ایف بی آر میں وسیع پیمانے پر تبادلے اگر معمول کی کارروائی تسلیم کر لیے جائیں تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے‘ اس کی ضرورت نومبر میں کیوں پیش آئی اور اعلیٰ کارکردگی پر افسران کو انعام و اکرام سے نوازا جاتا ہے‘ تبادلوں سے نہیں۔ یہ محض ایف بی آر میں افسروں کی باہمی چپقلش کا نتیجہ بھی نہیں کیونکہ چپقلش توعرصہ دراز سے جاری تھی مگر تبادلے اب ہوئے۔ انکم ٹیکس ریٹرن داخل ہونے کی آخری تاریخ گزرنے کے بعد۔ دال میں کچھ ضرور کالا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ ایف بی آر کی کارگزاری پر ہمیشہ انگلیاں اُٹھتی رہی ہیں ....ٹیکسوں کی وصولی میں ناکامی ‘ نئے ٹیکس گزاروں کی تلاش میں مجرمانہ غفلت اور بڑے ٹیکس دہندگان سے زیادتی کے الزامات ہمیشہ اس محکمے پر لگتے رہے جبکہ بڑے مگرمچھوں کو حیلوں بہانوں سے چھوٹ دینے اور تنخواہ دار ٹیکس گزاروں پر سارا بوجھ ڈالنے کی روش ہدف تنقید بنی۔ مگر ایف بی آر نے اپنی وضع بدلی نہ کسی حکومت نے اس معاملے کو سنجیدگی سے لیا۔
جب حکمرانوں کی عیش و عشرت اور لوٹ مار کے لیے وافر وسائل موجود ہوں‘ ملک اُن کے لئے چراگاہ ہے اور انہیں اس چراگاہ سے بھر پور انداز میں مستفید ہونے کی کھلی چھٹی اور غیر ملکی قرضے مہنگے سہی آسانی سے دستیاب ہوں، سنجیدگی اختیار کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ پارلیمنٹ‘ پبلک اکائونٹس کمیٹی‘ آڈیٹر جنرل پاکستان اور اپوزیشن کو احتساب کی اجازت ہو نہ جرأت تو کسی کو کیا پڑی ہے‘ وہ ایف بی آر یا کسی دوسرے ادارے سے پوچھ سکے کہ قومی اخراجات بڑھنے اور مالدار لوگوں کی تعداد میں اضافے کے باوجود ٹیکسوں کی مد میں قومی آمدنی کیوں نہیں بڑھ رہی اور سارا زور بالواسطہ ٹیکسوں پر کیوں ہے‘ جس سے متوسط اور غریب بالخصوص تنخواہ دار طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے۔ رشوت‘ گراں فروشی‘ ذخیرہ اندوزی‘ سمگلنگ اور دیگر ناجائز ذرائع سے دھن دولت میں اضافہ کرنے والے مزے میں ہیں اور قومی وسائل لوٹ کر بیرون منتقل کرنے والے بھی۔ سیاں بھئے کوتوال اب ڈر کاہے کا!
دو وجوہ کی بنا پر مگر یہ دھندااب مزید چلتا نظر نہیں آتا۔ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کے دوران اس ملک کی سلامتی‘ تحفظ اور دفاع کے ذمہ دار اداروں کے علم میں یہ بات آ چکی ہے کہ کھربوں روپے کی لوٹ مار کرنے والے عوام کے خون پسینے کی کمائی صرف بیرون ملک منتقل نہیں کرتے‘ لندن‘ دبئی‘ سپین‘ ترکی اور ملائشیا میں اثاثے نہیں بناتے‘ سوئٹزرلینڈ کے بنک نہیں بھرتے بلکہ اس رقم کا کچھ حصہ دہشت گردوں‘ ٹارگٹ کلرز‘ بھتہ خوروں اور بھارت کے تربیت یافتہ تخریب کاروں کی خدمت تواضع کے لیے بھی وقف ہے‘ جس کے عوض ان کے کاروبار‘ خاندان اور مفادات کا تحفظ کیا جاتا ہے اور قاتل مافیا بوقت ضرورت سیاسی مدد بھی کرتا ہے۔
اس کے علاوہ پاک چین راہداری منصوبہ خطے میں گیم چینجر ہے جسے ناکام بنانے کے لیے صرف امریکہ و بھارت نہیں اردگرد کے کئی دوسرے ممالک بھی سرگرم ہیں یہ منصوبہ پاک فوج کی نگرانی اور حفاظتی انتظامات میں ہی مکمل ہو سکتا ہے جس کا احساس چین کو بھی ہے۔ ڈر صرف مالی خرد برد کا نہیں چینی انجینئروں اور منصوبے سے وابستہ دیگر باشندوں کی جانوں کو درپیش خطرات اور منصوبے کے فطری رفتار سے جاری رہنے کا معاملہ بھی بیجنگ اور اسلام آباد میں زیر غور ہے تاکہ 2018ء میں یہ پایۂ تکمیل کو پہنچے اور نہ تو کوئی سیاسی مہم جُو اسے کالا باغ کی طرح متنازع بنا سکے، نہ کسی قسم کی رکاوٹ ڈال سکے۔
دہشت گردوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے اور کرپشن و سیاسی مہم جوئی کا سدّباب کرنے کے لیے فاٹا‘ بلوچستان اور کراچی کی طرح پورے ملک میں بے لاگ احتساب اور آپریشن ضروری ہو گیا ہے تاکہ دہشت گردوں کی مالی سپلائی لائن جاری رہ سکے ‘نہ لوٹے ہوئے دھن دولت کے زور پر کسی سیاسی مہم جوئی کا اندیشہ ہو۔ ماضی میں لوٹ کے مال سے پاکستان میں عدم استحکام پیدا کیا گیا اور سارے چور اچکے اکٹھے ہو کر احتساب و مواخذے کی ہر کوشش کو ناکام بناتے رہے۔ ڈاکٹر عاصم حسین کی گرفتاری کے بعد جو ہوشربا معلومات تفتیشی اداروں کو ملیں ان سے آپریشن کا نیا مرحلہ جلد شروع کرنے کی خواہش بڑھی اور یہ بھی پتا چلا کہ لاہور سے کراچی‘ دبئی اور لندن تک مالیاتی دہشت گردی کا نیٹ ورک کس طرح منظم ہے اور سیاسی مافیا کس طرح اس نیٹ ورک کو برقرار رکھنے کے لیے کوشاں ہے تاکہ بوقت ضرورت اسے اپنے سیاسی مفادات اور مقاصد کی تکمیل کے لیے استعمال کیا جا سکے۔
موجودہ کرپٹ نظام اس گیم چینجر منصوبے کی تکمیل خوش اسلوبی سے کر سکتا ہے نہ نیشنل ایکشن پلان کی حتمی کامیابی میں مددگار ثابت ہو رہا ہے جب تک آپریشن کراچی میں چلتا رہا اور ٹارگٹ تیسرے چوتھے درجے کے کارندے اور سہولت کار تھے وفاقی‘ صوبائی حکومتیں اور سیاسی جماعتیں اس کی تعریف و توصیف میں
رطب اللسان اور اسے اپنا کارنامہ قرار دیتی رہیں‘ مگر جونہی احتساب کا آہنی ہاتھ بڑے مگرمچھوں کی طرف بڑھنے کا اندیشہ پیدا ہوا مزاحمت شروع ہو گئی۔ حکومت اور فوج کے مابین اختلافات اس وقت ابھرے جب پنجاب اور مرکز میں برسر اقتدار جماعت سے وابستہ بعض افراد کی ایسی سرگرمیوں کا انکشاف ہوا جو نیشنل ایکشن پلان کے مقاصد سے متصادم اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں رکاوٹ تصور کی گئیں۔
دہشت گردی ختم کرنے کے لیے پیسے کی پائپ لائن کو بند کرنا ضروری ہے۔ مگر سندھ کی صوبائی اور مسلم لیگ کی وفاقی حکومت دعوئوں کے برعکس احتساب کا دائرہ مزید وسیع کرنے کے حق میں نہیں کیونکہ اب ان لوگوں کی گرفتاری کا وقت آ گیا ہے جو حکمرانوں کی ناک کا بال ہیں یا موجودہ کرپٹ، آدم خور سیاسی نظام کے استحکام میں مددگار۔ حکومت عدم استحکام نہیں چاہتی اس لیے اس بات کی خواہش مند ہے کہ احتساب کا عمل کم از کم دو اڑھائی سال کے لیے موخر کر دیا جائے یا پھر اسے صوبائی حکومتوں کی صوابدید پر چھوڑ دیا جائے‘ مگر دونوں صورتوں میں اندیشہ یہی ہے کہ اوّل تو کسی کا احتساب نہیں ہو گا اور اگر ہوا بھی تو صرف حکومت کے مخالفین سیاستدان اور بیورو کریٹس اس کی زد میں آئیں گے۔
اسلام آباد کے بعض باخبر حلقوں کا دعویٰ ہے کہ ایف بی آر میں حالیہ تبدیلیاں بھی نیشنل ایکشن پلان کو آگے بڑھانے کی حکمت عملی کا حصہ ہیں جبکہ نیب میں انقلابی تبدیلیوں کی توقع بھی کی جا رہی ہے تاکہ ایک تو ٹیکسوں کا دائرہ بڑھانے اور وصولی کے اہداف پورے کرنے کی دیرینہ خواہش پوری کی جا سکے اور ریاست کو مہنگے قرضوں کی احتجاج لاحق نہ ہو‘ دوسرے نیب کا مضبوط ادارہ کسی رو رعایت اور نرمی کے بغیر ان بڑے مگرمچھوں پر ہاتھ ڈال سکے جو مالیاتی دہشت گردی کے خلاف موثر کارروائیوں کی راہ میں رکاوٹ اور سیاست کو ریاست پر ترجیح دینے کی پالیسی کو چلانے میں حکمران اشرافیہ کے مددگار ہیں۔
ملی بھگت اور سیاسی مفاد پرستی کی روش کے باعث ماضی میں کالا باغ ڈیم بن سکا نہ گڈ گورننس کا اہتمام ہوا اور نہ ٹیکسوں کی وصولی کا فول پروف نظام وضع ہوا۔ یہ لوٹ مار کا کلچر تھا جس نے تھرمل منصوبوں سے پیدا ہونے والی بجلی کو عوام کی قوت خرید سے دور کر دیا اور ترقیاتی منصوبوں میں کک بیکس کی طرح ڈالی۔ مالیاتی بدنظمی، بُری حکمرانی، لوٹ مار اور اقرباپروری کے سبب غیر ملکی قرضوں پر انحصار بڑھا اور غربت و افلاس ‘ مہنگائی و بے روزگاری کے علاوہ دہشت گردی میں اضافہ ہوا۔ ملک کو ہر طرح کی دہشت گردی سے محفوظ پاک چین راہداری منصوبے کو کامیابی سے ہمکنار اورلوٹ مار کے موجودہ کلچر کا قلع قمع کرنے کے لیے فاٹا سے گوادر اور لاہور سے کراچی تک ہر جگہ بے لاگ احتساب کا اہتمام اب کسی کا شوق نہیں بلکہ قومی ضرورت ہے اور قومی دفاع‘ سلامتی‘ تحفظ کی ضمانت۔ دیکھنا مگر یہ ہے کہ حکومت سیاسی استحکام کے نام پر دو سال کی گولی دینے میں کامیاب رہتی ہے یا گڈ گورننس کے حوالے سے نیشنل ایکشن پلان کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے اپنے بعض پیاروں کی قربانی پر آمادہ ہوتی ہے۔ یہ حکومت کی انا یا فوج کی خواہش کا مسئلہ نہیں، ایک کی بقا اور دوسرے کی ساکھ کا سوال ہے جبکہ اچھی اورکرپشن فری حکمرانی کا فائدہ عوام کو ہے‘ عوام کے مفاد کو کون ترجیح دیتا ہے؟ ایف بی آر میں حالیہ تبدیلیاں بھی کارآمد ثابت ہوتی ہیں یا نہیں؟ اگلے چند ہفتوں میں سب کھل کر سامنے آ جائے گا... ؎
یہ ڈرامہ دکھائے گا کیا سین
پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ