پاکستان میں سب سے خطرناک مقام شاید وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور ان کے ایک منصوبے کے درمیان پایا جاتا ہے۔ محکمہ آثار قدیمہ کے سربراہ کو اس تلخ حقیقت کا اُس وقت علم ہوا‘ جب اُنھوں نے اورنج ٹرین منصوبے کے لیے این او سی دینے سے انکار کیا‘ کیونکہ تحفظ نوادرات ایکٹ (Antiquities Act) کے مطابق تاریخی عمارات سے دو سو فٹ کی دوری تک کوئی تعمیراتی منصوبہ نہیں بن سکتا؛ چنانچہ اُنہیں راتوں رات عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ ان کے جانشیں نے چوبیس گھنٹوں کے اندر اندر این او سی جاری کر دیا۔
منصوبوں پر اٹھائے جانے والے تمام اعتراضات کو روندتے ہوئے آگے بڑھنے کی عادت رکھنے والے وزیر اعلیٰ پنجاب کو یقین ہے کہ وہ اُن تمام ماہرین سے بہتر جانتے ہیں‘ جو اُن کے منصوبوں کی مخالفت کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر موجودہ اورنج ٹرین منصوبے کی وجہ سے لاہور کا قیمتی ورثہ تباہی سے دوچار ہے‘ جبکہ لاکھوں افراد کو نقل مکانی کا عذاب بھی سہنا پڑے گا۔ چند روز پہلے ایک انگریزی اخبار میں ایک مضمون شائع ہوا‘ جس کے مطابق حکومت پنجاب چین سے 1.6 بلین ڈالر قرض لے رہی ہے‘ اور اس رقم سے ایک چینی کنسورشیم ہی اورنج ٹرین منصوبہ مکمل کرے گا۔ 27.1 کلومیٹر طویل یہ ٹرین لاہور کے تاریخی اہمیت کے انتہائی گنجان آباد علاقوںسے گزرے گی۔ اسے چلانے اور قرض کی ادائیگی کے لیے بیس سال تک یومیہ تین لاکھ ڈالر درکار ہوں گے۔ یہ رقم حاصل کرنے کے لیے فی مسافر ایک سو ساٹھ روپے یک طرفہ کرائے کے طور پر وصول کیے جائیں گے اور فرض کیا جائے گا کہ ساری ٹرین مسافروں سے بھری ہوئی ہے۔ اگر کرائے میں تخفیف کرنا ہوئی تو سبسڈی دینا ہو گی، جس کا بوجھ ٹیکس دہندگان پر پڑے گا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ ٹرین لاہور میں ٹریفک کے مسائل کے حل کے لیے ناگزیر ہے؟ لاہور کے ایک مشہور ماہر تعمیرات اور پلاننر، کامل خان ممتاز کے مطابق لاہور کو اس کی ضرورت ہرگز نہیں۔ بظاہر لاہور کی سڑکوں پر سکول، کام یا دکانوں وغیرہ پر جانے والے افراد کی تعداد ایک ملین یا اس سے کچھ زیادہ ہوتی ہے۔ ان میں سے ساٹھ فیصد پیدل اور تیس فیصد موٹر سائیکل یا سائیکل استعمال کرتے ہیں۔ ان کی طے کردہ مسافت اوسطاً دو سے پانچ کلومیٹر تک ہوتی ہے‘ اور اُنہیں اس میں بیس سے تیس منٹ لگتے ہیں۔ شہر کی آبادی، معیشت اور جغرافیائی خدوخال ٹریفک کے مسائل حل کرنے کے لیے کسی ٹرین کی اجازت نہیں دیتے۔ یہ دنیا کے دیگر شہروں کے مقابلے میں کم آبادی اورکم آمدنی رکھنے والا ایسا شہر ہے جس کے کاروباری علاقے انتہائی گنجان آباد ہیں۔ بہتر ہوتا اس کی سڑکوں پر بسیں چلائی جاتیں‘ اور ان بسوں کی لین مخصوص ہوتی تاکہ دیگر ٹریفک ان سڑکوں پر نہ آئے۔ دنیا کے بہت سے شہروں میں ایسا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ فٹ پاتھوں سے تجاوزات کا خاتمہ کرکے وہاں پیدل چلنا آسان بنا دیا جائے۔
کم آمدنی اور کم آبادی والے دیگر شہروں میں بھی ٹرین کا تجربہ زیادہ حوصلہ افزا نہیں۔ میکسیکو میں 201 کلومیٹر طویل میٹرو نیٹ ورک کو صرف چودہ فیصد مسافر استعمال کرتے ہیں۔ کولکتہ میں شہر کے سترہ کلومیٹر طویل ریلوے ٹریک سے صرف دس فیصد مسافر استفادہ کر پاتے ہیں۔ اگرچہ شنگھائی کا شمار کم آمدنی والے شہروں میں نہیں ہوتا‘ لیکن بیاسی کلومیٹر طویل میٹرو اور اوورلینڈ ریلوے سے صرف دو فیصد مسافر ہی فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ٹریفک ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ لاہور کے ٹریفک کے مسائل پر قابو پانے کے لیے ٹرین ممکنہ حد تک بدترین منصوبہ ہے۔ ٹریک بچھانے کے لیے بہت زیادہ زمین پر سے آبادی کے خاتمے کے علاوہ ٹریک کی سمت ظاہر کرتی ہے کہ لاہور کے بہت کم شہری اس سہولت سے استفادہ کر پائیں گے۔ جن بہت سی تاریخی عمارتوں کو اس منصوبے سے نقصان پہنچے گا، اُن میں لاہور کے ماتھے کا جھومر، شالامار گارڈن بھی شامل ہے۔ اگرچہ وزیر اعلیٰ پنجاب نے یقین دلایا ہے کہ ٹرین کے ٹریکس باغ کی بیرونی دیوار کو چھوتے ہوئے گزریں گے لیکن تعمیراتی مشینری کا استعمال اور بعد میں ٹرین گزرنے سے پید ا ہونے والا ارتعاش عمارت کی بنیادوں کو نقصان پہنچائے گا۔ اس کے علاوہ مغل طرز تعمیر کے اس عمدہ ترین نمونے کے قریب سے گزرنے والی سیاہ ریلوے لائن کتنی بھدی لگے گی۔ بتایا گیا ہے کہ منصوبے کے مطابق ٹریک کا صرف چند ایک کلومیٹر فاصلہ ہی زیر زمین ہو گا۔ اگر سارا ٹریک زیر زمین ہوتا، تو اگرچہ لاگت بہت بڑھ جاتی لیکن نقصان کم ہو سکتا تھا۔ اس منصوبے کے ساتھ ایک انسانی المیہ بھی رونما ہو رہا ہے۔ وزیر اعلیٰ کے خواب کو پورا کرنے کے لیے ٹریک کے راستے میں آنے والے ہزاروں افراد کو اُن کے گھروں سے بے دخل ہونا پڑے گا۔ بہت سے مقامات پر شہری اپنے گھروں اور کاروبار بچانے کے لیے مزاحمت کے موڈ میں ہیں۔ اُنہیں شہری تنظیموں اور تحفظ ماحول کے کارکنوں کی حمایت بھی حاصل ہے، لیکن ہر گزرتے ہوئے دن کے ساتھ شواہد بتاتے ہیں کہ وہ ایک ہاری ہوئی جنگ لڑ رہے ہیں۔
بسائے گئے شہروں کا ماحول ہم پر اثر انداز ہوتا ہے۔ ایک سرسبز شہر ہمیں مہذب اور ملنسار بناتا ہے۔ لاہور کے باسیوں کی کئی نسلوں نے مغلوں کے لگائے گئے شاندار باغات اور پُرشکوہ عمارتیں دیکھی ہیں۔ میں نے بھی یہاں بہت سے سال بسر کیے‘ اور یہاں میرے بہت سے اچھے دوست بھی ہیں۔ اس سے میری بہت سی خوشگوار یادیں وابستہ ہیں؛ تاہم میں جب بھی لاہور آتا ہوں، اس میں بہت سی تبدیلیاں واقع ہو چکی ہوتی ہیں۔ یہ تبدیلیاں ہمیشہ ہی بہتر نہیں ہوتیں۔ دنیا بھر میں پھیلتے ہوئے شہروں میں ضروریات اور ماضی کو محفوظ رکھنے کی اہمیت کے درمیان تنائو پایا جاتا ہے۔ اگر احتیاط اور سلیقے سے کام لیا جائے تو ان دونوں انتہائوں کے درمیان مفاہمت پیدا کی جا سکتی ہے؛ تاہم لاہور جیسے تاریخی شہر کے سینے کو ریلوے ٹریک سے شق کرنا جمالیاتی ذوق کے لیے صدمے کی بات ہے۔ اس منصوبے کو رکوانے کے لیے کی گئی اپیل کے رد عمل میں یونیسکو نے حکومت پاکستان کو خط لکھتے ہوئے کہا ہے کہ شالامار گارڈن، جو ورلڈ ہیریٹیج میں شامل ہے، کو کسی طور پر نقصان نہیں پہنچنا چاہیے۔ شہباز شریف صاحب کا کہنا ہے کہ اُنہیں ماہرین سے مشورہ کرکے خوشی ہو گی، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اگر وزیر اعلیٰ موصوف نے مقامی ماہرین سے بات کی تو اُن میں سے تو بہت سوں کا اس منصوبے میں اسٹیک ہو گا۔ کچھ مخالفت برائے مخالفت کریں گے۔ اُنہیں ماہرانہ مشورے کے لیے گھر سے باہر رجوع کرنا چاہیے؛ تاہم اُن کا ٹریک ریکارڈ دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ وہ اس منصوبے کی وجہ سے ماحول، تاریخ، معیشت اور سماج پر پڑنے والے اثرات کی پروا نہیں کریں گے۔