تحریر : شمشاد احمد تاریخ اشاعت     18-11-2015

پاک بھارت تعلقات پر ایک نظر

وزیر اعظم نواز شریف کی طرف سے بھارت اور پاکستان کے مابین قیام امن کے لیے انتھک سلسلہ جُنبانی کے باوجود، جوہری اسلحہ سے لیس دونوں ہمسائے، ایک انتہائی پیچیدہ بندھن میں اس طرح جکڑے ہوئے ہیں کہ دونوں کا رُخ مخالف سمت میں ہے، اور وہ ایک دوسرے پر غُرّا رہے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو اس روایتی فساد زدہ تعلق سے چُھڑا بھی نہیں سکتے؛ چنانچہ آج پوری دُنیا میں یہ دو ایسے ملک ہیں جو جنگوں سے درماندہ نہیں ہوئے اور ہمہ وقت آمادہ تصادم رہتے ہیں۔ آج کل کی طرح، کئی بار ان کی ایک دوسرے سے بول چال تک ختم ہو جاتی ہے۔ 
دونوں ملکوں کو اس بھونڈی صورت حال سے باہر نکلنے اور امن کو ایک حقیقی موقع دینے کی ضرورت ہے۔ اسی مقصد کے پیش نظر حال ہی میں کراچی کونسل آن فارن ریلیشنز (KCFR) کے زیر اہتمام کراچی میں 'بھارت پاکستان تعلقات‘ کے موضوع پر دو روزہ کانفرنس منعقد کی گئی۔ کراچی کونسل، مقامی سطح کی ایک غیر سرکاری تنظیم ہے جو ہماری سول سوسائٹی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی ممتاز شخصیتوں نے قائم کر رکھی ہے، جس کا مقصد خطے میں امن اور ترقی کو فروغ دینا ہے۔ اس کانفرنس کا انعقاد اس اعتبار سے قابل قدر تھا کہ اس میں نمایاں شخصیات نے بڑی تعداد میں شرکت کی اور سنجیدہ بحث میں حصہ لیا۔ 
کانفرنس میں بھارت سے تین شرکاء کی موجودگی کو خاص اہمیت حاصل رہی... سفارت کار سے سیاستدان بننے والے مانی شنکر آئر جو اب کانگریس کی طرف سے رکن پارلیمنٹ ہیں، دوسرے بی جے پی سے تعلق رکھنے والے سیاستدان اور ممبئی کے ممتاز صحافی سدھیندر کلکرنی اور تیسرے بھارت کے سابق سیکرٹری خارجہ سلمان حیدر‘ جو 1997ء کے اُن پاک بھارت امن مذاکرات میں میرے ہم منصب تھے جنہیں 'جامع مذاکرات‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ اس کانفرنس نے کم از کم ایک حقیقت کی نشاندہی کر کے اپنے انعقاد کا مقصد پورا کر دیا۔ وہ یہ کہ بھارت پاکستان مسائل کی نوعیت حقیقی ہے اور یہ محض شعلے بجھانے سے ختم نہیں ہوں گے بلکہ دونوں ملکوں کو آگ کے نیچے جا کر ان کے اصل منبع کو ٹھنڈا کرنا ہو گا۔ 
سلمان حیدر کی موجودگی سے ایک اچھا موقع دستیاب ہوا کہ انہوں نے اور میں نے 23 جون 1997ء کو اپنی اپنی قیادت کی ہدایت پر بھارت پاکستان ''امن عمل‘‘ کا جو آغاز کیا تھا، ہم مل کر جائزہ لے سکیں کہ آج دونوں ملک کہاں کھڑے ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ جب ہم پاکستان بھارت تعلقات معمول پر لانے کے لیے بات چیت کر رہے تھے تو ہمیں کوئی اشتباہ نہیں تھا۔ ہم نے آخر میں جن ''جامع مذاکرات‘‘ پر اتفاق کیا، انہیں کبھی ایک اہم واقعہ نہ بننے دیا گیا۔ یہ ایک ایسے عمل کے تصور پر مبنی تھے جو احتیاط سے ترتیب دیے گئے فریم ورک کے ساتھ بھارت پاکستان تعلقات کے پورے منظرنامے کو محیط ہوں۔ پچاس سالہ تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ دونوں ملکوں نے انتہائی واضح انداز میں امن عمل پر مبنی ایک ایجنڈے پر اتفاق کیا تھا۔ 
اس سے قبل دونوں ملکوں کے پاس بے ثمر امن عمل کے کئی ادوار کی ایک طویل تاریخ تھی۔ پچاس کی دہائی میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی روشنی میں اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندہ سر اوون ڈکسن نے اپنے ''جزوی استصواب اور تقسیم‘‘ پر مبنی منصوبے کی بنیاد پر سمجھوتے کی کوشش کی۔ ساٹھ کی دہائی کے شروع میں بھٹو، سورن سنگھ مذاکرات کسی خاص پیش رفت کے بغیر تمام ہوئے۔ 
1965ء کی جنگ اور 1971ء کے بعد کے زمانے میں پاکستان کی توجہ اپنے اندرونی مسائل پر مرکوز رہی۔ 1972ء کے شملہ معاہدے نے اپنی حرکیات کو جنم دیا۔ بھارت ہمیشہ پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کے ضمن میں ''دوطرفیت‘‘ (bilateralism) کو اپنے مرضی کے معنی پہنانے پر زور دیتا رہا۔ 
1980ء کی دہائی میں صدر جنرل ضیاء الحق نے ''دوطرفیت اور پہلے تعلقات معمول پر لانے‘‘ سے متعلق بھارتی مؤقف کو ایک معقول موقع فراہم کیا۔ لیکن ان کا دورۂ دہلی، کرکٹ ڈپلومیسی اور آخر میں راجیو گاندھی کا دورہ اسلام آباد‘ نتیجہ خیز ثابت ہونے میں ناکام رہے۔ 1990ء کی دہائی میں کشمیریوں کی تحریکِ مزاحمت نے ان کی جدوجہد کو ایک نئی جہت عطا کی اور بین الاقوامی توجہ اس معاملے پر تیزی سے مبذول ہو گئی۔ جون 1997ء میں جامع مذاکرات پر سمجھوتے کے بعد، دو برسوں میں، اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاسوں اور دوسری علاقائی کانفرنسوں کے مواقع پر سربراہی سطح کی ملاقاتوں کے نتیجے میں بھارت پاکستان تعلقات میں اہم پیش رفت ہوئی۔ 
اعلیٰ سطح کے ان روابط کی بدولت فروری 1999ء میں لاہور سربراہ ملاقات ہوئی، 21 فروری 1991ء کو وزیر اعظم نواز شریف اور وزیر اعظم واجپائی نے تاریخی اعلان لاہور (لاہور ڈیکلریشن) پر دستخط کئے جو دونوں ملکوں کی تاریخ میں ایک حقیقی بریک تھرو تھا۔ دونوں رہنماؤں نے ''تیز رفتار جامع مذاکرات‘‘ کے ذریعے جموں و کشمیر سمیت تمام معاملات حل کرنے کے لئے بھرپور کوششیں کرنے کا فیصلہ کیا‘ لیکن جلد ہی دونوں ملکوں کو کارگل بحران کا سامنا کرنا پڑا جس کے باعث لاہور میں جس امن عمل کا آغاز کیا گیا تھا وہ رُک گیا۔ کارگل کے بعد بھی خطے پر جنگ کے گہرے بادل چھائے رہے، یہاں تک کہ بھارت اور پاکستان مسئلہ کشمیر پر ایک اور تصادم کے دہانے تک جا پہنچے۔ 
نائن الیون کے المناک واقعات کو دونوں اقوام کے لیے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قریب لانے کی خاطر مہمیز بننا چاہیے تھا، لیکن ہم نے دیکھا کہ خود دہشت گردی لائن آف کنٹرول پر بھارت اور پاکستان کے مابین کشیدگی بڑھانے کا سبب بن گئی؛ چنانچہ یہ خطہ تصادم کی حالت اختیار کر گیا جو بھارت سمیت کسی کے بھی مفاد میں نہیں تھی۔ امریکہ اور جی8- ممالک کے زبردست سفارتی دباؤ سے وہ خطرہ ٹلا جو دو جوہری ملکوں کے درمیان المناک جنگ پر منتج ہو سکتا تھا۔ پھر انہی طاقتوں نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے دونوں ملکوں کو مذاکرات کی میز پر لا بٹھایا۔ 
رُکے ہوئے پاک بھارت مذاکرات ''6 جنوری 2004ء کے اسلام آباد مشترکہ بیان‘‘ کی بنیاد پر بحال ہوئے۔ اس بیان میں ہم نے پختہ عہد کیا کہ آئندہ ہماری سرزمین سرحد پار دہشت گردانہ سرگرمیوں کے لیے استعمال نہیں ہونے دی جائے گی۔ اس جملے میں ہماری طرف سے یہ معنی پوشیدہ تھے یا نہیں، لیکن بھارت نے اس سے یہ مطلب اخذ کرنے کی کوشش کی کہ پاکستان نے سرحد پار مبینہ سرگرمیوں میں اپنے ملوث ہونے کا الزام تسلیم کر لیا ہے؛ چنانچہ 2006ء سے بھارت نے اپنے ملک میں، نومبر 2008ء کے ممبئی حملوں سمیت دہشت گردی کی ہر کارروائی میں پاکستان کو ملوث کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کیا اور اسی آڑ میں مذاکراتی عمل کو یرغمال بنا رکھا ہے، جس کا مقصد پاکستان کو مسلسل دباؤ میں رکھنا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں آج تک ہم اٹکے ہوئے ہیں۔ 
اب جبکہ بھارت اور پاکستان کے مابین قیام امن کے آثار نظر نہیں آ رہے، دونوں ملکوں کے عوام بڑھتی ہوئی کشیدگی، تصادم کی صورت حال اور غربت کے باعث مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں۔ بھارت کے ساتھ قیام امن سے متعلق نواز شریف کا جذبہ جانا پہچانا ہے۔ ان کا ٹریک ریکارڈ ظاہر کرتا ہے کہ وہ خلوص دل سے چاہتے ہیں، دونوں ملک اچھے ہمسایوں کی طرح رہیں، عرصہ دراز سے حل طلب مسائل کا تصفیہ کریں اور اپنی توانائیاں اور وسائل اپنے عوام کی بہبود کے لیے وقف کر دیں۔ سرحد کی دونوں جانب عوام بھی یہی چاہتے ہیں۔ یہ خطہ مسلسل زبوں حال غربت اور پسماندگی میں پھنسے رہنے کا متحمل نہیں ہو سکتا، اس لیے تنازعات کو طول دینے کے بجائے انہیں مذاکرات کے ذریعے پُرامن طریقے سے حل کرنا چاہیے۔ 
اب تک فریقین پر واضح ہو جانا چاہیے کہ ان کے مسائل کا فوجی حل ممکن نہیں، دونوں ملکوں کے عوام کشیدگی اور تصادم کے باعث بہت تکلیفیں جھیل چکے ہیں۔ یہ پس منظر ہمیں مسئلہ کشمیر کی مرکزیت کی جانب لاتا ہے جو بھارت اور پاکستان کے مابین تمام مسائل کی اصل جڑ ہے۔ ایک چیز واضح ہے: اقوام متحدہ کی قراردادوں کے باہر مسئلہ کشمیر حل کرنے کا کوئی نپا تُلا فارمولہ یا کوئی دوسرا حل موجود نہیں ہے۔ جامع مذاکرات کے مشترکہ مصنفین کی حیثیت سے سلمان حیدر اور مَیں پُرامید ہیں کہ اگرچہ اس وقت بھارت اور پاکستان بھول بھلیوں میں کھڑے ہیں لیکن ان کے آگے بڑھنے کا واحد راستہ پُرخلوص اور بامعنی جامع مذاکرات کی بحالی ہی ہے۔ 
لیکن یہ کام جلد ہونے والا نہیں۔ اس مقصد کے لیے ایک طویل سوچا سمجھا عمل درکار ہو گا۔ اس عمل کی کامیابی کا مکمل انحصار اس تازہ سیاسی سوچ پر ہو گا کہ دونوں ملکوں کی قیادتیں اسے بامعنی اور نتیجہ خیز بنانے پر خلوصِ دل سے آمادہ ہو۔ آغاز کار کے لیے بھارت کو اپنی موجودہ ''نو ٹاک‘‘ (no talk) پالیسی پر نظر ثانی کرنا ہو گی اور ہمارے دوست مانی شنکر آئر کے لفظوں میں اُسے ''لگاتار اور اَن ٹُٹ‘‘ (uninterrupted and uninterruptible) مذاکرات بحال کرنا ہوں گے۔ 
(کالم نگار سابق سیکرٹری خارجہ ہیں) 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved