تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     21-11-2015

سبق

اس نادرِ روزگار ادیب پائولو کوہلیو کا وہی جملہ: زندگی میں غلطی نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی، بس سبق ہوتے ہیں۔ اور سرکارؐ کا ارشاد یہ ہے: جہاں سے ''اے کاش‘‘ شروع ہوتا ہے، شیطنت بھی وہیں سے آغاز کرتی ہے۔ 
پاکستانی صحافت ابھی بلوغت کی راہ میں ہے۔ وہ دعووں، نعروں اور سکینڈلز پہ انحصار کرتی ہے۔ آڈیٹر جنرل پاکستان نے قرار دیا کہ نندی پور منصوبے میں بہت سی بے قاعدگیاں ہوئیں مگر خواجہ آصف کا بیان زیادہ نمایاں چھپا کہ انہوں نے سرکار کو کلین چٹ دے دی ہے۔ کیا کہنے، کیا کہنے۔ ریحام خان کی طلاق کا معاملہ بھی یہی ہے۔ بیانات چھپ رہے ہیں اور اکثر بے سروپا۔
ریحام خان کردار کشی کا ہدف ہیں اور خود بھی کمال سادہ لوحی کا مظاہرہ فرما رہی ہیں۔ اس کے سوا کہ نام ان کا نمایاں رہے گا اور عمران خان پر دبائو برقرار رہے گا، حاصل انہیں کچھ نہ ہو گا۔ 
انہیں بات ہی کرنی ہے تو ایک ہی بار کرنی چاہیے اور تفصیل کے ساتھ۔ اس طرح کے شکووں کا کیا فائدہ کہ کپتان نے ان کے بچوں کا دفاع نہ کیا۔ اوّل تو ان بچوں پر ایسا کوئی الزام لگا ہی نہیں، کسی بھی سنجیدہ آدمی نے جس پر توجہ دی ہو۔ رہا سوشل میڈیا تو وہ پرلے درجے کا غیر ذمے دار ہے۔ اسے نظر انداز کر دینا چاہیے۔ ایسی ایسی کہانیاں اس پر جگمگاتی ہیں کہ خدا کی پناہ۔ ایک پیغام تین دن پہلے موصول ہوا کہ شریف خاندان نے چالیس کلومیٹر طویل ایک جزیرہ ترکی میں خرید لیا ہے، جس پر وہ مستقبل کی ایک ریاست تعمیر کریں گے۔ کیا وہ پاگل ہوئے ہیں؟ کیا ترکی کا پریس اندھا ہے؟ کیا ترک حکمران ہوش و حواس کھو بیٹھے ہیں کہ اس طرح 
کے کسی احمقانہ منصوبے کی حوصلہ افزائی کریں؟ شریف خاندان کی دولت لندن، پاکستان، جدّہ، دبئی اور سوئٹزرلینڈ میں ہے اور وہ اس پر شاد کام ہے۔ بیرونِ ملک کسی ایک جگہ وہ اپنے اثاثے کیوں یکجا کریں گے؟ عالمی پریس کا ہدف بننے کے لیے کہ وہ ان کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دے؟ حکمران وہ جیسے بھی ہوں، کاروباری بہت سیانے ہیں۔ گھاٹے کا سودا کبھی نہیں کرتے۔ پاکستان میں فی الحال ان کی پوزیشن مستحکم ہے۔ وہ اپنی آئندہ نسل کو اقتدار سونپنے کی منصوبہ بندی فرما رہے ہیں۔ ابھی سے راہِ فرار وہ کیوں اختیار کریں گے؟ 
ریحام خان کو معلوم ہونا چاہیے کہ یلغار اس پر کی جاتی ہے، جو خود کو مظلوم اور کمزور بنا کر پیش کرے۔ وہ تو یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ اپنی سابقہ اہلیہ کے خلاف ایک لفظ بھی سن نہیں سکتے۔ ریحام کے بارے میں یہ کہا گیا کہ انہوں نے عمران خان کو زہر دینے کا ارادہ کیا۔ وہ سکیورٹی رسک تھیں۔ کسی کے ایما پر وہ خان کے گھر داخل ہوئی تھیں اور انہوں نے اپنے شوہر پر ہاتھ اٹھایا۔ یہ سب کچھ ناقابلِ فہم ہے۔ ان کی شخصیت ایسی نہیں کہ وہ ایک زر خرید ایجنٹ کا کردار ادا کریں۔ ثانیاً، کس کو ضرورت پڑی تھی کہ وہ عمران کو زہر دے؟ ایم آئی سکس یا ''را‘‘ کو؟ اس کے لیے بیاہ کا کھڑاک رچانے کی ضرورت کیا تھی؟ یہ کام تو کہیں بھی، کسی بھی وقت ہو سکتا تھا۔ عمران خان کے گرد بکائو لوگوں کی کوئی کمی نہیں اور بیرونِ ملک وہ جاتے رہتے ہیں۔ شریف خاندان؟ ہزار خرابیاں ہوں گی مگر ان 
کی فردِ عمل میں ایسا کوئی واقعہ نہیں کہ انہوں نے کسی کی جان لی ہو۔ پروپیگنڈے پر وہ تلے رہتے ہیں اور اس کے لیے پرویز رشید، طلال چوہدری، دانیال عزیز اور وفادار صحافیوں کا ایک پورا لشکر اشارۂ ابرو کا منتظر رہتا ہے۔ سکیورٹی رسک؟ عمران خان کی زندگی میں کون سا راز ہے؟ ان کے سب قصے سبھی کو معلوم ہیں۔ وہ خود بھی کوئی بات زیادہ دن چھپا نہیں سکتے۔ ایک بار میں نے ان سے کہا ''دو لیڈروں سے میرے بہت قریبی تعلقات رہے۔ گلبدین حکمت یار اور آنجناب۔ ان کا وصف یہ تھا کہ دائیں ہاتھ کی بات بائیں کو معلوم نہ ہو سکتی۔ایک لفظ بھی اس سے زیادہ نہ کہتے، جتنا کہ کہنا چاہیے اور ایک عالی جناب ہیں۔ اس پر وہ ہنسا اور بولا! کاش رازداری کی خوبی میں خود میں پیدا کر سکتا۔ رہی ہاتھ اٹھانے کی بات تو کپتان کا یہ مزاج ہی نہیں کہ وہ ا س طرح کی حرکت معاف کرے۔ ہرگز وہ ایسا محتاط آدمی نہیں کہ ایسے میں نتائج سے خوف زدہ ہو کر چپ سادھ لیتا بلکہ الٹا چھوڑ جانے والی خاتون کی وکالت کرتا۔ کہانیاں ریحام کے مخالفین نے تراشی ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ان میں سے ہر ایک غلط ثابت ہو جائے گی۔ یہ غیر ذمہ دار لوگوں کے مشغلے ہیں۔ احساسِ کمتری کے مارے لوگ جو اپنی اہمیت جتلانے کے لیے داستانوں پہ انحصار کرتے ہیں۔ 
نکتے کی بات خود ریحام خان نے کہہ دی: طلاق کے ذمہ دار دراصل وہ دونوں خود ہیں۔ شادی کے دو ماہ بعد ہی ان میں اختلافات نے جنم لیا اور مزید دو ماہ گزر جانے کے بعد وہ دونوں علیحدگی کے بارے میں سوچنے لگے۔ عمران خان نے اگر جہانگیر ترین سے مشورہ کیا تو ظاہر ہے کہ ذہنی آمادگی کے بعد۔ جہانگیر خان کو میں خوب جانتا ہوں۔ وہ اپنے طور پر مداخلت کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ عمران اور ریحام میں سے جس نے بھی کسی دانا آدمی سے مشورہ کیا ہوتا وہ انہیں شادی سے باز رہنے کی صلاح دیتا۔ انہوں نے جلد بازی کا ارتکاب کیا۔ دونوں کا مزاج ایسا ہے کہ ایک حد سے زیادہ لچک کا مظاہرہ نہیں کر سکتے۔ ریحام خان بلند پروازی کی متمنی ہیں اور عمران خان اپنی راہ چلنے کے عادی۔ اپنے اردگرد کے لوگوں سے عمران یہ چاہتے ہیں کہ جب وہ فیصلہ کر چکیں تو کوئی دوسرا مداخلت نہ کرے۔ اگر کوئی مصر ہو تو وہ اس سے فاصلہ پیدا کر لیتے ہیں۔ ان کی پارٹی کے کئی لیڈر اس لیے پیچھے جا پڑے اور کچھ دوسرے اس لیے مسلّط ہو گئے کہ وہ خان کی خوشنودی کا خیال رکھتے ہیں۔ 
عمران خان تحائف دینے اور دوسروں کا دفاع کرنے والا نہیں؛ حتیٰ کہ اپنے قریب ترین لوگوں کا۔ وہ ایک دروں بین آدمی ہیں اور ریحام کو جلد ہی اس کا ادراک ہو جانا چاہیے تھا۔ ان لوگوں سے انہیں خبردار رہنا چاہیے تھا، جو توجہ اور قربت کے لیے سوغات لے کر آتے ہیں ۔ ایسے کئی لوگ تھے۔ ان میں سے ایک نے حال ہی میں عمران خان کو کردار کشی کی دھمکی دی ہے اور یا للعجب تحریری طور پر۔ برصغیر کا معاشرہ احساس کمتری کا معاشرہ ہے اور بعض اوقات ہم اس کے نادر نمونوں کو دیکھتے ہیں۔ خاص طور پر ذرائع ابلاغ کی دنیا میں۔ رہی تعویذ کی بات تو سمجھ میں نہیں آتا کہ ریحام بار بار ان کا ذکر کیوں کرتی ہیں۔ روحانی دنیا میں تعویذ کا کوئی وجود نہیں اور جادو کے بارے میں اللہ کی کتاب یہ کہتی ہے کہ اس سے کسی کو فائدہ پہنچ سکتا ہے اور نہ نقصان۔ 
ریحام خان اگر خود کو اظہارِ خیال سے باز نہیں رکھ سکتیں تو انہیں ایک کتاب لکھنی چاہیے۔ زیادہ وسیع تناظر میں۔ پاکستان کے وسیع تر تناظر میں عمران خان اور تحریکِ انصاف کا کردار۔ شائستگی کے ساتھ اس میں ذاتی حوالے بھی دیے جا سکتے ہیں۔ ایک بڑی تصویر میں وہ موزوں تر ہو جائیں گے۔ مفہوم کو اجاگر کرنے میں مدد دیں گے۔ خود ترحمی کی ماری ایک خاتون کی بجائے، وہ ایک قلمکار بن کر ابھریں گی۔ وہ صلاحیت سے مالا مال ہیں اور کرشمہ کر سکتی ہیں۔ اگر وہ خود سے اوپر اٹھیں، ملال اور ہیجان سے نجات پائیں۔ زندگی اور اس کے تقاضوں کو وسعت میں دیکھنے کی کوشش کریں۔ 
اس نادرِ روزگار ادیب پائولو کوہلیو کا وہی جملہ: زندگی میں غلطی نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی، بس سبق ہوتے ہیں۔ اور سرکارؐ کا ارشاد یہ ہے: جہاں سے ''اے کاش‘‘ شروع ہوتا ہے، شیطنت بھی وہیں سے آغاز کرتی ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved