تحریر : ڈاکٹر اکرام الحق تاریخ اشاعت     20-11-2015

ہمارا اصل مسئلہ کیا ہے؟

لوگ پوچھتے ہیں کہ پاکستان کا اصل مسئلہ کیا ہے؟ ہر طرف اتنی پریشانی اور بے اطمینانی کیوں چھائی ہوئی ہے؟ فوج کی اعلیٰ کمان سول حکومت کی کارکردگی سے خوش کیوں نہیں؟ کم و بیش ہر روز ہمارے ہردلعزیز ٹی وی اینکرز اور اخبارات میں لکھنے والے مشہور کالم نگار ''جمہوریت کو لاحق خطرات‘‘ اجاگر کرتے رہتے ہیں؛ لیکن اس ایشو پر کوئی بامعنی بحث نہیں ہوتی کہ موجودہ نظام کو بہتر بنانے کے لیے کیا کیا جائے؟ ہر کوئی نظام کی شکایت کرتا ہے لیکن کوئی بھی قانون کی پیروی کرنے کے لیے تیار نہیں! اکثریت کی رائے ہے کہ جس ملک میں پیسے کی حکومت ہو، سرکاری مشینری کسی کے سامنے جوابدہ نہ ہو، انصاف کی فراہمی ناپید ہو‘ وہاں کس بہتر ی کی گنجائش ہو سکتی ہے؟ باالفاظ دیگر، ملک میں جاری ''جنگل کے قانون‘‘ کو جاری رہنا چاہیے کیونکہ اس کے سوا یہاں کوئی چیز نہیں پنپ سکتی۔
وہ اقوام جو جارح حملہ آوروں کے سامنے گھٹنے ٹیک دیں اور بہتری کے لیے جدوجہد کا شعار ترک کر دیں، وہ زندگی کے ہر شعبے میں پیچھے رہتی ہیں؛ چنانچہ ایسی اقوام سے انصاف اور اصلاحات کی توقع کرنا ممکن نہیں۔ ایسی اقوام کی قسمت میں تباہی کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا کیونکہ، بقول شاعر مشرق: 'تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے، ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات‘۔ حقیقی جمہوریت ہر شہری کی فلاح، قانون کی حکمرانی اور سیاسی اور سرکاری افسران کا بے لاگ احتساب یقینی بناتی ہے۔ قانون کی حکمرانی کا فقدان، جس کا پاکستان میں برملا اظہار ہوتا ہے، جمہوریت کی نفی ہے۔ اقربا پروری، آمریت، جبر، تنگ 
نظری، مطلق العنانی، من پسند افراد کو نوازنے اور انسانی حقوق سلب کرنے کی جمہوریت میں کوئی جگہ نہیں ہوتی۔ صرف انتخابات جمہوری نظام اور قانون کی حکمرانی کی ضمانت نہیں دیتے‘ کیونکہ انتخابات کے ذریعے اقتدار سنبھالنے والے افراد بھی مطلق العنانی پر اتر آتے ہیں۔ عدلیہ اور نظام انصاف کے ذریعے ہی طاقت کے غلط استعمال کو روکا اور ایسی حکومت کا قیام ممکن بنایا جا سکتا ہے‘ جو عوام کی فلاح کو مقدم گردانے۔ یہی جمہوریت کی روح ہے۔ 
پاکستان میں اس بات پر کم و بیش اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ ہمارے ہاں انصاف کی فراہم کا نظام افسوسناک حد تک خراب ہے۔ پولیس اور محصولات جمع کرنے والے محکمے ہی کیسز کو عدالت میں لے کر جاتے ہیں‘{ لیکن ان کی اصلاح کرنا کسی وفاقی یا صوبائی حکومت کا ایجنڈا دکھائی نہیں دیتا۔ ان محکموں کے افسران کو سیاسی پشت پناہی حاصل رہتی ہے۔ چونکہ اُنھوں نے پُرکشش ملازمتیں پیسے دے کر یا سیاسی طاقت سے حاصل کی ہوتی ہیں، اس لیے وہ اپنے فرائض سرانجام دینے کی بجائے اپنے سیاسی آقائوں کی خدمات بجا لانا اپنا فرض سمجھتے ہیں، یا پھر وہ رشوت لے کر کام کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ عدالتوں میں بھی اعتراف کیا جاتا ہے کہ فلاں افسر یا افسران اپنے اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھاتے رہے ہیں‘ لیکن اُس محکمے کے سربراہ کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی جاتی۔ احتساب کی عدم موجودگی میں سرکاری افسران کی خود سری اور بدعنوانی جاری رہتی ہے۔ 
قانون کی حکمرانی کے بغیر موجودہ نظام کی فعالیت عوام مخالف ہے۔ حکمران اشرافیہ ٹیکس گزاروں کی رقم پر پلتی ہے اور پولیس، ٹیکس مشینری اور ماتحت عدلیہ استعمال کرتے ہوئے عوام کو کنٹرول میں رکھتی ہے۔ حقیقی جمہوریت میں عوام کو سیاسی اور معاشی طور پر طاقتور بنایا جاتا ہے لیکن ہماری حکمران اشرافیہ اسے اپنے لیے موت سمجھتی ہے۔ ہمارے حکمران عوام کے ووٹوں سے اقتدار میں آنے کے بعد عوام کو دبانا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ وہ یہ کہتے ہوئے عوامی حقوق کا گلا گھونٹ دیتے ہیں کہ ''نظام‘‘ کو تقدیم حاصل ہے، اسے جاری رہنا چاہیے، چاہے عوام کی زندگی اجیرن ہو جائے۔ کوئی سیاسی جماعت بھی اس آہنی ڈھانچے کو توڑنے اور عوام کو بااختیار بنانے کے لیے تیار نہیں۔ اس کے برعکس سیاست دان صرف سول اور ملٹری بیوروکریسی اور متمول کاروباری طبقے کے مفاد کو پیش نظر رکھتے ہیں۔
اس وقت پاکستان کے سامنے حقیقی چیلنج اس شیطانی اشتراک کو توڑنا ہے۔ چونکہ یہ نظام اشرافیہ کے مفاد کو یقینی بناتا ہے اس لیے وہ اسے توڑنے اور عوام کو تقویت دینے کی ہر کوشش کی مزاحمت کریں گے۔ امیر اور طاقت ور افراد پیسے سے اختیارات اور حقوق خرید لیتے ہیں، اس لیے عوام کی بات کوئی نہیں کرتا۔ قانون کی حکمرانی کے لیے تین اصولوں کو مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ پہلا اصول یہ ہے کہ سرکاری افسران ہوں یا عام شہری، سب نے ریاست کے قانون کی پاسداری کرنی ہوتی ہے۔ دوسرے اصول کے لیے مثبت قوانین وضع کرنے اور اُنہیں ایک نظام کی صورت ڈھالنے کی سعی درکار ہے۔ تیسرا اصول ریاست اور شہریوں کے درمیان تعلق سے متعلق ہے۔ چونکہ عدلیہ کو عوام کے حقوق کا نگہبان کہا جاتا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ وہ آگے آئے اور قانون کی حکمرانی یقینی بنائے۔ اس مقصد کے لیے سب سے پہلے عدلیہ کو اپنی اصلاح کرنی ہو گی تاکہ وہ دوسروں کے ساتھ انصاف کر سکے۔ ارکان عدلیہ کا کردار اور فعالیت بے داغ اور کسی شک و شبے سے بالاتر ہو۔ چونکہ انصاف ہوتا ہوا دکھائی دینا چاہیے، اس لیے ضروری ہے کہ وہ ہر قسم کے اندرونی اور بیرونی دبائو سے آزاد ہوں تاکہ اپنی بنیادی ڈیوٹی کسی خوف اور لالچ کے بغیر سرانجام دے سکیں۔ اُنہیں سیاسی رہنمائوں کی طرح پریس کے لیے بیانات دینے سے بھی احتراز کرنا چاہیے۔ 
پاکستان کو ایک جامع قانون سازی کے مرحلے سے گزرنے کی ضرورت ہے تاکہ ججوں کی تقرری اور فعالیت کو شفاف اور کسی سیاسی دبائو اور پسند سے آزاد بنایا جا سکے۔ صرف آزاد اور خود مختار عدلیہ ہی سیاست دانوں اور سرکاری افسران کی بدعنوانی کا احتساب کر سکتی ہے۔ عدلیہ کے علاوہ پاکستان کو دیگر اداروں کی مکمل اصلاح کی بھی ضرورت ہے۔ اس کے لیے وقتی اور ہنگامی اقدامات، جیسا کہ کسی افسر کو معطل کر دینا، کام نہیں دیں گے۔ کچھ عرصے سے ہمارے ہاں گورننس صرف معطل کردینے تک ہی محدود ہے۔ اس سے کوئی بہتری نہیں آئی ، صرف سرکاری افسران سیاسی دبائو کا شکار ہوگئے ہیں۔ عدلیہ کوکیسز نمٹانے میں ہونے والی غیر ضروری اور تکلیف دہ تاخیر سے اجتناب کرنا چاہیے کیونکہ جو انصاف وقت پر نہ ہو،وہ اپنا اثر کھو دیتا ہے۔ ریاست اورشہریوں کے درمیان معاملات کو رواں رکھنے کے لیے موثر نظام ِ انصاف ناگزیر ہے۔ چنانچہ ایک بااختیار جوڈیشل ریفامز کمیشن کو تشکیل دیا جائے جو نہ صرف ریاست کی کوتاہیوں پر نگاہ رکھے عدالت کی فعالیت پر بھی نگاہ رکھتے ہوئے اسے کیسز کو تیز تر نمٹانے کی تلقین کرے۔ 
ایک ایسی ریاست، جس میں سیاست دان، اعلیٰ سرکاری و فوجی افسران اور جج ریاست کی زمین کو تحفے کے طور پر حاصل کرتے ہیں، وہاں موجود نظام کو چیلنج کرتے ہوئے عوام کے حقوق کی بات کون کرے گا؟ ضروری ہے کہ ذی شعور شہریوں، میڈیا، ترقی پسند سیاست دانوں اور دانشوروں کا الائنس پارلیمنٹ پر دبائو ڈالے کہ وہ آئین کے آرٹیکل 19A میں دیے گئے حقوق کا نفاذ یقینی بنائے۔ صرف اس طریقے سے ہی قانون کی حکرانی کی امید کی جا سکتی ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved