تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     19-11-2015

حرمین الشریفین میں حاضری

مجھے حرمین گئے ہوئے دس گیارہ سال ہو چکے تھے۔ بیگم کو بھی عمرہ کئے ہوئے کئی سال بیت چکے تھے۔ میں گناہگار سا مسلمان اور وہ پابند صوم و صلوٰۃ۔ ایک عرصہ سے اصرار کر رہی تھیں کہ عمرہ ادا کرنے کا بندوبست کریں۔ اس ضمن میں خاوند کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے کہ بیوی محرم کے بغیر ارض مقدس نہیں جا سکتی۔ ویزہ کے لیے اپلائی کیا کیونکہ ٹکٹ خریدنے سے پہلے ویزہ کا حصول شرط ہے۔ بیگم کی بے قراری روز بروز بڑھ رہی تھی۔ ہر روز سوال ہوتا کہ ویزہ کا کیا بنا۔ میں ڈھارس بندھاتا رہا کہ مل جائے گا کہ بلاوا اللہ کی طرف سے آتا ہے ایمبیسی صرف ذریعہ ہوتی ہے۔ سعودی عرب اور عرب امارات کے ویزوں کا بندوبست ہو گیا تو ٹکٹ کے ساتھ ساتھ ہوٹل کی بکنگ کا مرحلہ درپیش تھا۔
ہوٹل روم بکنگ کا معاملہ زینب بیٹی نے اپنے ذمہ لے لیا۔ بچے انٹرنیٹ پر دنیا جہاں کے ہوٹل منٹوں میں تلاش کر لیتے ہیں، اور ویسے بھی انٹرنیٹ پر بکنگ کرانے سے معقول کرائے میں اچھے سے اچھا ہوٹل مل جاتا ہے۔ بس کریڈٹ کارڈ کے ذریعے کچھ ادائیگی پیشگی کرنا ہوتی ہے؛چنانچہ زینب نے مکہ مکرمہ میں ہلٹن ہوٹل، مدینہ منورہ میں کرائون پلازہ میں ریزرویشن کرا دی دونوں ہوٹل حرمین سے بہت قریب ہیں۔
جدہ کے سفر سے ایک روز قبل قونصل جنرل شہر یار اکبر سے بات ہوئی۔ شہر یار کو خود جدہ میں چارج لئے صرف تین ہفتے گزرے ہیں۔ جب ہماری بات ہو رہی تھی تو شہریار کا ذاتی سامان بذریعہ کنٹینر ابھی جدہ نہیں پہنچا تھا، پھر بھی وہ اس بات پر مُصر تھا کہ ملاقات ضروری ہے۔ ہم جدہ ایئرپورٹ پہنچے تو قونصل خانہ کی گاڑی اور پروٹوکول اسسٹنٹ شاہد فاروقی انتظار کر رہے تھے۔ ایئر پورٹ سے سیدھے قونصل جنرل کے گھر پہنچے۔ گھر کے باہر سامان کے کارٹن پڑے تھے۔ کنٹینر اس صبح، یعنی دس نومبر کو بندرگاہ سے آیا تھا۔ مصروفیت کی حالت میں بھی شہریار اور اس کی بیوی نے گرم جوشی سے استقبال کیا، پُر تکلف چائے پلائی اور ہمیں مکہ کے لیے روانہ کیا۔
ہماری پچھلی رات ہوائی جہازوں میں گزری تھی۔ مجھے ہوائی جہاز میں نیند نہیں آتی۔ حرم مکّی کو دیکھتے ہی تمام تھکاوٹ دور ہو گئی۔ ہلٹن ہوٹل میں ہمارے کمرے کی کھڑکی سے حرم شریف کا نظارہ دیدنی تھا؛چنانچہ سامان کمرے میں رکھ کر فوراً ہی سوئے حرم روانہ ہوئے۔ عمرہ مکمل ہوا تو عصر کے لیے صف بندی ہو رہی تھی۔
ہمارا خیال تھا کہ حج سیزن کے فوراً بعد حرم شریف میں رش بہت کم ہو گا لیکن اندازہ غلط ثابت ہوا۔ سعودی عرب اور خلیجی ممالک کے بے شمار لوگ عمرہ کرنے آئے ہوئے تھے۔ عصر کی نماز کے لیے مشکل سے جگہ تلاش کی۔ حرم شریف پہلے سے کئی گنا وسیع ہے اور مزید توسیع ہو رہی ہے لیکن پھر بھی نمازیوں کا سمندر پھیلتا ہی جاتا ہے۔ جمعہ کے روز تو اگر ایک گھنٹہ اذان سے پیشتر نہ پہنچیں تو حرم کے باہر جگہ ملتی ہے۔ بیگم مُصر تھیں کہ ہر نماز کے ساتھ طواف کعبہ کرنا ہے۔ عام حالات میں طواف پندرہ سے بیس منٹ میں مکمل ہو جاتا ہے لیکن جمعہ کی نماز سے پہلے ہمیں طواف کرنے میں چالیس منٹ لگے۔ توحید کے پروانے بے شمار تھے۔ طواف میں دو رنگ نمایاں تھے ایک سفید اور ایک سیاہ۔ سفید رنگ احرام پہنے ہوئے مرد حضرات کا تھا اور سیاہ رنگ برقعہ یا عبایہ پہننے والی خواتین کا۔
حرم شریف میں اب بے شمار سہولتیں اور آسانیاں میسر ہیں۔ کئی جگہ بجلی کی سیڑھیاں ہیں۔ آب زم زم جگہ جگہ رکھا ہوا۔ کلام پاک کے ہزاروں نسخے موجود ہیں۔ عمر رسیدہ نمازیوں کے لیے جگہ جگہ کرسیاں پڑی ہوئی ہیں۔ حرم کے چاروں طرف وضو کا بہت اچھا انتظام ہے۔ جمعہ کے خطبہ کا اردو، انگریزی، فرانسیسی اور انڈونیشین زبانوں میں رواں ترجمہ ہوتا ہے جسے آپ اپنے موبائل فون سے ایف ایم ریڈیو اور ہیڈ فون کے ذریعے سن سکتے ہیں۔ حرم شریف میں موبائل فون لے جانے کی اجازت ہے۔ اس رعایت کا فائدہ اٹھا کر بعض لوگ دوران طواف بھی سیلفیاں بناتے ہیں اور پولیس کے منع کرنے کے باوجود اس حرکت سے باز نہیں آتے۔
مغرب کے بعد حرم سے ہوٹل کی طرف نکلے تو مرد حضرات لمبی لائن میں کھڑے تھے۔ ان میں بنگلہ دیشی پاکستانی، انڈین، مصری اور یمنی لوگ زیادہ تھے۔ معلوم ہوا کہ کھانا مفت تقسیم ہو رہا ہے۔ یہ قطار دن میں تین مرتبہ یعنی صبح، دوپہر، شام لگتی تھی اور یہ کھانا ایک ہی ریسٹورنٹ سے تقسیم ہوتا تھا۔ استفسار پر پتہ چلا کہ مخیر حضرات ریسٹورنٹ والے کو پیسے دیتے رہتے ہیں اور وہ مفت طعام تقسیم کرتا رہتا ہے۔
ایک اور بات جس نے ہمیں بے حد متاثر کیا، وہ سعودی باشندوں کا طواف اور عمرہ کرنے والوں اور نمازیوں کی بڑی سادگی سے خاطر تواضع کی خواہش تھی۔ اگر طواف دھوپ میں ہو رہا ہے تو کچھ لوگ ٹشو پیپر کے ڈبے لے کر کھڑے تھے کہ عبادت گزار اپنی اپنی جبین سے پسینہ صاف کر لیں۔ کئی لوگ آ کر نمازیوں میں کھجوریں تقسیم کرتے ہیں اور کچھ چاکلیٹ۔ میں نوافل سے فارغ ہوا ہی تھا کہ ایک سفید داڑھی والے بزرگ بڑا سا تھرموس ہاتھ میں لئے کھڑے تھے۔ کہنے لگے: چائے پیو گے اور میں نے اس پر خلوص دعوت کا فوراً اثبات میں جواب دیا۔
ایک اور بات جس نے مجھے امپریس کیا، وہ یہ تھی کہ شیعہ، سنی، دیو بندی، بریلوی، شافعی، مالکی، حنبلی اور حنفی سب ایک ہی امام کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں۔ کوئی رفع یدین کر رہا ہے اور کوئی نہیں، کوئی اونچی آمین کہہ رہا ہے اور دوسرا خاموشی سے۔ کسی کا سر ڈھکا ہوا ہے تو دوسرے کا مکشوف مگر کوئی کسی پر اعتراض نہیں کرتا ہے ہر کوئی اپنے رب کے حضور عبادت میں مصروف ہے۔ کعبہ مشرفہ کا اپنا خاص جلال ہے اور اس مرتبہ ہم دونوں اس جلال کو جی بھر کے دیکھا اور گناہوں سے مغفرت کی دعائیں مانگتے رہے۔
مکہ مکرمہ میں جلال کی کیفیت ہے تو مدینہ منورہ میں جمال کی۔ مسجد نبوی کئی گنا بڑی ہو گئی ہے، مسجد قبا بھی گئے۔ مدینہ منورہ میں سرکلر ریلوے کا بڑا منصوبہ شروع ہونے والا ہے، لہٰذا کئی سڑکیں بند ملیں۔
جمعہ کے روز مغرب اور عشاء کی نمازیں مسجد نبوی میں ادا کیں۔ یقین مانئے کہ روضۂ رسولؐ کی زیارت اس لئے ملتوی کر دی کہ حضور کا سامنا کیسے کروں گا۔ اقبال نے اللہ تعالیٰ سے درخواست کی تھی کہ روز قیامت اگر نامہ اعمال میں کمی ہو تو رسول کریمؐ سے چھپائے رکھنا؛ بس کچھ ایسی ہی کیفیت تھی۔ اگلے روز یعنی 14نومبر کو صبح کے وقت روضۂ رسول پر حاضری دی۔ اچھی بات یہ ہے کہ اب وہاں زائرین قطار بنا کر روضۂ اقدس کے سامنے سے گزرتے جاتے ہیں، لہٰذا پہلے والی بدنظمی نہیں دیکھی۔ میرے آگے ایک عمر رسید بزرگ کھڑے تھے۔ ضعف کی وجہ سے ایک نوجوان انہیں سہارا دے رہا تھا۔ بزرگ روضۂ مبارک کے سامنے کھڑے ہو کر زاروقطار رو رہے تھے۔ پولیس والا سعودی گارڈ بھی انہیں جلدی جلدی آگے جانے کا نہیں کہہ سکتا تھا۔ مجھے وقت مل گیا اور میں نے سعودی محافظ سے کہا کہ تم خوش قسمت ہو شاید اس ڈیوٹی کی بنا پر تمہاری بخشش ہو جائے۔ اس کا جواب حیران کن تھا۔ کہنے لگا کہ اگر میرے اعمال اچھے نہ ہوئے تو یہاں ڈیوٹی دینا بھی کام نہیں آئے گا۔ بات تو بہت صحیح تھی۔ سعودی عرب سے رخصت کے وقت بیگم کہتی ہیں کہ وعدہ کریں کہ پاکستان جا کر نماز باقاعدگی سے پڑھیں گے اور میں خاموش ہو گیا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وعدہ کر لوں اور وفا نہ کر سکوں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved