آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے پاکستان کے ایٹمی اثاثوں سے خوفزدہ مغربی اور امریکی حلقوں کو، دریا کو کوزے میں بند کرتے ہوئے پیغام دے دیا ہے کہ '' پاکستان کے جوہری اثاثوں کی حفاظت ایک مقدس فریضہ سمجھتے ہوئے کی جا رہی ہے‘‘۔ ابھی راحیل شریف امریکہ جانے کیلئے پاکستان سے روانہ بھی نہ ہوئے تھے کہ امریکی میڈیا نے حسب معمول گردان شروع کر دی کہ پاکستان بلا مقصد اپنے جوہری اثاثے بڑھاتا جا رہا ہے۔ امریکہ کی اس سوچ پر ہنسی آتی ہے۔ جب وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ ممبئی میں 26/11 کا واقعہ ہوا تو بھارتی ائیر فورس آزاد کشمیر اور مرید کے پر فضائی حملے کرنے ہی لگی تھی، لیکن جب پاکستان کے ایف سولہ طیاروں کو حسبِ معمول فضا میں پہلے سے تیار پایا تو واپسی کی راہ لی۔مگر اس سادگی پر کون نہ مر جائے اے خدا!اس وقت امریکہ کی ریپبلکن پارٹی کے سینیٹر اور صدارتی امیدوار جان مکین سمیت امریکی حکام نے پاکستان کو مشورے دینا شروع کر دیے کہ تھوڑی سی تکلیف برداشت کرتے ہوئے بھارت کو یہ حملے کرنے کی اجا زت دے دیں‘ اس طرح بھارتی عوام کا غصہ ٹھنڈا ہو جائے گا۔ امریکی اور مغربی میڈیا کسی مصلحت یا جذبۂ مسلم کشی کی وجہ سے بھول رہا ہے کہ یہ بھارت تھا‘ نہ کہ پاکستان جس نے اگست 1974ء میں پوکھران میں ایٹمی دھماکوں کے ذریعے پُرامن سائوتھ ایشیا میں ایٹم بم کا کھیل شروع کیا۔
فرانس میں کئے جانے والے داعش کے حالیہ بہیمانہ حملے، جن میں130 سے زائد معصوم شہریوں کی جانیں گئیں‘ ظلم اور بر بریت کی انتہا ہے جس پر دنیا بھر میں غم و غصے کی نہ ختم ہونے والی لہر دوڑ رہی ہے۔ یہی وہ بر بریت ہے جس کا نشانہ پاکستان کو گزشتہ پندرہ
برسوں سے بنایا جا رہا ہے۔ پشاور کے آرمی سکول، کوئٹہ بلوچستان میں ہزارہ قبیلہ، صفورا گوٹھ میں اسماعیلیوں کی بس میں سوار بچوں اورعورتوں کا قتل عام ‘ فوج اور پاکستان کی سکیورٹی فورسز سمیت چھ ہزار سے زائد افسروں اور جوانوں کے علاوہ80 ہزار سے زائد پاکستانیوں کی ہلاکت اسی داعش اور اس کی ہمدرد دہشت گرد تنظیموں کا کام تھا لیکن کسی امریکی یا مغربی ملک نے بھارت اور افغانستان میں ان کے ٹھکانوں اور تربیتی کیمپوں کو ختم کرنے کی رتی بھر کوشش بھی نہ کی۔ جنوبی اور شمالی وزیر ستان میں دہشت گردوں کے خلاف ضرب عضب کا آغاز کرنے سے پہلے پاکستان نے امریکہ سمیت نیٹواور افغان حکومت سے بار بار گزارش کی تھی کہ ہمارے اس آپریشن کی وجہ سے دہشت گرد اپنے ٹھکانوں کی تباہی سے بھاگ کر افغانستان کی جانب آئیں گے ‘اس کیلئے افغان بارڈر پر ابھی سے سخت ترین انتظامات کر لئے جائیں تاکہ ان دہشت گردوں کو کہیں بھی پناہ نہ مل سکے۔ اگر پاکستان کی گزارشات پر عمل کر لیا جاتا تو ان سب کا خاتمہ یقینی تھا لیکن کسی نے پاکستان کی اس فریاد پر توجہ دینے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی اور یہ دہشت گرد پاکستان سے بھاگ کر آسانی سے افغانستان میں پناہ لیتے رہے۔دنیا کی تمام سیٹیلائٹس اور خفیہ اداروں کی پہنچ میں ہونے کے با وجود شام ،عراق اور یمن سے سفر کرتی ہوئی داعش افغانستان پہنچنے میں کس طرح کامیاب ہوئی‘ یہ سوالیہ نشان ان طاقتوں کی چشم پوشی کی جانب انگلیاں اٹھا رہا ہے لیکن نزلہ کسی اور پر ہی گرایا جائے گا۔ چنددنوں بعد آپ دیکھیں گے کہ فرانس کے اس سانحہ کی آڑ میں دنیا بھر کی واحد نیوکلیئر مسلم ریا ست کے ایٹمی اثاثوں کو ایک بار پھر نئے زاویوں اور نئے ہتھیاروں کے زور سے نشانے پر لیا جائے گا۔ بھارتی میڈیا نے تو فرانس کے ان حملوں کو ایک گھنٹے بعد ہی ممبئی کے26/11 سے تشبیہ دینا شروع کر دی تھی لیکن اس کی بات پر کسی نے توجہ نہ دی جس پر چند گھنٹوں کے شور شرابا کے بعد اسے چپ سادھنا پڑی۔۔۔۔لیکن یہ زیادہ دیر چپ رہنے والا نہیںہے ، اپنے پھن اٹھائے کسی نئی سمت اور نئے طریقے سے وار کرے گا۔
اب تک کی بھارتی جارحیت کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے کسی بھی اثاثے کے متعلق کوئی فیصلہ کرتے وقت پاکستان کے ہر ذمہ دار اور بیس کروڑ شہریوں کو نومبر ،دسمبر1971 ء کے وہ دن یاد رکھنے ہوں گے جب بھارت کی بری‘ بحری اور فضائی افواج اس کے مشرقی حصے کو اپنی طاقت اور دھونس سے چھین رہی تھیں لیکن ساری دنیا اوراقوام متحدہ کھلی آنکھوں سے بھارتی افواج کو انٹر نیشنل بارڈر کراس کرتے ہوئے چپ چاپ دیکھتی رہی۔ بھارت کی فوج اور اس کے بارڈر سکیورٹی کے اداروں کے بنگال میں قائم کئے گئے59 تربیتی کیمپ سب کو نظر آتے رہے جہاں مشرقی پاکستان سے بنگالیوں اور بھارت کی آر ایس ایس کے نام سے مسلح باغیوں کو مکتی باہنی کے نام سے گوریلا تربیت دے کر بنگلہ دیش کی تشکیل کیلئے بھیجا جاتا رہا لیکن دنیا بھر سے کوئی ایک بھی پاکستان کی مد د کیلئے آگے نہ بڑھا۔ کسی نے بھی بھارت کا ہاتھ روکنے کی ذرا سی بھی کوشش نہیں کی اور پھر پاکستان کا ایک حصہ امداد باہمی کے ا صول کے تحت سب نے مل جل کر کاٹ کر علیحدہ کر دیا۔ہم بے بس تھے‘ کمزور تھے‘ اپنا آپ لٹتا ہوا دیکھتے رہے۔ ہمیں اپنے ازلی دشمن کے آگے ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر دیا گیااور دنیا سے مانگی تانگی اس فتح پر جو اسے مسلمانوں کے ہی توسط سے حاصل ہوئی بھارت دیوانہ وار ناچتا ہوا اپنا دو ہزار سالہ بدلہ چکانے کے نعرے لگاتا رہاجس کا نریندر مودی نے بڑے فخریہ انداز میں اس سال ڈھاکہ یونیورسٹی میں اپنی تقریر میں ایک بار پھر حوالہ دیا ۔
امریکی اور بھارتی میڈیا سمیت پاکستان کے قومی انگریزی اخبارات میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو نشانہ بنانا ایک فیشن اور عادت کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہمارے مخصوص دانشوروں اور دنیا کو سوائے پاکستان کے نیو کلیئر اثاثوں کے اور کوئی کام اور فکر ہی نہیں۔ ایسی ایسی کہانیاں اور شوشے چھوڑتے ہوئے دنیا کو پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خوف میں مبتلا کیا جارہا ہے کہ خدا کی پناہ۔ مغرب ہٹلر کی پالیسیوں کا تو سخت مخالف ہے لیکن لگتا ہے کہ ہٹلر کے گوئبلز نے دنیا کی واحد مسلم ریاست پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خلاف پروپیگنڈا گود لیا ہوا ہے ۔ ہمارے اپنے ہی ملک میں بہت سے ایسے دانشور اور قلم کار ہیں جنہیں ہمارا ایٹمی قوت ہونا ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ وہ یہی باور کرانے میںلگے رہتے ہیں کہ پاکستان کے'' ٹیکٹیکل جوہری ہتھیار‘‘ کبھی بھی اس کے تحفظ کی ضمانت نہیں بن سکتے، بہتر ہے انہیں ترک کر دیا جائے ۔
یہ لوگ اتنا نہیں سمجھتے کہ پاکستان کی سلامتی کا راز اسی نیوکلیئر طاقت ہی میں پنہاں ہے ورنہ راجیو گاندھی سے لے کر نریندر مودی تک ہر ایک نے پاکستان کو ایک ہی لقمے میں ہڑپ کرنے کیلئے بار بار ارادے باندھے لیکن ہر بار سامنے تنی ہوئی پاکستانی ایٹمی چھتری ان کے ارادوں کو توڑتی رہی اور بہت سے بھارتی حکمران پاکستان کو فتح کرنے کے خواب اپنے دلوں میں ہی لئے ہوئے ایک ایک کر کے اس دنیا سے چلے گئے۔پاکستان کے نیوکلیئر اثاثوں کی بات کرنے والوں نے کبھی بھارت سے پوچھنے کی کوشش نہیں کی کہ وہ پاکستان کے خلاف'' محدود جنگ‘‘ کیلئے 15 IBG-)Independent Battle Group) کیوں تیار کئے بیٹھاہے جس کو ٹریننگ ہی یہ دی جا رہی ہے کہ رحیم یار خان سے ریل اور سڑک کے ذریعے رابطے کو پورے پاکستان سے کاٹ کر کراچی اور سندھ میں اپنا مکروہ کھیل کھیل سکے اور پھر وہاں سے اوبارو کے راستے سوئی اور بگتی پہنچ کر وہاں پہلے سے مو جود اپنے اور بلوچ سرداروں کے مہیا کئے گئے دہشت گردوں سے مل کر گریٹر بلوچستان کا خواب پورا کرے؟ پاکستان کے کسی بھی اثاثے کے بارے میں کسی بھی قسم کا کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے بھارت کے یہ سب منصوبے سامنے رکھنا ہوں گے۔