ایک بھارتی دانشور نے ‘ کتاب میں‘ اپنے ملکی حالات کو سامنے رکھتے ہوئے لکھا ہے کہ ہمارے لوگ دولت سے ‘ سیاست کرتے ہیں اور سیاست سے ‘دولت کماتے ہیں۔ جتنی وہ سیاست کرتے ہیں‘ وہ عوام اور ملک کے لئے بہتری کی راہیں بھی نکالتے رہتے ہیں۔ مثلاً وہ ایسے منصوبے ضرور بنائیں گے‘ جن کا عوام کی فلاح سے تعلق ہو۔ ملکی ترقی کے لئے بھی منصوبے بناتے اوراُن پر عملدرآمد کرتے ہیں۔ انتخابات کے بعد حکومت بدلتی ہے‘ تو وہ گزشتہ حکومت کی ایسی پالیسیوں کو‘ جن سے ملک کو نقصان پہنچتا ہو‘ بدل کر کوشش کرتے ہیں کہ عوام کو پہنچنے والے نقصان سے بچایا جائے۔ مثلاً گزشتہ حکومت نے کوئلے کی کانوں کے جو ٹھیکے دے رکھے تھے‘ وہ سراسر لوٹ مار تھی۔ مودی حکومت نے آتے ہی سارے ٹھیکے کینسل کر دیئے اور نئے سرے سے کوئلے کی کانیں ٹھیکے پر دیں اور ملک کے اربوں روپے بچا لئے‘ جن کا فائدہ کسی نہ کسی حالت میں عوام کو پہنچے گا۔ یہی سیاست ہوتی ہے کہ اقتدار میں آنے والے اپنے ساتھیوں کوپیسے کمانے کے مواقع بھی دیں ‘عوام اور ملک کی ترقی کے لئے کچھ نہ کچھ کرتے بھی رہیں۔ تمام تر بدنامیوں اور عو ام کی تنقید کے باوجود‘ سیاسی عمل کے ذریعے ترقی و خوشحالی کی تلاش کا عمل بھی جاری رہتا ہے۔
ہماری بدنصیبی یہ ہے کہ سیاستدانوںکا پورا قبیلہ ہی تاجروں‘ ساہوکاروں‘ دولت بٹورنے والوں اورعوامی خرچ پر دولت کے ڈھیرلگانے والوں پر مشتمل ہے۔ یوں تو ایک مدت سے یہی سلسلہ جاری ہے‘ لیکن کبھی نہ کبھی کوئی حکومت تعمیروترقی کے کاموں کی طرف بھی توجہ دے لیا کرتی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ بھٹو صاحب کے زمانے میں جب شمالی علاقوں میں زلزلہ آیا تھا‘ تو مختلف ملکوں کی طرف سے متاثرین کے لئے امدادی سامان بہت بڑی مقدار میں آیا تھا۔ یہ امدادی سامان افسروں نے آپس میں بانٹ لیا اور باڑا بازارسے گھٹیا سامان خرید کے‘ متاثرین کے حوالے کر دیا۔ میں اس پر تنقید نہیں کر سکتا۔ ہمارے ہاں ایمانداری کی اوسط مقدار ہی اتنی ملتی ہے۔ اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ سب کچھ کھائے جانے سے بہتر ہے کہ کچھ نہ کچھ حصہ حقداروں تک بھی پہنچ جائے۔ اس سے زیادہ ایمانداری کی پاکستان میں امید نہیں کی جا سکتی اور اب تو عطیات دینے والے بھی سب کچھ سمجھ چکے ہیں۔ پاکستان میں سیلاب‘ زلزلے یا طوفان کی صورت میں بڑی سے بڑی تباہی بھی آ جائے‘ تو مخیرممالک اب حکومت کے ذریعے متاثرین کی مدد سے گریز کرتے ہیں۔ جہاں تک ممکن ہو‘ کوشش کرتے ہیں کہ براہ راست متاثرین کی امداد کر دی جائے۔ حکومت پاکستان پر بھروسہ کرنا‘ پیسہ ضائع کرنے کے مترادف ہے۔ آپ نے موجودہ حکومت کے اعلانات پڑھے ہوں گے کہ ہمیں بیرونی امداد نہیں چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ اب پاکستان کے حکمرانوں اور ان کی انتظامی مشینری پر کسی کو اعتبار ہی نہیں رہا۔ بیرونی دنیا ہمارے ملک کے کرپٹ اہلکاروں اور سیاستدانوں کو اچھی طرح سمجھ چکی ہے۔ انسانیت کے تقاضے پورے کرنے کے لئے وہ جب بھی آفت زدگان کی مدد کرنا چاہتے ہیں‘ تو مختلف ذرائع سے اپنی امداد متاثرین تک پہنچا دیتے ہیں۔ ہماری حکومت ہر قسم کا لین دین صرف انہی نجی کمپنیوں اور حکومتوں کے ساتھ کرتی ہے‘ جن کی طرف سے بھاری کک بیک ملتا ہو۔ آپ غور کر کے دیکھ لیجئے‘ دنیا کے جن ممالک کی حکومتیں اور کاروباری لوگ ‘ دو نمبر کے لین دین میں مشہور ہیں‘ ہمارے کاروباری معاہدے انہی کے ساتھ ہوتے ہیں۔ خریداروں کو فراخدلی سے فائدہ پہنچانے والوں میں ترکی‘ اٹلی‘ سپین اور چین شہرت یافتہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے حکمران بھاگ بھاگ کر ان ملکوں کی طرف جاتے ہیں۔ انہی کے حکومتی نمائندوں کو اپنے ہاں بلاتے ہیں۔ بھاری سودے کرتے ہیں۔ خاموشی سے اپنا حصہ باہر رکھ لیتے ہیں اور پاکستانی عوام کے حصے میں کچھ نہیں آنے دیتے۔ مثلاً ایک ملک کی کمپنی نے لاہور میں کوڑا کرکٹ اٹھا کر شہر کو صاف ستھرا رکھنے کا ٹھیکہ حاصل کیا تھا۔ پاکستان ‘کمپنی کو معاوضہ بھی دے چکا ہے اور سازوسامان کی قیمت بھی‘ لیکن لاہور اسی طرح گندا ہے۔ گزشتہ روز آپ نے ایک حیرت انگیز مشاہدہ کیا ہو گا ۔ ہمارے وزیراعظم اور پنجاب کے وزیراعلیٰ نے مخصوص تقریبات میں تقریریں کرتے ہوئے اچانک یہ غیرمعمولی اعلانات کئے کہ وہ دونوں سرکاری رقوم بڑی دیانتداری سے خرچ کرتے ہیں۔ انہوں نے واضح طور سے بتایا کہ فلاں کام اتنی رقم میں ہو سکتا تھا لیکن ہم نے اربوں روپے کی بچت کر کے قوم کو فائدہ پہنچا دیا۔ میری طرح آپ نے بھی غور کیا ہو گا کہ جو لوگ گزشتہ 30برس سے صوبائی یا وفاقی حکومتیں چلاتے آ رہے ہیں‘ انہوں نے سارے کام‘ روایت کے مطابق کئے۔ کئی منصوبے بنائے۔ ان پر عملدرآمد بھی کیا‘ لیکن اپنے منہ سے کبھی عوام کو یہ نہیں بتایا کہ ہم نے فلاں منصوبے میں عوام کے پیسے کی اتنی بچت کر دی۔ مگر اچانک گزشتہ روز انہیں کیا ہو گیا کہ وہ اپنی ایمانداری کے چرچے کرتے نظر آئے اور غیرمعمولی طور پر عوام کو بتایا کہ وہ مختلف منصوبوں میں قوم کا کتنا پیسہ بچاتے ہیں؟ مجھے تو یقین ہے کہ انہوں نے عوام کو سچ بتایا۔ مگر پاکستان کے لوگ ہیں کہ اب حکمرانوں کی کسی بات پر بھی یقین نہیں کرتے۔ یہاں تو یہ بھی ہوتا رہا ہے کہ مصیبت زدگان کو امدادی چیک دیئے گئے‘ وہ انہیں لے کر در در بھٹکتے رہے اور چیک کیش نہ ہو سکے۔ چند خوش نصیب کیش کرانے میں کامیاب ہو گئے اور باقی تھک ہار کے گھروں میں بیٹھ گئے۔ حال میں جو بلدیاتی انتخابات کرائے گئے ‘ ان میں ایک نیا عنصر دیکھ کر آپ سب کو حیرت ہوئی ہو گی۔ ان انتخابات میں محض چند پارٹیوں نے حصہ لیا۔ انہی حلقوں کو ترجیح دی گئی‘ جہاں پر اپنی ہی لگائی ہوئی بیوروکریسی تھی۔ خصوصاً پولیس اور پٹواری ان کی ذاتی وفاداریوں میں معروف تھے۔ ملکی اور صوبائی سطح پر انتخابات ہوئے ہی نہیں۔ ملک پر حکمران پارٹی‘ مسلم لیگ (ن) نے صرف پنجاب
کے انتخابات میں پرجوش حصہ لیا۔ دوسرے کسی صوبے میں قابل ذکر تعداد میں امیدوار ہی کھڑے نہیں کئے۔ اسی طرح دوسری پارٹی نے صرف سندھ کے بلدیاتی انتخابات میں حصہ لیا‘ مگر وہ بھی سارا سندھ نہیں‘ چند شہروں میں ایک دوسری پارٹی کا کاروبار تھا۔ مجھے یاد ہے‘ کسی زمانے میں ملک گیر سیاسی پارٹیاں‘ بلدیاتی‘ صوبائی اور قومی انتخابات میں حصہ لیا کرتی تھیں۔ اب وہ رواج ہی اٹھ گیا ہے۔ پارٹیوں نے کراچی اور ممبئی کی طرح اپنے اپنے علاقے بانٹ رکھے ہیں اور جو کھانا کمانا ہو‘ انہی علاقوں سے کماتے ہیں۔ دوسروں کے علاقوں پرہاتھ نہیں مارتے۔ مسلم لیگ (ن) نے عرصہ ہوا سندھ کی طرف پلٹ کر نہیں دیکھا۔ پیپلزپارٹی نے پنجاب کو منظوروٹو کے حوالے کر رکھا ہے‘ جن کی سیاست ہی ''دکانداری‘‘ ہے۔ میں وٹو صاحب سے زیادتی نہیں کروں گا‘ ان کی دکانداری کا بہت مندا چل رہا ہے۔ اب صرف چھابہ لگاتے ہیں۔ کوئی بھولا بھٹکا آ کر مونگ پھلی یا ریوڑیاں خرید لے‘ تو وارے نیارے۔ ورنہ دن میں تارے۔
آپ حالیہ بلدیاتی انتخابات کے نتائج دیکھیں‘ تو آپ کو حیرت ہو گی کہ ملک کی سب سے بڑی پارٹی کا مقابلہ آزاد امیدواروں نے کیا ہے۔ جتنی تعداد میں وفاق اور پنجاب کی حکمران جماعت نے نشستیں حاصل کی ہیں‘ کم و بیش اتنی ہی تعداد میں آزاد امیدوار آ گئے ہیں۔ یہ وہ سیاستدان ہیں‘ جنہیں کسی پارٹی پر بھروسہ نہیں۔ انہوں نے اپنے آپ کو آزاد ہی رکھا ہے تاکہ لیڈر انہیں پارٹی ڈسپلن کا پابند کر کے روپے پیسے سے دور ہی رکھیں۔ یہ بھی ٹھہرے استادوں کے استاد۔ جتھے بنا کر پارٹیوں کے ساتھ سودے کریں گے۔ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ سارے ترقیاتی کاموں کی رقم حکومت نے اپنے ہاتھوں میں رکھی ہے اور انہیں افسروں کے ذریعے تھوڑا بہت حصہ ملا کرے گا۔ بالائی تو حکمران کھائیں گے۔ خالص دودھ بیوروکریسی نکال لے گی اور ان کے پاس جو دودھ پہنچے گا‘ اس میں پانی ملا ہو گا۔ کسی کو کسی پر اعتبار نہیں۔ ہر کسی کو اچھی طرح معلوم ہے کہ جس تک‘ جو حصہ بھی پہنچے گا‘ اس میں سے دینے والا اپنا حصہ ضرور نکالے گا۔ جس ملک میں پارٹیاں ہی نہ رہی ہوں‘ وہاں حکومتیں چلانے کے لئے چھابے والے گلیوں بازاروں میں آتے ہوں اور انہی کے ہاتھوں میں عام اور کمزور شہریوں کی قسمتوں کی لگامیں ہوں‘ وہ پاکستان ہی ہو سکتا ہے۔ رہ گیا اوپر کا کھیل‘ تواربوں روپے کا کام بہت گندا ہے۔ عوام اس طرف نہ ہی دیکھیں تو اچھا ہے۔ حکومتیں اربوں کھربوں کے سودے کرتی ہیں۔ خریدا ہوا مال آ کے ملک میں بکنا بھی شروع ہو جاتا ہے اور کسی کو پتہ نہیں چلتا کہ سودا کتنے میں خریدا گیا؟ اس کی نقل و حمل پر کیا خرچ آیا اور عوام سے کیا نفع لیا جا رہا ہے؟ اتنی طاقتور اور جوابدہی سے آزاد حکومتیں کہاں پائی جاتی ہیں؟ عوام کی قسمت نے یاوری کی‘ تو آنے والے انتخابات سے پہلے ایک دو سیاسی پارٹیاں سامنے آ جائیں گی اور قسمت نے ساتھ نہ دیا تو آزاد امیدواروں کے گینگ ہوں گے۔ احتجاج کے لئے بدنام‘ مظلوموں کو چھتر لگانے والے کارندے اور ایٹمی طاقت رکھنے والے کرپٹ حکمران۔ بے بس عوام‘ امیدبھری نگاہوں سے صرف ایک ہی طرف دیکھ رہے ہیں۔