرناک کھیل کا آغاز ہوا تھا۔ چنگیز خان کے لشکریوں نے اسے عروج پر پہنچایا۔ وسطی ایشیا اور افغانستان سے ہوتا ہوا‘ یہ کھیل پاکستان پہنچا ہے۔ بُز کشی کا گھوڑا اپنے شہ سوار کا رفیق ہوتا ہے اور اس کے تیور پہچانتا ہے۔ یہ کسی قدر وحشیانہ کھیل ہے اور اس کے لیے غیر معمولی ریاضت درکار ہوتی ہے‘ وگرنہ کھلاڑی تو کیا یہ تماشائیوں کو بھی خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ ذبح کیا ہوا ایک سیاہ بکرا میدان میں ڈال دیا گیا۔ اب کسی کو اسے دائیں ہاتھ میں اٹھا کر مقررہ مقام تک پہنچانا تھا‘ جب دوسری ٹیم کے کھلاڑی بے رحمی کے ساتھ اس کا تعاقب کر رہے ہوں۔
بُزکشی کا یہ کھیل بلوچستان کے میدانوں اور ساحلوں میں کھیلا جا رہا ہے۔ اندرون ملک کے کھلاڑی اور گروہ ہی نہیں‘ پڑوسی ممالک بھی اس میں شریک ہیں۔ بلوچستان کی نبض جانچنے کے بعد پہلا احساس یہ ہوتا ہے کہ مستقبل قریب میں اس کی رفتار تیز ہونے والی ہے۔ سیکولر بھارت کو تو گوادر اور اس سے پھوٹنے والی شاہراہوں کا وجود کسی طرح بھی گوارا نہیں۔ افغانی‘ ایرانی‘ بعض عرب اور مغربی ممالک بھی اس پہ شاد نہیں۔ افغانستان کی سرکاری خفیہ ایجنسی‘ بھارتی را کی حلیف بن چکی۔ امریکی چاہیں تو اسے روک سکتے ہیں مگر پاکستان میں وہ ایک خاص حد تک ہی استحکام گوارا کرتے ہیں۔ اگر وہ چاہیں تو افغان تخریب کاروں کو لگام دے اور بھارتیوں کی حوصلہ شکنی کر سکتے ہیں۔ مگر وہ کیوں کریں۔ بھارت ان کا تزویراتی حریف ہے اور چین کے گرد انہیں گھیرا تنگ کرنا ہے۔ یہاں بلوچستان میں یہ احساس اور بڑھ جاتا ہے کہ پاکستان کا مستقبل امریکہ کے ساتھ وابستہ نہیں؟ اگرچہ سیاستدانوں اور حکمرانوں میں یہ احساس کچھ زیادہ کارفرما نہیں۔
خبر یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے ڈاکٹر عبدالمالک کے برقرار رہنے کا امکان بڑھ گیا ہے، کوئی دن میں صورت حال واضح ہو جائے گی۔ اس سے بھی بڑی خبر یہ ہے کہ ہربیار مری کی بلوچستان لبریشن آرمی اور اللہ نذر کے پسماندگان کی یونائیٹڈ بلوچ آرمی نے 11 نومبر کو چین کے سفیر اور ان کے ساتھیوں پر حملے کا منصوبہ بنایا تھا۔ قبل از وقت اطلاع پانے پر اس منصوبے کو ناکام بنا دیا گیا۔ تفصیلات ابھی میسر نہیں مگر اطلاع پختہ ہے اور پوری طرح قابل اعتماد! 
مختصراً یہ کہ پاکستان کا مستقبل کراچی اور بلوچستان میں لکھا جا رہا ہے اور مختصراً یہ کہ ہماری سیاسی پارٹیوں کو اس کی کچھ زیادہ پروا ہے‘ نہ خبر۔ جمہوریت سے البتہ انہیں عشق ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved