تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     18-11-2015

قرض

خدا بخش دہا ئی پہ دہائی دے رہا تھا۔ گائوں کا بڑا ہونے کے ناتے اس طرح کے معاملات میں خود ہی نمٹا دیا کرتا تھا۔ خواہش میری یہ تھی کہ اپنی محدود سی آمدن کو یہ لوگ مقدمے بازی کی نذر نہ کریں ۔ خدا بخش سے میں نے یہ کہا ''سترہ سال بعد سہی، تمہارا قرض حنیف محمد نے لوٹا دیا ہے ۔ اب اس سے بڑھ کر تم کیا چاہتے ہو؟‘‘ ''میں انصاف چاہتا ہوں چوہدری صاحب‘‘ اس نے آنکھیں پونچھ کر کہا۔ ادھر حنیف محمد اپنی مونچھوں کو بل دیتے ہوئے پیہم مسکرا رہا تھا۔ ''گائوں کی تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی ‘‘ اس نے کہا '' کہ کسی نے سترہ سال پہلے لیا ہوا قرض یوں سود سمیت لوٹایا ہو‘‘۔ اُس کی اِ س بات پہ خدا بخش تڑپ اٹھا۔ 
میں بے زاری محسوس کر رہا تھا۔ قرض لوٹانے کے بعد اصولاً یہ معاملہ ختم ہو جانا چاہیے تھا۔ پھر بھی خدا بخش کی تسلّی کے لیے میں نے کہا کہ وہ شروع سے ساری بات بتائے ۔ اس نے کہا:آج سے سترہ برس قبل (گائوں کی با اثر شخصیت ) حنیف محمد نے اپنی زمین کے کاغذت اس کے پاس رکھواتے ہوئے اس سے قرض لیا۔ سود تو دور کی بات ، وہ اصل رقم لوٹانے میں بھی ناکام رہا۔''چوہدری صاحب ، میں شدید مالی مشکلات کا شکارہوگیا تھا۔ یہ سترہ برس میں نے جس اذیت میں گزارے ،وہ بیان نہیں کی جا سکتی ‘‘اس نے روکر کہا۔ 
''کیا میںنے تمہیں کہا نہیں تھا کہ زمین بیچ کر اپنا قرض واپس 
لے لو‘‘ حنیف محمد نے بگڑ کر کہا۔ ''اب زمین کی سن لیں چوہدری صاحب ‘‘ خدا بخش نے کہا'' میں اس کی زمین بیچنے لگا تو اس کا چچا زاد عدالت چلا گیا۔ اس نے کہا کہ اس آبائی زمین میں وہ بھی حصے دار ہے ۔ سارے بااثر لوگوں کو اس نے رام کر لیا ۔عدالت نے حکمِ امتناعی جاری کر دیا۔ اس اثنا میں ، میں ہر در پہ گیا۔ کہیں میری شنوائی نہ ہوئی۔ اس کے پاس بڑے سے بڑا وکیل تھا۔ ادھر میں دیوالیہ ہونے کے قریب تھا۔ اس اثنا میں اس نے کونسلر اور ناظم سمیت، کتنے ہی الیکشن لڑے اور جیت لیے ۔قانون کے مطابق قرض نا دہندہ الیکشن لڑنے کا اہل نہیں ۔ میں الیکشن کمیشن کے پاس بھی گیا ۔ کسی نے میری بات نہ سنی ۔ہر بڑے آدمی سے اس کے تعلقات تھے۔ یہ پھلتا پھولتا رہا،کاروبار کرتا رہا؛حتیٰ کہ اس نے اپنی دولت کا ایک بڑاحصہ بیرونِ ملک منتقل کیا۔ وہاں بھی اس نے اپنی کاروباری سلطنت بنائی ۔ ‘‘
''تمہیں اپنی رقم سود سمیت واپس مل گئی ہے ‘‘ میں نے کہا ''اب اس سے بڑھ کر تمہیں کیا چاہیے ؟ ‘‘ میری اس بات پرمونچھوں کوتائو دیتا حنیف محمد مسکرانے لگا۔ ''مجھے انصاف چاہیے چوہدری صاحب‘‘ خدا بخش نے ایک بار پھر کہا'' ان سترہ برسوں میں ، جس ذہنی اذیت سے میں گزرا ، اس کا ذمے دار کون ہے ۔اس دوران مجھے اپنی بیٹی کی شادی کرنا تھی ۔ میرے پاس جہیز کے پیسے نہیں تھے۔ وہ گھر بیٹھی رہ گئی ۔اس کے بالوں میں چاندی اتر آئی ہے ۔ اب اس سے شادی کون کرے گا۔ ہائے میری بچّی ‘‘ خدا بخش سر پیٹنے لگا ۔ 
''ایک تو سود سمیت قرضہ واپس دیا ہے ، اوپر سے شور مچا رہے ہو ‘‘ حنیف محمد نے غصے سے کہا۔ خدا بخش جیسے اس کی آواز سن ہی نہیں رہا تھا۔ اس نے کہا ''اس نے مجھے یقین دلایا تھا کہ وقت پر قرضہ واپس دے گا۔ یہ بھی نہیں کہ اس کے پاس روپیہ نہیں تھا مگر اس کا دینے کا دل نہیں تھااور نہ میں اس قابل تھا کہ زبردستی لے سکوں ۔اس نے کہا''چوہدری صاحب ! میں اپنے بیٹے کو پڑھانا چاہتا تھا۔ وہ سکول سے فارغ ہوا تو میرے پاس کالج کی فیس ادا کرنے کی رقم نہیںتھی ۔ آج وہ گھر میں بے روزگار بیٹھا ہے ۔ ہائے میرا بیٹا۔ اب اُس کا کیا ہوگا‘‘ اس نے بلکتے ہوئے کہا۔ 
''پہلی بار دیکھا ہے کہ قرض واپس ملنے کے بعد بھی کوئی ایسی ناشکری کرے ۔ اس گائوں میں کون قرض واپس کرتاہے ۔ میں نے تو سود بھی دیا ہے ۔ ایک نئی تاریخ رقم کی ہے ۔ آنے والی نسلیں مجھے یاد رکھیں گی ۔ ‘‘ حنیف محمد نے کہا ۔ 
''چوہدری صاحب، یہ اسی طرح کی باتیں کرتا ہے ۔ ہر چوک چوراہے میں ،میرے ہر واقف کار سے یہ کہتا ہے کہ خدا بخش کو اس کا احسان مند ہونا چاہیے کہ اسے قرض واپس مل گیا ہے۔ اور تو اور ، مقامی اخبار اور کیبل چینل پر اس نے اشتہار چلوائے ہیں کہ قرض واپس کر دیاگیا ہے ۔ لوگ میرے گھر مبارکبادیں دینے آرہے ہیں ۔ یہ بتائیں چوہدری صاحب کہ میری ہی دی ہوئی رقم واپس کر کے اس نے کون سا احسان کیا ہے ۔ سترہ برس تک میں جس ذہنی اذیت کا شکار رہا ، رقم نہ ہونے کی وجہ سے جن مالی نقصانا ت کو میں نے برداشت کیا، ان کا ازالہ کون کرے گا َ؟ میرے بچوں کا مستقبل کون لوٹائے گا؟اور جو رقم اس نے سو د سمیت واپس کی ہے ، اس کی بھی سن لیں ۔ آج سے سترہ برس پہلے دس گرام سونا چار ہزار روپے کا ملتا تھا، آج چالیس ہزار کا ہے ۔ آپ گندم کا ریٹ نکال لیں ۔ چوہدری صاحب آپ تو پڑھے لکھے آدمی ہیں ، ڈالر کا ریٹ نکال لیں ۔ ان سترہ برسوں میں روپے کی قیمت کتنی رہ گئی ہے ، یہ آپ بھی بخوبی جانتے ہیں ۔اصل بات تو یہ ہے کہ اس کی زمین کی قیمت ہی بڑھ گئی تھی ۔ اس نے سوچا کہ قرض واپس کر کے زمین لو اور اسے بیچ کر منافع کمائو۔ ساتھ ہی ساتھ یہ ہر جگہ اپنی سخاوت کے ڈھول بھی پیٹ رہا ہے ۔ ‘‘
اب مجھے خدا بخش سے ہمدردی ہو چلی تھی ۔ میں نے کہا ''حنیف محمد تم نے بڑی زیادتی کی ‘‘۔ حنیف محمد گڑبڑا گیا۔ پھر کچھ سوچ کر اس نے کہا کہ وہ علیحدگی میں بات کرناچا ہتا ہے ۔ میں نے خدا بخش سے کہا کہ اس کے ساتھ پورا انصاف ہوگا۔ کچھ دیر وہ ہمیں علیحدگی میں بات کرنے دے ۔ موقع ملتے ہی اس نے بغل سے 8جولائی 2015ء کا ایک قومی اخبار نکالا۔ ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ نے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ اس نے سترہ برس پہلے جو قرض لیا تھا ،وہ واپس کر دیا ہے۔ اس کا یہ بھی کہنا تھا کہ ملکی تاریخ میں یوں سود سمیت قرض واپس کرنے کی کوئی مثال نہیں ملتی ۔ اتفاق کی بات یہ تھی کہ میں اور حنیف محمد دونوں اسی جماعت سے تعلق رکھتے تھے ۔ 
میں نے خدا بخش کو بلایا۔ اس کی آنکھوں میں امید تھی ۔ اب مجھے اس سے نفرت محسو س ہو رہی تھی ۔ میں نے گرج کر کہا '' ایک تو حنیف محمد نے سود سمیت قرض واپس کرتے ہوئے ایک نئی تاریخ رقم کی۔ اوپر سے تم اسے بدنام کرتے پھر رہے ہو۔تمہیں تو چاہیے کہ ایسی دریا دلی پہ اس کے پائوں دھو کر پیو۔ دوبارہ تم نے ایسی حرکت کی تو تمہارے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی ۔‘‘
''چوہدری صاحب آپ ٹھیک کہتے ہیں ‘‘ خدا بخش ڈر کے بولا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved