تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     20-11-2015

کاش، اے کاش!

گوادر سے گڈانی اور کوئٹہ سے سبی تک، ہر کہیں امکانات کے چراغ جل رہے ہیں اور ہر کہیں دلوں میں ملال جاگتا رہتا ہے کہ کاش حکمرانوں کو احساس اور درد عطا ہو۔ کاش، اے کاش!
بلوچستان میں فرنٹیئر کانسٹیبلری کی سب سے بڑی کامیابی تو یہی ہے کہ دہشت گردی مسلسل کم ہو رہی ہے اور دشمن کے حوصلے ٹوٹ رہے ہیں۔ دو سال پہلے تک سکولوں پر علیحدگی پسندوں کے پرچم لہرایا کرتے، اب وہاں قومی جھنڈا ہمہ وقت بلند رہتا ہے۔ ظفر مندی کے اور بھی پہلو ہیں، جو وردی پوشوں نے ایک ایک کر کے رقم کیے ہیں۔ اب مگر بددلی کا آغاز ہے۔ صوبائی اور مرکزی حکومتیں اپنا کردار ادا نہیں کر رہیں۔ وزیرِ اعلیٰ ارکانِ اسمبلی اور سیاسی پارٹیوں کے یرغمال ہیں اور وفاقی حکومت عسکری قیادت کو فرض سونپ کر بری الذمہ ہو چکی۔ 
ایف سی کے سربراہ جنرل شیر افگن سے پوچھا کہ دہشت گردی کے خلاف ان کے ادارے کی خدمات کیا ہیں؟ اطمینان بخش ہی نہیں، ان کا جواب ولولہ انگیز بھی تھا۔ سول اداروں کے بارے میں استفسار کیا گیا‘ تو ان کا جواب یہ تھا: میں اس سلسلے میں کچھ نہ کہوں گا۔ آخر کیوں؟ کیا یہ محض احتیاط ہے یا مایوسی بھی؟ 
2012ء میں افغان اور بھارتی امداد سے سرگرم اور صوبے کے بعض اضلاع سے کروڑوں روپے بھتہ وصول کرنے والے دہشت گردوں نے 638 شہری اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے 86 جوان شہید کر ڈالے تھے۔ ان کا اپنا جانی نقصان فقط 78 تھا۔ ایف سی اپنی استعدادِ کار بڑھاتی رہی۔ تین برس میں اطمینان بخش پیش رفت ہوئی۔ 2015ء میں 249 عام شہری شہید ہوئے، 38 جوان کام آئے اور 249 تخریب کار ہلاک۔
ایف سی کی ذمہ داری کیا ہے؟ جنرل سے میں نے سوال کیا۔ کہا: ایران، افغان سرحد کی دیکھ بھال، دہشت گردوں کا مقابلہ، کوئٹہ شہر کی حفاظت، فرقہ پرستوں کے ہاتھوں ہزارہ برادری کا تحفظ، صوبے میں پھیلی 300 کلومیٹر ریلوے لائن کی دیکھ بھال، سڑکوں، پلوں، کچھی کینال اور پٹ فیڈر کی نگرانی۔ اس کے علاوہ انسدادِ سمگلنگ۔
گزشتہ سال ایران سے سمگل کیا جانے والا 69 لاکھ لٹر تیل پکڑا اور کسٹم حکام کے حوالے کیا گیا۔ افغانستان سمگل کرنے کی کوشش میں کھاد کی 76 لاکھ بوریاں، 595 ملین کی منشیات، 170 گاڑیاں۔ طویل قامت آدمی مسکرایا اور کہا: سمگلنگ کے خلاف ان اقدامات سے کسٹم کی آمدن میں تین سو گنا اضافہ ہو چکا۔ صرف ایرانی ڈیزل سے انہوں نے 56 کروڑ روپے حاصل کیے۔ اخبار نویس کو وہ دن یاد آئے، جب بلوچستان میں صرف تخریب کاری کو ریاست کا دردِ سر تسلیم کیا جاتا تھا۔ سمگلنگ کوئی مسئلہ تھا ہی نہیں۔ سمگلر، سردار، ارکانِ اسمبلی، سرکاری افسر اور لیویز کے اہلکار تو ملوث تھے ہی، ایف سی کے بعض افسر بھی؛ حتیٰ کہ فوجی افسر بھی منہ پھیر لیتے کہ یہ ایک طرزِ زندگی تھا۔ بعض نے بہتی گنگا میں ہاتھ بھی دھوئے۔ افغان، پاکستان سرحد پر 453 کلومیٹر خندق کھود ڈالی گئی ہے، جو دس فٹ چوڑی اور آٹھ فٹ گہری ہے۔ باقی صحرا ہے یا پہاڑ۔ 
ایف سی اس کے سوا بھی بہت کچھ کرتی ہے۔ بتدریج صوبے کی عسکری قیادت نے ایک فارمولا تشکیل دیا۔ شہریوں کی حفاظت، خوف سے نجات، فراریوں کے خلاف مسلسل کارروائیاں کہ وہ دم نہ لے سکیں، شہریوں کا احترام، ان کے دل و دماغ جیتنے کی پیہم سعی۔ ہجوم کے سامنے مجرم کو مارا پیٹا نہ جائے گا۔ تفتیش تنہائی میں ہو گی۔ سب سے حساس مسئلہ خواتین کی تلاشی تھا۔ خواتین اہلکار بھرتی کی گئیں اور اہتمام سے انہیں تربیت دی گئی۔ شہریوں سے گھلنے ملنے اور مغائرت کا احساس ختم کرنے کے لیے سال بھر جاری رہنے والی تقریبات۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ سلسلہ اس قدر پھیل گیا کہ بلوچستان کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
سب سے بڑے کارنامے کا کبھی ذکر ہی نہیں ہوتا۔ 29 سکول اور آٹھ عدد کالج ایف سی نے قائم کیے ہیں۔ ان میں خواتین کا ایک کالج بھی ہے۔ آٹھ عدد ہوسٹل تعمیر ہوئے، پانچ مزید بنیں گے، 14601 طالبِ علم۔ جنوب کے زیادہ متاثرہ اضلاع پنجگور، تربت اور اواران سے 50 بچے، نواحِ کوئٹہ کے ایک ہاسٹل میں ہیں۔ وہ کیڈٹ کالج کی سی تعلیم پا رہے ہیں۔
فخر اور مسرّت کے ساتھ فوجی افسر بتاتے ہیں کہ صوبائی اور مرکزی حکومتوں کو ایک ذرا سی زحمت بھی نہیں دی گئی۔ ان منصوبوں کا پورے کا پورا بوجھ ایف سی نے اٹھایا ہے۔ اپنے اخراجات میں کفایت شعاری سے۔ ایف سی کے ہر یونٹ میں ایک طبی مرکز قائم ہے، کل 58 عدد۔ میڈیکل کیمپ اس کے علاو ہ ہیں، امسال جن میں 3000 مریضوں کا علاج کیا گیا۔ صوبائی حکومت کو چند ماہ قبل پیشکش کی گئی کہ اگر اسے ڈاکٹروں اور دوسرے طبّی عملے کی رہائش کا مسئلہ درپیش ہو تو ایف سی مدد کرے گی۔ 
''ایک زمانہ وہ تھا‘‘ وزیرِ اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک نے مجھے بتایا ''جب ہم لوگ کوئٹہ چھائونی جانے سے گریز کیا کرتے‘‘ ابھی ابھی وہ مچھ کے قریب پیش آنے والے حادثے کے مقام سے آئے تھے۔ زخمیوں کی دیکھ بھال سے وہ مطمئن تھے۔ اجنبیت کا دور ختم ہو چکا۔ فوجی قیادت، ایف سی، پولیس، افسر شاہی، سیاسی لیڈر اور مقامی زعما کے درمیان میل جول اب ایک معمول ہے۔
14 اگست ملک بھر میں منایا جاتا ہے مگر بلوچستان میں اس کی شان و شوکت ہی نرالی ہے۔ عید کے تہوار کی طرح صبح سے رات گئے تک محفلیں برپا ہوتی ہیں۔ کھیلوں کے مقابلے، موسیقی کی مجالس۔ کوئٹہ میں آدھی آبادی سڑکوں پر ہوتی ہے۔ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ 6 ستمبر کو یومِ شہدا کی تقاریب بھی اسی اہتمام سے ہوئیں۔ 9 نومبر کو یومِ اقبال اس شان سے ہوا کہ دوسرے صوبوں سے موازنہ ہی نہیں۔ صرف سکولوں اور کالجوں کے اساتذہ اور بچّے ہی نہیں، پوری کی پوری آبادی ان میں شریک ہو جاتی ہے، خواتین خاص طور پر۔ ''ایک ماں بدل جائے تو پورا ماحول بدل جاتا ہے‘‘ جنرل نے کہا۔ پھر تربت سے سبّی اور گوادر سے کوئٹہ تک تقریبات کی تفصیل بتانے لگے۔ عام شہریوں کے علاوہ کالجوں اور یونیورسٹیوں کی لڑکیاں فائرنگ کے مقابلوں میں شریک ہوتی ہیں۔ خواتین کے مینا بازار۔ گوادر میں یومِ آزادی پر امسال کشتیوں کا جلوس نکالا گیا۔ نیلے پانیوں میں روشنیاں جگمگاتی، تیرتی، ڈوبتی، ابھرتی رہیں۔ لورالائی میں ایک سکول کے طلبہ نے بلوچستان بورڈ کی پہلی 20 پوزیشنوں میں سے آدھی جیت لی تھیں۔ انہیں شہر مدعو کیا گیا۔ اس طرح خضدار کے 23 طلبہ نے تین دن کوئٹہ میں گزارے۔ انہیں زیارت بھی لے جایا گیا، جہاں دنیا کا دوسرا قدیم ترین جنگل ہے اور جہاں قائدِ اعظمؒ نے آخری ایام گزار ے تھے۔ یومِ شہدا پر 166 شہید خاندانوں کے لواحقین یکجا ہوئے۔ صرف کوئٹہ میں نہیں، اس دن کی تقریبات دور دور تک برپا ہوئیں۔ 
دسویں محرم کا دن فوجی اور سول حکومت کے امتحان کا دن تھا۔ ڈاکٹر عبدالمالک اور جنرل عامر ریاض نے بیشتر وقت آپریشن روم میں گزارا۔ شام ڈھلی تو سکھ کا سانس لیا۔ امن کا دور شروع ہو چکا؛ اگرچہ دہشت گردی کے اکّا دکّا واقعات رونما ہوتے رہیں گے؛ الّا یہ کہ مرکزی اور صوبائی حکومتیں، پولیس اور سول انٹلی جنس اداروں کے علاوہ عام شہری بھی نگران ہو جائیں۔ 
بلوچستان میں تخریب کاری کے خلاف جنگ بظاہر مکمل فتح کی طرف بڑھ رہی ہے۔ ایک سوال البتہ پریشان کرتا ہے۔ نظامِ عدل کے بغیر، تعلیم، صحت اور سڑکوں کے بغیر، بھوکوں کا پیٹ بھرے بغیر دائمی امن کیونکر قائم ہو سکتا ہے۔ کبھی ایسا ہوا نہیں۔ ایک اعلیٰ سرکاری افسر نے یہ کہا: ڈیرہ بگٹی اور سوئی کے لیے جو سرمایہ میسر تھا اور اب بھی ہے، وہ ان قصبوں کو پاکستان کے پیرس بنا دیتا مگر افسوس!
گوادر سے گڈانی اور کوئٹہ سے سبّی تک ہر کہیں امکانات کے چراغ جل رہے ہیں اور ہر کہیں دلوں میں ملال جاگتا رہتا ہے کہ کاش حکمرانوں کو احساس اور درد عطا ہو۔ کاش، اے کاش!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved