تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     20-11-2015

اوباما کا نیا مشن

بہت دنوں کے بعد پاکستان کے سابق وزیر خزانہ اور عالمی بینک کے وائس پریذیڈنٹ‘ شاہد جاوید برکی کا ایک تجزیہ دیکھنے کو ملا ہے۔ بہت دلچسپ اور معلومات افزا لگا۔ سوچا کہ قارئین کو بھی لذت مطالعہ میں شریک کر لوں۔ 
''اس معاملے کا آغاز پچھلے ماہ ہوا جب امریکی میڈیا نے اطلاع دی کہ ایک سمجھوتہ تکمیل پانے والا ہے۔ سب سے پہلے ''واشنگٹن پوسٹ‘‘ کے ڈیوڈ اگنیٹیئس نے سینئر امریکی عہدیداروں سے گفتگو کی بنیاد پر یہ رپورٹ دی کہ کئی ایسے اقدامات پر سمجھوتہ ہو چکا ہے جو کیے جانے کے بعد پاکستان جوہری ہتھیاروں پر انحصار کم کر دے گا۔ چند روز بعد ''نیو یارک ٹائمز‘‘ کے ڈیوڈ سانگر نے اس کی رپورٹ تصدیق کی۔ دونوں رپورٹس نے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا کہ سمجھوتے کا اعلان ایک مشترکہ بیان میں کیا جائے گا‘ اور یہ اعلان 23 اکتوبر کو واشنگٹن میں امریکی صدر بارک اوباما اور پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کی ملاقات کے بعد ہو گا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ میڈیا رپورٹس معاملے کی شروعات ہیں اور پورے عمل کی تکمیل ابھی باقی ہے۔ سینئر پاکستانی حکام‘ جن میں مشیر خارجہ سرتاج عزیز بھی شامل ہیں‘ کے مطابق جب ایسی رپورٹس شائع ہوئیں اس وقت کسی سمجھوتے پر کام نہیں ہو رہا تھا بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امریکی حکومت پاکستانی حکومت پر دبائو بڑھانے کے لیے میڈیا کو استعمال کر رہی تھی‘ تاکہ وہ اس امریکی موقف کا بلا تاخیر جواب دے‘ جس کے مطابق امریکہ اس بات کا آرزومند ہے کہ پاکستان کم فاصلے پر مار کرنے والے میزائلوں کی تیاری اور دوسرے ضروری ہتھیاروں کی تیاری ہی بند کر دے۔ ان رپورٹس نے پاکستان کے سیاسی رہنمائوں کو ایک عجیب مخمصے میں ڈال دیا۔ وہ اپنے ملک کی فوجی اسٹیبلشمنٹ کو جوہری ہتھیاروں کی تیاری اور ترقی روکنے کے لیے امکانی طور پر قائل نہ کر سکے۔ اس میں کسی شک و شبے کی گنجائش نہیں کہ اس امریکی کاوش نے پاکستان کے ساتھ سلامتی کے معاملات پر خلیج کو گہرا کر دیا ہے۔ یہ ایک ایسی صورت حال ہے جو کسی کے مفاد میں نہیں۔ پاکستانی رہنما اپنے ملک کے بھارت سے بگڑتے ہوئے تعلقات پر توجہ مرکوز کرنے کے لیے پُرعزم تھے۔ یہ ایک ایسا چیلنج ہے جس سے نمٹنے کے لیے امریکہ مدد کر سکتا تھا‘ اس لیے جب انہوں نے امریکی بیان کا وہ ڈرافٹ حاصل کیا جو اوباما نواز ملاقات کے بعد جاری ہونا تھا اور جب انہوں نے یہ بھی دیکھا کہ اس بیان کی ساری توجہ جوہری معاملات پر ہے تو یہ فیصلہ کیا گیا کہ سرتاج عزیز اس ڈرافٹ میں کچھ ترامیم پر اتفاق کے لیے ایک دن پہلے واشنگٹن سدھاریں گے۔ پاکستان کے تناظر میں یہ ڈرافٹ وائٹ ہائوس کے ایماء پر جاری ہونا تھا۔ ''ایسا لگتا تھا کہ مشیر قومی سلامتی کا دفتر اوباما کو ایک اور ''جوہری‘‘ اعزاز سے نوازنا چاہتا تھا۔ اس سے پہلے ایران سے ان کے کامیاب مذاکرات ہو چکے تھے‘‘۔ یہ مجھے سرتاج عزیز نے نجی گفتگو میں بتایا۔ سرتاج عزیز نے درخواست کی کہ اگر متعلقہ عہدیدار کے ساتھ ڈرافٹ کے مسودے پر ان کا اتفاق نہ ہو سکا‘ تو انہیں سیکرٹری آف سٹیٹ جان کیری سے ملنے دیا جائے۔ یہ بات یقینی ہے کہ امریکی حکومت کا ایجنڈا پاکستان کے لیے کسی حد تک فائدہ مند ہو گا۔ امریکہ نیوکلیئر سپلائی گروپ پر دبائو ڈالے گا کہ وہ پاکستان سے کسی قسم کا مطالبہ نہ کرے‘ جیسا کہ بھارت کے معاملے میں کیا جا چکا ہے۔ اس طرح ہو گا یہ کہ پاکستان نیوکلیئر پاور پلانٹس کی تعمیر کے لیے ٹیکنالوجی اور دوسرا ساز و سامان درآمد کر سکے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کو تقریباً 6 ایسے پلانٹس تعمیر کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ پلانٹس ان دو کے علاوہ ہیں‘ جو کراچی کے نزدیک چین تعمیر کر رہا ہے۔ یہ پلانٹس توانائی کی کمی پوری کرنے کے لیے تعمیر کرنا پڑیں گے۔ توانائی کی یہ کمی ہر سال 5000 میگاواٹ بڑھ جاتی ہے۔ پاکستانی رہنمائوں کے لیے سیاسی طور پر یہ بہت فائدہ مند ہو گا کہ ان کا ملک 2018ء کے انتخابات سے پہلے توانائی کے بحران سے نکل آئے۔
تاہم اس کے بدلے میں پاکستان کو اپنے جوہری ہتھیاروں میں کمی لانا ہو گی اور ان کی تیاری پر کام روکنا ہو گا۔ علاوہ ازیں پاکستان کو کم فاصلے تک مار کرنے والے میزائل ''نصر‘‘ کی تیاری بھی روکنا ہو گی۔ امریکہ کو یقین تھا کہ پاکستانی رہنمائوں کی توجہ جوہری ہتھیاروں سے پاور پلانٹس کی تعمیر کی طرف مبذول کرانے سے یہ ہو گا کہ ایٹمی ٹیکنالوجی کے لیے چین پر پاکستان کا انحصار محدود ہو جائے گا‘ اور اس سے جنوبی ایشیا میں انتہائی تباہ کن جنگ کا امکان بھی کم ہو جائے گا‘ لیکن یہ سب کچھ پاکستان کی سلامتی کے معاملات کا محاکمہ کرنے میں ناکام ہو گیا‘ خاص طور پر اس سے بھارتی عزائم کے بارے میں پاکستانی فوج کے خدشات کی تجدید ہو گئی۔
کچھ عرصے سے پاکستان کے سینئر فوجی افسران کی توجہ ملک سے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے پر مرکوز ہے‘ اور انہوں نے اس سلسلے میں کچھ متاثر کن کامیابیاں بھی حاصل کی ہیں‘ لیکن پاکستانی سرحد کے پاس ہونے والی حالیہ بھارتی سرگرمیوں نے اسلام آباد میں خطرات بڑھا دیے ہیں۔ ایک سینئر پاکستانی فوجی افسر کے مطابق بھارت اپنے ''کولڈ سٹارٹ‘‘ فوجی ڈاکٹرائن کو عملی صورت دینے کے لیے 8 اڈے تعمیر کر رہا ہے‘ جہاں فوج کی بھاری نفری تعینات کی جائے گی۔ یہ نظریہ (ڈاکٹرائن) 2001ء میں بھارتی پارلیمان پر حملے کے بعد وجود میں آیا۔ اس کے مطابق اگر ایسا کوئی اور حملہ ہوتا ہے تو بھارتی فوجوں کو پاکستان کے 300 سے500 مربع کلومیٹر کے علاقے پر قبضہ کر لینا چاہئے اور یہ قبضہ صرف اس وقت ختم ہو گا‘ جب پاکستان رسمی طور پر کشمیر پر اپنے دعویٰ سے دستبردار ہو جائے گا۔ اس کے علاوہ پاکستان کو اپنی سرحدوں کے قریب قائم دہشت گردی کے کیمپوں کو بھی تباہ کرنا ہو گا۔ پاکستانی فوجی افسر کے مطابق جوہری ہتھیار ہی بھارت کے ان عزائم کو ناکامی سے دوچار کر سکتے ہیں۔
ان سب حقائق کے تناظر میں امریکہ کو بہرحال یہ علم ہونا چاہئے کہ پاکستان کو جوہری ہتھیاروں میں کمی پر مجبور کرنے کی کوشش کامیابی سے ہمکنار نہ ہو گی‘ لیکن یہ کوشش جاری رہی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان کا چین پر انحصار کم ہونے کی بجائے اور زیادہ بڑھ گیا۔ جنوبی ایشیا میں ایٹمی جنگ کے خطرات کم کرنے کی بجائے وائٹ ہائوس کے منصوبے نے ان کاوشوں سے توجہ ہٹا دی‘ جن سے پاک بھارت کشیدگی کم ہو سکتی تھی۔ حتمی طور پر یہ ہوا کہ اوباما نواز مشترکہ بیان نے پاک بھارت بہتر تعلقات پر زور دیا اور جوہری معاملات کا کوئی حوالہ نہیں دیا گیا۔ اوباما نے کشمیر کو ایک ''حل طلب‘‘ مسئلہ قرار دیا‘ اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے جنوبی ایشیا کے معاملات کو مزید بہتر بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔ سرتاج عزیز کے مطابق پاکستان نے حتمی طور پر طمانیت کا اظہار کیا ہے۔ ہو سکتا ہے امریکہ نے ایسا محسوس نہ کیا ہو۔‘‘

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved