''گستاخی معاف‘‘ کے مصنف‘ شاعر‘ مزاح نگار (اور اب تو نقاد بھی) اور ہمارے کرم فرما جناب مظفر بخاری جو کبھی کبھی یاد کرتے رہتے ہیں‘ انہوں نے ''ظفراقبال کے کمزور اشعار کا مضبوط دفاع‘‘ کے عنوان سے اپنی ایک تحریر بھجوائی ہے جو ہمارے دوست ڈاکٹر اختر شمار کے پرچے ''بجنگ آمد‘‘ میں بھی ان کے دیے گئے نوٹ کے مطابق شائع ہو چکی ہے‘ جو قارئین کی ضیافتِ طبع کے لیے پیش کی جا رہی ہے۔
''جناب ظفراقبال ہرفن مولا شاعر ہیں‘ ان کی شاعری میں بہترین سے کمزور ترین تک‘ قریب قریب ہر قسم کے اشعار مل جاتے ہیں۔ میں نے بہترین اور کمزور ترین کے الفاظ روایتی معنوں میں استعمال کیے ہیں؛ کیونکہ ظفراقبال کے جن اشعار کو ہم کمزور ترین کہتے ہیں‘ وہ خود ان کی نظر میں کمزور نہیں ہوتے۔ ظفراقبال کے جن اشعار کی طرف میں اشارہ کر رہا ہوں ان میں بظاہر عام سی یا یوں کہیں کہ سامنے کی بات کی جاتی ہے جنہیں پڑھتے ہی اکثر قارئین فتویٰ دے دیتے ہیں: لاحول ولا قوۃ! کیا یہ شاعری ہے؟ ''نان سنس‘‘۔ شروع میں میرا ردعمل بھی کچھ ایسا ہی تھا‘ لیکن جلد ہی میں نے محسوس کیا کہ یہ اشعار قارئین کا دامن پکڑ لیتے ہیں جسے آسانی سے چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ بظاہر معانی سے عاری ہونے کے باوجود بامعنی ہوتے ہیں اور قاری کو اس سرزمین کی سیر کروا دیتے ہیں جو شعراء کے نزدیک ممنوعہ علاقہ ہے۔ ہماری شعری روایت میں اساتذہ کے کہے ہوئے ایسے اشعار مل جاتے ہیں گو کہ ان کی تعداد زیادہ نہیں۔
کمزور شعر کی شانِ نزول یہ ہے کہ شاعر اچھا شعر کہنے کی کوشش میں ناکام ہو جائے تو کمزور شعر وجود میں آ جاتا ہے۔ قاری سمجھ جاتا ہے کہ شاعر نے کوشش تو بہت کی ہے لیکن بات بن نہیں سکی۔ ظفر صاحب کا ایک پسندیدہ جملہ یہ ہے کہ فلاں شاعر اچھا شعر کہنے کی کوشش تو کرتا ہے لیکن شعر بنتے بنتے رہ جاتا ہے‘ جیسے ایک کمہار پوری مہارت کو بروئے کار لا کر ہنڈیا بنائے لیکن اس ہنڈیا کی گولائی میں تھوڑی کسر رہ جائے۔ اب اگر کوئی تجربے کے طور پر گول ہنڈیا کی بجائے بیضوی شکل کی ہنڈیا بناتا ہے تو محض اس بنا پر اس کو ہدفِ تنقید نہیں بنانا چاہیے کہ ہنڈیا تو گول ہوتی ہے‘ یہ کیا بکواس ہنڈیا ہے۔ ایک صورت یہ ہوئی کہ شاعر سے شعر بن نہ سکا۔ دوسری صورت یہ ہے کہ شاعر بطور شعری تجربہ‘ جدت پسندی اور مہم بازی کے شوق میں‘ ذائقہ بدلنے کے لیے یا مملکتِ شعر کے ممنوعہ علاقوں کی سیر کی غرض سے اس نوع کے اشعار کہتا ہے جو عام قاری کی نظر میں‘ جس کا شعری ذوق روایت کا مرہونِ منت ہوتا ہے‘ کمزور قرار پاتے ہیں۔ ایسے اشعار سے لطف اندوز ہونے کے لیے جس قلبی وسعت‘ غیرجانبداری‘ کھلے ذہن اور جمہوری رویے کی ضرورت ہوتی ہے‘ وہ اکثر قارئین میں کم کم ملتا ہے اور وہ ان
اشعار کو پڑھتے ہی فتویٰ صادر کر دیتے ہیں: بکواس ہے‘ فضول ہے‘ وغیرہ۔ میرے خیال میں یہ رویہ مناسب نہیں ہے۔ اگر شاعر نے ایسے اشعار قصداً کہے ہیں اور وہ انہیں own کرتا ہے تو قاری کو چاہیے کہ ان اشعار کو ہدفِ ملامت بنانے کے بجائے اپنے Pre conceived نظریات کو وقتی طور پر بالائے طاق رکھتے ہوئے شاعر کی آنکھ سے آنکھ ملا کر نہ صرف شاعر کی اپروچ کو ہمدردی سے دیکھے اور سمجھے بلکہ اس کے اشعار سے لطف اندوز ہونے کی کوشش بھی کرے۔ اکثر اوقات تعصبات اور نظریات کسی چیز کی صحیح تفہیم اور اس سے لطف اندوز ہونے کی صلاحیت کے راستے کی دیوار بن جاتے ہیں۔ اگر ہم اس دیوار کو گرا دیں تو ممکن ہے ایک نیا جہانِ معنی اور سامانِ نظر ہمارا استقبال کرے۔ کسی شاعر کے فن کا تنقیدی
جائزہ لیتے ہوئے ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ اچھا شعر کہنے کی کوشش میں کہاں کامیاب اور کہاں ناکام ہوا‘ یا کہاں اسے جزوی کامیابی حاصل ہوئی۔ کسی شاعر کے اسلوبی یا لسانی تجربات پر ناک بھوں چڑھانے کی ضرورت نہیں ہوتی‘ شعری تجربات کی کامیابی یا ناکامی کا فیصلہ وقت پر چھوڑ دینا چاہیے۔ وقت سے بڑا منصف کوئی نہیں۔ نئے تجربات بسا اوقات مسلمہ روایتی نظریات سے متصادم ہوتے ہیں‘ لہٰذا انہیں روایت کی روشنی میں پرکھنے کی کوشش غیرمنطقی ہے۔ ایسی صورت میں ''دیکھو اور انتظار کرو‘‘ ہی بہتر پالیسی ہے۔ میں خود جناب ظفراقبال کے کمزور اشعار کے سلسلے میں اس غیرمنطقی رویے کا شکار ہو چکا ہوں‘ لیکن جب ایسے اشعار بار بار پڑھنے میں آئے تو میں نے محسوس کیا کہ مجھے یہ اشعار اچھے لگنے لگ گئے ہیں اور میں ان سے ایک نئی طرح کا لطف لینے لگا ہوں۔ ایسے اشعار کو اچھا یا برا کہنے کی بجائے ان کا مزہ لینا چاہیے۔ یعنی پیڑ گننے کے بجائے آموں پر توجہ دینی چاہیے۔ ان اشعار کی ایک اور خوبی جو میرے تجربے میں آئی‘ یہ تھی کہ اشعار شاعروں کو انسپائر کرتے ہیں۔ میں نے ظفراقبال کے (اس مخصوص نوع کے) مطلعوں اور مقطعوں پر پوری پوری غزلیں کہہ رکھی ہیں؛ حالانکہ میں بہت کم گو شاعر ہوں اور خود کو بطور شاعر کسی شمار قطار میں تصور نہیں کرتا۔ بس یہ غزلیں ظفراقبال کی خدمت میں ارسال کرتا رہا ہوں۔ انہوں نے کبھی ان کے بارے میں مثبت یا منفی رائے نہیں دی جس کا مطلب یہ ہے کہ انہیں وہ غزلیں بری نہیں لگیں۔ انشاء اللہ میں اگلے کالم میں ظفر صاحب کے ان تجرباتی اشعار کے وہ دلچسپ مطالب قارئین کی خدمت میں پیش کروں گا جو ان اشعار کو پڑھ کر قاری کے ذہن میں آتے ہیں۔ اُردو شاعری کی تفہیم میں یہ نئی بات ہے جو قارئین یقینا پسند فرمائیں گے۔‘‘
قارئین تو خدا معلوم پسند فرمائیں گے یا نہیں‘ جو کچھ انہوں نے لکھا ہے، وہ میں نے ضرور پسند فرمایا ہے۔ ڈاکٹر مظفر بخاری بنیادی طور پر مزاح نگار ہیں اور مجھے یقین ہے کہ اگلی قسط میں وہ اپنا یہ ہنر بھی آزمائیں گے کیونکہ ان کے مذکورہ اشعار میں اس کی وافر گنجائش بھی موجود ہوگی‘ لہٰذا اگر وہ اس کی ایک نقل مجھے بھجوا دیں تو اسے میں بھی اپنے کالم کی زینت بنا لوں گا۔ انہیں یاد ہوگا کہ کچھ عرصہ پہلے انہوں نے اس حوالے سے جو کچھ اشعار مجھے ارسال فرمائے تھے، وہ میں نے ان کا حوالہ دے کر کالم میں چھاپ دیے تھے‘ اس لیے ان کا یہ کہنا سراسر صحیح شاید نہ ہو کہ میرا ان کے بارے کیا ردِعمل ہے۔ مجھے ان کی نگارش کا انتظار رہے گا! پیشگی شکریہ!!
آج کا مقطع
یاد کر بھاگ پڑے تھے یونہی بے سمت ظفر
اب کھڑے سوچئے آوازہ کدھر سے آیا