تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     19-11-2015

آسان نسخہ

داستانوں میں پڑھا ہے کہ کسی زمانے میں روئے زمین پر جادوگر بھی ہوا کرتے تھے۔ اب واقعی وہ ہوتے تھے یا نہیں یہ تو اللہ ہی جانے مگر ہاں، کبھی کبھی ہم یہ ضرور سوچتے ہیں کہ اگر وہ جادوگر آج ہوتے تو شرم سے ڈوب مرتے۔ ہماری دنیا میں جادوگروں کی کون سی کمی ہے کہ گزرے ہوئے زمانوں کی داستانوں میں جادوگروں کا احوال پڑھ کر انگشت بہ دنداں رہیے! آج کی دنیا میں وزیر خزانہ، سرکاری افسران، سیاسی کارکنان، میڈیا پرسنز اور میڈیکل پروفیشنلز کی شکل میں ایسے ایسے جادوگر پڑے ہیں کہ دیکھنے والے تھک جاتے ہیں، اُن کے کمالات ختم نہیں ہوتے۔ 
وزیر خزانہ، سرکاری افسران، سیاسی کارکنان اور میڈیا پرسنز کا ذکر تو بس یوں ہی کر بیٹھے، ہمیں تو طب کی دنیا کے لوگوں پر بات کرنی ہے اور بالخصوص دیسی طریق علاج حوالے سے۔ ایلو پیتھی والے بھی کمالات دکھانے میں کسی سے کم نہیں مگر جو بات (دانائی والی نہیں، ادویہ والی) حکمت میں ہے وہ کسی اور شعبے میں نہیں۔ ہمارے ہاں ہومیو پیتھی کا کلینک چلانے والے فلسفی بھی ہوتے ہیں کیونکہ کلینک میں آنے والوں سے بیماری پر کم اور دنیا بھر کے موضوعات پر زیادہ گفتگو ہوتی ہے! بہت حد تک یہی حال حکیموں کا بھی ہے۔ وہ بھی جب بولنے پر آتے ہیں تو مریض اور مرض دونوں کو خاموشی اختیار کرنی پڑتی ہے! 
اخبارات و جرائد ایک زمانے سے قارئین کے سوالات اور مشوروں پر مشتمل حکیمانہ جواب شائع کرتے آئے ہیں۔ جب ہم نے صحافت کے میدان میں قدم رکھا تھا تب بھی بذلہ سنجی ہم سے کالم نگاری کی متقاضی تھی مگر ہمارے لیے فیصلہ کرنا مشکل ہوگیا تھا کہ فکاہیہ انداز سے کچھ لکھیں یا نہ لکھیں کیونکہ حکیموں کے عمومی مشورے اور اُن کے سجھائے ہوئے نسخے اس ضرورت کو بہت حد تک پورا کر رہے تھے! 
گزشتہ دنوں ایک مسئلہ اور پھر اس کا حکیمانہ حل پڑھا تو ہمارے چودہ طبق روشن ہوگئے۔ ایک خاتون نے لکھا کہ اُن کی آنکھیں چھوٹی اور بھنویں باریک ہیں۔ کوئی آسان سا نسخہ بتایا جائے کہ آنکھیں موٹی اور بھنویں گھنی دکھائی دیں۔ یہاں سے کہانی شروع ہوتی ہے۔ جواب کی ابتدا میں حکیم صاحب نے خاتون کو چند سطروں کا لیکچر دیا کہ قدرت کی بنائی ہوئی ہر چیز میں توازن ہے یعنی آنکھیں چھوٹی ہیں تو اس میں بھی اللہ کی حکمت پوشیدہ ہے۔ آنکھیں بڑی تو نہیں کی جاسکتیں ہاں انہیں زیادہ پرکشش بنانے کے لیے ہم بہت سے نسخے اور ٹوٹکے آزماتے ہیں۔ پھر حکیم صاحب نے نسخہ یوں بیان کیا کہ ناگ کی جِھلّی کاجل میں حل کرکے یا چیتے کے ناخن پیس کر کاجل میں ملاکر لگانے سے آنکھیں بڑی اور پرکشش دکھائی دیتی ہیں! 
یہ نسخہ پڑھ کر متعلقہ محترمہ کا کیا ہوا ہوگا یہ ہمیں معلوم نہیں، چند لمحات کے لیے ہم تو چکراکر رہ گئے۔ سَر (ظاہر ہے ہمارا) گھومنے لگا۔ حواس بحال ہوئے تو ہم یہ سمجھے کہ شاید حکیم صاحب نہلے پہ دہلا مار بیٹھے ہیں یا سوال کا برا مان کر اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی کوشش کی ہے! یہ خیال بھی ذہن کے پردے پر ابھرا کہ شاید حکیم صاحب نے یہ نسخہ از راہِ تفنّن بیان فرمایا ہے۔ مگر پھر خیال آیا کہ وہ خالص کاروباری معاملات میں تمسخر اور تفنّن کی آمیزش سے اپنی ''پریکٹس‘‘ خراب کرنا کیوں چاہیں گے! 
خاتون نے آسان نسخے کی فرمائش کی تھی۔ اگر حکیم صاحب کا بیان کردہ نسخہ (خود انہی کی دانست میں) آسان ہے تو سوچیے کہ مشکل نسخہ کیا ہوگا! ہم آپ صرف اندازہ لگاسکتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ مشکل نسخہ ببر شیر کے نچلے ہونٹ کی پپڑی کاجل میں ملاکر لگانے سے متعلق ہو! 
ماننا پڑے گا کہ حکیم صاحب نے آنکھیں بڑی کر دکھانے کا نسخہ بیان کرکے ایک انوکھی دنیا کی سیر کرائی ہے۔ 
ملک کے کسی اور حصے کا تو پتا نہیں، ہاں کراچی میں اگر لڑکیوں نے آنکھیں بڑی کر دکھانے کے اِس نسخے پر عمل کیا تو لڑکوں کو ناخن کاٹنے کی ضرورت نہیں پڑے گی، چھوٹی آنکھوں والی لڑکیاں یہ کام بخوشی کر گزریں گی! کراچی میں ہر باصلاحیت، مستعد، پھرتیلے اور شاطر قسم کے لڑکے کو ''چیتا‘‘ کہا جاتا ہے! ناگ کی جِھلّی لانے کے لیے لڑکیوں کو ویرانوں کی خاک چھاننا پڑے گی کیونکہ انسانوں کے زہر سے خوفزدہ ہوکر ناگ اب آبادیاں چھوڑ چکے ہیں! خیر، لڑکیوں کو ناگ کی جِھلّی پانے کے لیے ویرانوں کا رخ کرنے کی ضرورت نہیں۔ ہینڈ فری لگاکر گٹکا چباتے ہوئے ''چیتے‘‘ حاضر ہیں۔ اور جب وہ جِھلّی لے کر واپس آئیں تو اُن کے ناخن تراش لیے جائیں ... نسخہ مکمل ہوا! 
جب ہم نے مرزا تنقید بیگ کے سامنے یہ نسخہ بیان کیا تو ان کی رگِ ظرافت پِتّی کی طرح اچھلنے لگی۔ اس نسخے سے چند لمحات تک من ہی من میں محظوظ ہونے کے بعد مرزا گویا ہوئے : ''حکیم صاحب نے آنکھوں کو بڑا کر دکھانے کا نسخہ بیان کرکے ایک دفترِ بامعنی کھول دیا ہے، ایک نئے 'دبستانِ شفاء‘ کا راستہ دکھایا ہے! بس یہ سمجھ لو، کہ انہوں نے ایک تیر سے خدا جانے کتنے نشانے لگانے کی ایسی کوشش کی ہے جو بہت حد تک کامیاب رہی ہے۔‘‘ 
ہم نے حیران ہوکر پوچھا کہ اس نسخے میں ایسی کیا بات ہے کہ کئی نشانے لگ گئے ہیں۔ مرزا نے حسبِ عادت ہماری ''سادگی‘‘ پر زیرِ لب کچھ کہتے ہوئے وضاحت فرمائی : ''بھائی! بات یہ ہے کہ جو لڑکی آنکھوں کے قدرتی سائز سے خوش نہیں وہ ناگ اور چیتے کا سوچ کر اپنے دل کو سمجھا لے گی اور چُپ بیٹھ جائے گی یعنی اس کے مزاج میں قناعت کا گراف بلند ہوجائے گا! بہت سی لڑکیاں اس نسخے کو بروئے کار لاکر ان لڑکوں سے نجات پاسکیں گی جو ہر وقت ان کے گرد منڈلاکر اوٹ پٹانگ باتوں سے ناک میں دم کرتے رہتے ہیں! یعنی جہاں کوئی لڑکا ذرا لٹّو ہو، لڑکی فوراً کہہ دے کہ اگر اس کی نظروں میں بڑا ہونا ہے تو اس کی آنکھیں بڑی کرنے میں مدد دے اور پھر ناگ کی جِھلّی اور چیتے کے ناخن لانے کی فرمائش کرے۔ بس، لڑکے کے دماغ سے محبت کی جِھلّی فوراً اتر جائے گی اور چیتے کا خیال آتے ہی دل لگی کے ناخن جھٹ سے جھڑ جائیں گے! اور اگر کوئی عاشقِ نامراد سخت جان ہوا تو یا تو وہ ناگ کے ڈسے سے ''جنّت رسید‘‘ ہوگا یا پھر چیتے کے ناخن تراشنے کی کوشش میں اپنے منہ پر اس کا بھرپور پنجہ کھاکر دل و دماغ سے عشق کا چولا اتار بیٹھے گا! دیکھا تم نے؟ حکیم صاحب نے ایک نسخے میں کتنے ہی بگڑے ہوئے دماغ درست کرنے کا انتہائی آسان طریقہ تجویز کردیا ہے! اب اگر کوئی فِدا ہونے کا سوچے گا تو ناگ اور چیتے کا خیال آتے ہی اپنی سوچ پر دو حرف بھیج کر کسی کام دھندے سے جڑے گا!‘‘ 
مرزا کی وضاحت سن کر ہمارے دماغ کا بیڑا گہری سوچوں میں غرق ہوگیا۔ خیال آیا کہ آنکھیں چھوٹی ہونے پر اِتنے گل کھلاتی ہیں تو بڑی ہونے پر کیا ستم نہ ڈھائیں گی! 
ہمیں سوچوں میں غرقاب دیکھ کر مرزا نے ٹوکا : ''ہم جان گئے تم کس اندیشے کا شکار ہو۔‘‘ 
ہم نے چونک کر ایک بار پھر وضاحت چاہی تو مرزا نے اپنی ہنسی میں ناگ کا زہر شامل کرتے ہوئے چیتے کی طرح پنجہ مارتی ہوئی نکتہ سنجی فرمائی : ''ایک زمانے سے عینک لگاتے رہنے سے تمہاری آنکھیں بھی خاصی چھوٹی ہوگئی ہیں۔ مگر خیر تم ناگ کی جِھلّی یا چیتے کے ناخنوں کے محتاج نہیں۔ تم اگر چاہو تو آنکھیں بڑی کرنے کے لیے آسان (یعنی واقعی آسان) نسخہ آزما سکتے ہو۔‘‘ 
ہم نے متجسّس ہوکر نسخہ جاننا چاہا تو مرزا نے کہا : ''تم گھریلو زندگی کے بارے میں جو کچھ لکھتے ہو اس میں خاصا زہر پایا جاتا ہے۔ اور کبھی کبھی کرنٹ افیئرز پر قلم کے ذریعے پنجہ مارنے کی کوشش کرتے ہو۔ ایسے دو چار کالم کسی کاغذ پر اتارو اور اس کاغذ کو جلاکر راکھ سُرمے میں ملاکر لگاؤ تو آنکھیں بڑی دکھائی دیں گی! اور ساتھ ہی تمہیں یہ بھی اندازہ ہوجائے گا کہ تمہارا لکھا پڑھ کر لوگ کیسی اذیت سے دوچار ہوتے ہیں!‘‘ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved