تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     18-11-2015

حرمت سود

سود کی تباہ کاریوں اور ہولناکیوں کے حوالے سے مشرق و مغرب میںبحث ا ورمباحثے کا سلسلہ جاری وساری رہتا ہے۔ سود کو اسلام سمیت تمام الہامی ادیان میں حرام قرار دیا گیا ہے۔ بہت سے جدید ماہرین ِاقتصادیات بھی سود کو انسانیت کی معاشی تباہی کا سبب گردانتے ہیں۔ 
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ایک عرصے سے سودی بینکاری کا نظام جاری وساری ہے۔ مختلف فورمز پر اس کی اصلاح احوال کے لیے آواز اُٹھائی جاتی ہے۔ لیکن حکومتی سطح پر تاحال حرمت سود کے حوالے سے کوئی مؤثر اقدامات نہیں کیے گئے۔ حال ہی میں تنظیم اسلامی کے سربراہ برادر حافظ عاکف سعید نے حرمت سود سیمینار کا انعقاد کیا جس میں دینی جماعتوں کے رہنماؤں کے ساتھ ساتھ ماہرین اقتصادیات نے بھی شرکت کی۔ اس موقع پر میں نے جو گزارشات کیں ان کو قارئین کے سامنے رکھنا چاہتاہوں: 
معیشت انسانی زندگی کا ایک اہم حصہ ہے۔ ہر انسان کو بھوک پیاس ستاتی اور تن ڈھاپنے کے لیے کپڑوں کی ضرورت رہتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہر انسان کو سر چھپانے کے لیے ایک گھر بھی چاہیے ہوتا ہے۔ اگر معاشی استحکام ہو تو انسان اپنی جملہ ضروریات احسن طریقے سے پوری کر لیتا ہے اور اگر معاشی معاملات میںبگاڑ یا الجھاؤ ہو تو انسان اپنی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے سے بھی قاصر رہتا ہے۔ دنیا میںاس وقت معیشت کے حوالے سے بنیادی طور پر تین تصورات موجود ہیں۔
(1) سرمایہ دارانہ نظام (2) اشتراکیت (3)اسلامی نظام ِمعیشت۔
سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد سرمایہ کاری اور نجی ملکیت پر ہے۔ اس نظام میں ہر قسم کی تجارت کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ تجارت کے حوالے سے جائز وناجائز اور حلال وحرام کے فرق کو بھی ملحوظ خاطر نہیں رکھا جاتا۔ چنانچہ سرمایہ دارانہ معاشروں میں دیگر مصنوعات کے ساتھ ساتھ منشیات، جسم فروشی اور خنزیر کے گوشت کی تجارت بھی پورے عروج پر نظر آتی ہے۔ سرمایہ دارانہ سماج میں تاجر کی نگاہ فقط نفع پر ہوتی ہے اس لیے اس ضمن میں بائبل یا دیگر الہامی کتب کی تعلیمات کو بھی غیر اہم یاغیر ضروری سمجھا جاتا ہے۔ اس کے مدمقابل اشتراکیت میں مختلف پیشوں کے لوگ اپنی فنی اور ذہنی استعداد کے مطابق کام کرتے ہیںلیکن ان کے لیے ایک خاص حد سے زیادہ کمانا ممکن نہیں ہوتا۔ اشتراکیت میں نجی ملکیت کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے اور بنیادی ضروریات سے زائد اثاثے ریاست کی ملکیت قرار پاتے ہیں۔ ان اثاثوں کو ریاست کم کمانے والے طبقات میںتقسیم کرتی ہے ۔ اشتراکیت ذہین اور محنتی لوگوں کی حوصلہ شکنی کرتی ہے اور وہ سمجھ جاتے ہیں کہ قابلیت اور محنت کے باوجود بھی کبھی امیر نہیں ہو سکتے ۔
اشتراکیت اور سرمایہ دارانہ نظام کے مقابلے میں اسلام کا اقتصادی تصور ہر قسم کی اخلاقی قباحتوں سے پاک ہے۔ انسان محنت کر کے اپنے اثاثوں میں اضافہ کر سکتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ مذہبی اعتبار سے بھی اس امر کا پابند ہوتا ہے کہ ناجائز ذرائع آمدن سے احتراز کرے۔ چنانچہ اسلامی معاشرے میں منشیات فروشی، جسم فروشی، قحبہ گری اور حرام گوشت کی تجارت کے امکانات موجود نہیں ہوتے۔ کارباری امور کو وسعت دینے اور بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ہر دور کا تاجر اور مجبور انسان قرضوں کا طلب گار رہا ہے۔ کاروباری اور غیر کاروباری قرضوں کا مقصد اپنی معیشت کو بہتر بنانا اور اچانک اُبھر نے والی ضروریات کو پورا کرنا ہے۔ زر پرستوں کے ایک گروہ نے ہر دور میں متوسط درجے کے تاجر وں اور ضرورت مند انسانوں کی ضروریات کو مدنظر رکھ کر سود کا بیوپار کیا ہے۔ سود خور شخص اپنے مال کو ایک مدت کے لیے قرضے کے طور پر دیتا ہے اور اس کے عوض اضافی رقم بٹورتا ہے۔ اس کو اس بات سے دلچسپی نہیں ہوتی کہ تاجر کو کاروبار میں نفع ہوا یا نقصان ۔ اسی طرح اس کو اس امر سے بھی کوئی سروکار نہیں ہوتا کہ ضرورت مند انسان کی ضرورت پوری ہوئی یا نہیں۔ اس کو اُدھار کے بدلے حاصل ہونے والی اضافی رقم سے دلچسپی ہوتی ہے‘ اس طریقے سے سود خورضرورت مند انسان کا مسلسل ناحق استحصال کرتا ہے۔ اسلام نے جس طرح انسانیت کے لیے نقصان دہ بہت سے امور کو حرام اور ناجائز قرار دیا ہے‘سودی قرضوں اور سودی لین دین کو بھی حرام قرار دیا گیا ہے۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر سود کی حرمت کا ذکر ہے ۔ سورہ بقرہ میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تجارت کو حلال اور سود کو حرام قرار دیا ہے ۔ سورہ بقرہ ہی میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اب جس شخص کو اس کے پروردگار سے یہ نصیحت پہنچ گئی اور وہ سود سے رک گیا تو پہلے جو سود وہ کھا چکا ،سو کھا چکا،اس کا معاملہ اللہ کے سپرد۔ مگر جو پھر بھی سود کھائے تو یہی لوگ اہل دوزخ ہیں جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے سود کا لین دین کرنے والوں کو اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرنے والا قرار دیا ہے۔ قرآن مجید نے جہاںتجارت کی حوصلہ افزائی اور باطل طریقوں سے ایک دوسرے کا حق کھانے کی مذمت کی‘ وہیں پر اسلام نے بدحال، ضرورت مند اور حاجت مند طبقا ت کی معاونت کے لیے زکوٰۃ اور صدقات کی بھی حوصلہ افزائی کی ہے۔ چنانچہ قرآن مجید کے بعض مقامات پر سود اور زکوٰۃ وصدقات کا ذکر ایک ہی مقام پر کیا گیا ہے۔ سورہ بقرہ میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں '' اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتا اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔‘‘ اسی طرح سورہ روم میں اللہ تعالیٰ نے سود کے ذریعے اموال کی پرورش کی نفی اور زکوٰۃ کے ذریعے اموال میں اضافے کا ذکر کیا ہے۔
ان آیات پر غور وفکر کرنے کے بعد یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ مسلمان کا کام کسی ضرورت مند کی ضرورت سے ناجائز فائدہ اُٹھانا نہیں بلکہ مشکل کی گھڑی میں اس کی مدد کرنا ہے۔ حاجت مند افراد کی مشکل کو نظر انداز کر کے مال کمانے کے ساتھ ساتھ کئی مرتبہ سود خور کاروبار ی قرضوں کے ذریعے بھی پیسے کماتا ہے۔ بعض لوگ اس کمائی کو اس لیے درست سمجھتے ہیں کہ اس میں ان کی دانست میں کسی کا استحصال نہیں کیا جاتا ۔ کاروباری قرضوں کے ذریعے منافع کمانے میں بھی بہت سی قباحتیں موجود ہیں۔ ایک بڑی قباحت اللہ تعالیٰ کی ذات پر توکل کی کمی ہے۔ ایک مسلمان جب بھی کوئی تجارت کرتا ہے تو نفع کی امید اور نقصان کے اندیشے کے سبب اللہ تعالیٰ کی رحمت کا امیدوار رہتا ہے۔ جب کہ اس کے برعکس سود خور اپنے متعین منافع کو مدنظر رکھ کر رازق حقیقی کی مدد اور نصرت کی طلب سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔ اس حوالے سے دوسری قباحت یہ بھی پائی جاتی ہے کہ عام تجارت کے نتیجے میں پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے اور سامان ِتجارت کا ایک فرد سے دوسرے فرد تک انتقال ہوتا ہے۔ جب کہ سودی لین دین میں سود خور کو کسی بھی قسم کی پیداوار سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی اور نہ ہی اس میں سامان ِ تجارت کے تبادلے کی کوئی صورت نظر آتی ہے۔ اگر کسی معاشرے میں سود کا لین دین عام ہو جائے تو نفع کمانے والی سوچ کے سبب پیداواری صنعتوں اور زراعت کا جنازہ نکل جائے گا۔ لوگ بغیر محنت کے گھر بیٹھے ہی کمانے کے منصوبے تیار کرتے رہیں گے اور روزگار کے امکانات کم سے کم ہوتے جائیں گے۔ چنانچہ کسی بھی ملک میں صنعتی اوراقتصادی ترقی کو یقینی بنانے اور اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے حصول کے لیے سود سے نجات حاصل کرنا ازحد ضروری ہے۔ 
پاکستان کلمہ طیبہ کے نام پر بنا ہے اور اس میں بجا طور پر یہ امید کی جاسکتی ہے کہ ہمارے حکمران اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے جنگ کرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کی تابعداری کا راستہ اختیار کرکے دنیا اور آخرت کی کامیابیوں کو سمیٹنے کی طرف توجہ کریںگے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved