بیڈ گورننس پر کیسے دن آ گئے؟ اب تو پنجاب کے وزیراعلیٰ شہبازشریف نے بھی کہہ دیا کہ وہ بیڈگورننس والوں کے ساتھ نہیں چل سکتے۔مجھے اسی دن پتہ چل گیا تھا‘ جب فوج والوں نے گڈگورننس کے حق میں اچھے خیالات کا اظہار کیا ۔ اس کے کچھ ہی دنوں بعد‘ چیف جسٹس آف پاکستان ‘جسٹس انور ظہیر جمالی نے بیڈگورننس کے خلاف اظہار خیال کیا۔ جب بیڈ گورننس کے خلاف بڑی بڑی شخصیتوں نے ناپسندیدگی کا اظہار کرنا شروع کردیا‘تو ہمارے وزیراعظم اور وزیراعلیٰ نے ایک ہی دن تقاریر کرتے ہوئے اپنی پاکدامنی کی خبر دی اور یہ بتایا کہ انہوں نے مختلف منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچاتے ہوئے ‘ملک و قوم کے اربوں روپے بچا لئے ہیں‘ واضح ہو گیا کہ اب بیڈگورننس کے برے دن آ گئے ہیں۔ بیڈگورننس کی قسمت میں جتنے دن لکھے تھے‘ وہ ختم ہونے کو ہیں۔ میڈیا کے جتنے رپورٹرز‘ اینکرز اور کالم نویس ‘ مختلف سکینڈل سامنے لا کر قارئین کو بتا رہے تھے کہ کس طرح قوم کا پیسہ دونوں ہاتھوں سے لوٹ کر بیرونی ملکوں میں جمع کیا جا رہا ہے؟ مجھے تعجب ہوتا تھا کہ ملک میں کرپشن کو ختم کرنے کے خواہش مند ‘پے درپے کرپشن کے انکشافات پڑھ کر خاموش کیوں ہیں؟ کسی کو پکڑتے کیوں نہیں؟ سب سے زیادہ حیرت اس بات پر ہوتی تھی کہ ڈاکٹر عاصم حسین پر لگائے گئے الزامات کی فہرست کافی طویل تھی اور وہ گرفتار ہونے کے بعد ریمانڈ پر رینجرز کی تحویل میں بھی لئے جا چکے تھے اور یہ خبریں بھی آ رہی تھیں کہ رینجرز کو بڑے خوشگوار ماحول میں‘ اپنے کارناموں کی تفصیل بتا رہے ہیں۔ میں سوچا کرتا تھا کہ آخر رینجرز والے یہ سارے قصے کہانیاں کسی ناول نگار کے لئے جمع کر رہے ہیں یا کسی کام بھی آئیں گی؟
کافی انتظار کے بعد آج خبر آ گئی کہ سندھ حکومت نے ڈاکٹر عاصم کے کارناموں کا سراغ لگانے کے لئے جو جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم قائم کی تھی‘ اس میں انتہائی باوقار اداروں کے اراکین شامل تھے۔ اس نے اپنی رپورٹ تیار کر لی ہے‘ جس میں یہ حقائق شامل کئے گئے ہیں کہ ڈاکٹر عاصم حسین کے ہسپتالوں میں القاعدہ اور لیاری گینگ وار کے مجرموں کا علاج ہوتا رہا ہے۔ پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت سے قریبی تعلقات رکھنے والے ڈاکٹر عاصم حسین نے ‘جو پٹرولیم اور قدرتی وسائل کے مشیر بھی رہ چکے ہیں‘القاعدہ کے ساتھ روابط کا اعتراف بھی کر لیا ہے۔ تفتیش کے دوران انہوں نے بتایا کہ ان کے دو نجی ہسپتالوں میں‘ لیاری گینگ وار اور ٹارگٹ کلرز کو بھی سہولیات فراہم کی گئیں۔ ان انکشافات کی روشنی میں رینجرز اورقانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں نے ‘دہشت گردوں کو طبی سہولیات فراہم کرنے والوں کا ریکارڈ بھی حاصل کر لیا ہے۔ نیب سندھ نے ‘کرپشن کے درجنوں مقدمات کی تحقیقات کے بعد چالان تیار مکمل کیا۔ 90روز مکمل ہونے کے بعد‘ ملزم کو نیب کے حوالے کرتے ہوئے ‘ یہ چالان پیش کر دیا جائے گا۔ ڈاکٹر عاصم حسین کی گرفتاری معمولی واقعہ نہیں تھا۔ جب انہیں گرفتار کیا گیا‘ تو یہ بات واضح ہو گئی کہ اب بااختیار ادارے حرکت میں آ گئے ہیںاور ایوان اقتدار کی طاقتور شخصیتیں ‘ ڈاکٹر عاصم حسین کو رینجرز کے قبضے سے نکالنے میں کامیاب ہو جائیں گی۔ کافی دنوں تک اسی قسم کی افواہیں گردش کرتی رہیں۔ لیکن تحقیقاتی کمیٹی نے اپنا کام جاری رکھا۔ چند روز سے افواہوں کے رنگ بدلنے لگے۔ ہری جھنڈیاں غائب ہونے لگیں۔ سرخ جھنڈیاں نمودار ہونے لگیں اور وہ اینکر‘ جو ڈاکٹر عاصم کی ''گلوکاری ‘‘کی خبریں دیا کرتے تھے‘ پہلے جھلاتے اور پھر سٹپٹاتے ہوئے نظر آنے لگے۔ انہیں سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ بار بار ایک ہی طرح کے انکشافات کرتے ہوئے‘ اپنے ناظرین کے سامنے ایک ہی طرح کی پیش گوئیاں کیوں کر رہے ہیں؟ ان کا قصور بھی نہیں تھا۔ ان کے خصوصی ذرائع یہی بتا رہے تھے کہ ڈاکٹر عاصم نے خفیہ ایجنسیوں کی زبان میں ‘گنگنانا شروع کر دیا ہے اور ان کے انکشافات کے مسودے ضخیم ناولوں کی طرح بوجھل ہوتے جا رہے ہیں۔اس طرح کے انکشافات کا سلسلہ شروع ہوتا ہے‘ تو بہت سے بااثر اور بااختیار لوگ بھی سامنے آنے لگتے ہیں۔ جو خفیہ اطلاعات ملزم بیان کرتا ہے‘ کسی نہ کسی ذریعے سے ملوث شخصیات تک بھی پہنچنے لگتی ہیں اور وہ اپنی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے‘ اپنی ذات کے متعلق ظاہر ہونے والے انکشافات کو حذف کرانے اور مٹوانے کی جدوجہد شروع کر دیتے ہیں۔ جب رینجرز کا تیارشدہ چالان عدالتوں کے سامنے آئے گا‘ تب اندازہ ہو گا کہ کتنے بااثر لوگ ‘چالان میں سے اپنے نام حذف کرانے اور مٹوانے میں کامیاب ہوئے ہیں اور کون ناکام ؟
جو معلومات مجھ جیسے گوشہ نشینوں تک پہنچی ہیں‘ ان کے مطابق تو کافی طاقتور افراد سے منسوب کارنامے‘ عدالتوں اور عوام کے سامنے آنے والے ہیں۔ بہت سے باعزت لوگوں کے لئے سرکاری مہمان خانوں میں کمرے بھی تیار کئے جا رہے ہیں۔ یہ محض خوش گمانیاں ہیں۔ ابھی تک تو یہی ہوتا رہا ہے کہ بااثر لوگ ‘قتل کر کے بھی گرفتار ہوئے‘ تو جیلوں کے اندر ان کی پرآسائش زندگی کے سارے لوازمات فراہم ہوتے رہے اور آخر ایک دن وہ بڑی شان سے رہا ہو گئے۔ ایسی بے شمار کہانیاں‘ عوام کے حافظوں میں محفوظ ہیں اور محفلوں میں گردش کرتی رہتی ہیں۔ ہر نئی کہانی کے بعد بااثر‘ دولت مند اور طاقتور لوگوں کے حوصلے بلند ہو جاتے ہیں اور ان کے اندر جرم کرنے کا جذبہ بیدار ہوتا رہتا ہے ۔ وہ اپنے ہم مرتبہ لوگوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے‘ جیل کے اندر فائیوسٹار درجے کی چند روزہ زندگی گزارنے کا تجربہ کر لیتے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ ڈاکٹر عاصم کے انکشافات کے بعد‘ کوئی بڑی شخصیت‘
قانون کے شکنجے میں آتی ہے یا نہیں؟ جہاں تک عوام کے اندر ہونے والی چہ میگوئیوں کا تعلق ہے‘ ان میں تو بہت سے بڑے بڑے نام سامنے آتے ہیں۔ پاکستان کے اربوں روپے‘ چھوٹے لوگ بیرونی بنکوں میں جمع نہیں کر سکتے۔ چھوٹے چھوٹے کارندے ‘ جو ہوائی سفر کے دوران ڈالروں سے بھرے بیگ لے کرنکلتے ہیں‘ وہ اربوں اور کروڑوں کی مالیت میں یورپ اور امریکہ کی کرنسیاں لے کر نہیں جاتے۔ اس کے لئے یا تو کشتیوں میں کئی کئی ٹن سونا بھیجا جاتا ہے یا خصوصی پروازوں میں بھرے ہوئے سوٹ کیس لے جائے جاتے ہیں۔ جو بہت طاقتور ہوں‘ وہ بنکوں کے ذریعے‘ اپنی دولت منتقل کرتے ہیں۔ اس معیار اور درجے کے لوگ اگر پکڑے جائیں‘ تو عموماً ان کے نام بھی سامنے نہیں آتے اور وہ اپنے جرائم کی جھولی تھوڑی سی ہلکی کر کے‘ خاموشی سے اپنے عشرت کدوں کی طرف روانہ ہو جاتے ہیں۔ ایان علی جیسے چھوٹے سے ''کیریئر‘‘ بھی ہماری موجودہ قانونی مشینری کے قابو میں نہیں آتے۔ یہ خاتون جو جیل کے اندر ہی‘ بیوٹی پارلر کی خدمات حاصل کر کے‘ عدالت میں پیشی کے لئے آتی رہی‘ اس پر ابھی تک جرم ثابت نہیں کیا جا سکا۔ لیکن جو شہرت اس نے بطور ملزم ‘ عدالتوں میں پیش ہونے کے مناظر سے حاصل کی‘ وہ بطور سپرماڈل ‘شاید اسے کبھی حاصل نہ ہوئی ہو۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ پہلے اگر وہ کسی فیشن شو میں چند ہزار یا چند لاکھ روپے لیتی ہو گی‘ تو اب اس کی فیس ملین روپوں یا ڈالروں میں شمار کی جائے گی۔ جو شہرت اور رتبہ ایان علی کو محض ایک الزام پر حاصل ہوا‘ اگر ڈاکٹر عاصم حسین کے انکشافات میں ظاہر ہونے والے چہرے‘ میڈیا میں اسی کوریج کے اہل نکلے‘ تو ملک میںبیڈگورننس کا تو دیوالیہ نکل جائے گا۔ بڑے عہدے اور منصب پر فائز شخصیتوں کی کالی کمائی کے راز کھلنے لگے‘ تو فوج اور چیف جسٹس آف پاکستان نے گڈگورننس کے لئے جن خواہشات کا اظہار کیا ہے‘ وہ پوری ہو سکتی ہیں۔ کیونکہ یہی عوام کی خواہشیں ہیں اور ضروریات بھی۔ جب بیڈ گورننس ختم ہوجائے گی‘ تو عوام کی حق تلفی کا سلسلہ بھی رک جائے گا اور ان کی غربت کے دن بھی ختم ہونے لگیں گے اور اگر ڈاکٹر عاصم حسین کی فلم میں‘ بڑے بڑے ستاروں کے نام دکھائی نہ دیئے‘ تو سمجھ لیجئے کہ پھر سے ایک پرانی کہانی فراموشیوں کی نذر ہو جائے گی۔ ہم میڈیا والوں کو ڈاکٹر عاصم حسین سے بہت امیدیں ہیں۔ سچ پوچھئے‘ تو میری خواہش ہے کہ وہ چند نئی اور دلکش کہانیاں عوام کو دے کر‘ ان کے بدلے میں رہائی حاصل کر لیں‘ عوام پھر بھی انہیں ‘اچھے جذبات سے یاد کریں گے۔ لیکن اگر ان کی کہانیوں کے طاقتور کرداروں نے ‘ سارے راز چھپا کر بچ نکلنے میں کامیابی حاصل کر لی‘ تو پھر گڈگورننس نامی چیز ہماری قسمتوں میں نہیں۔لوگ سیلابوں‘ زلزلوں اور خستہ حال عمارتوں کے شکار ہو کر‘ مرتے رہیں گے یا بھوک اور دوائوں سے محرومی ‘انہیں موت کی آغوش میں پہنچاتی رہے گی۔ ہمارے وزیراعلیٰ شہبازشریف‘ بیڈگورننس والے وزیروں کا ساتھ چھوڑتے رہیں گے۔پنجاب کے عوام‘ ایسے بے شمار وزیروں کے نام جانتے ہیں‘ جنہیں بیڈگورننس کی بنا پر وزارتوں سے محروم ہونا پڑا۔