بھارتی نقادوں اور قارئین کی یہ بات مجھے بہت اچھی لگتی ہے کہ بیکل اتسا ہی اور پروین کمار اشک سے لے کر سلطان اختر تک وہاں کا ہر شاعرنہ صرف مشہور و معروف بلکہ حسب توفیق ایوارڈ یافتہ بھی ہے۔ ہمارے ہاں تو نحوست ہی نحوست نظر آتی ہے۔ کوئی شعری مجموعہ پیش نظر ہو تو میرے جیسے فیتہ بردار اسی کے اوزان و عروض کا طول و عرض ماپنے اور دیکھنے بیٹھ جاتے ہیں کہ شعر بنا ہے یا نہیں۔ والد صاحب مرحوم کہا کرتے تھے کہ بیٹا پھیکا دیکھے بغیر خربوزے کو خربوزہ ہی سمجھ کر کھانا چاہیے‘ سو شعر بھی ایک طرح کا خربوزہ ہی ہوتا ہے‘ جس کی اگر گولائی ٹھیک ہے تو باقی بھی ٹھیک ہو گا۔ کاش کہ میں نے بھی شاعری بھارت میں شروع کی ہوتی اور اب تک شہرت کی بلندیوں کو چھو رہا ہوتا۔ وہاں کے ایک شاعر پرتھی پال سنگھ بیتاب کا دعویٰ ہے کہ میں بھارت کا ظفر اقبال ہوں۔ اس حساب سے تو میں پاکستان کا پرتھی پال سنگھ بیتاب ہوا۔ سو‘ اس دن سے میں نے سر مزید اٹھا کر چلنا شروع کر دیا ہے۔ اللہ عزت دینے والا ہے۔
''شہر میں گائوں‘‘ کے عنوان سے زیر نظر کتاب معروف اور سینئر بھارتی شاعر ندا فاضلی کا شعری کلیات ہے جو ان کے سات مجموعہ ہائے کلام پر مشتمل ہے اور جسے ہمارے دوست شاعر علی شاعر نے رنگ ادب پبلی کیشنز کراچی سے نہایت عمدہ گیٹ اپ میں شائع کیا اور قیمت1000روپے رکھی ہے۔ اندرونی فلیپ پر ناشر لکھتے ہیں کہ ''میں انتہائی شکر گزار ہوں جناب ندافاضلی کا جنہوں نے میری خواہش اور ایک بار عرض پر سات مجموعہ ہائے کلام کی اردو کمپوزنگ پر مشتمل مکمل کلیات ''شہر میں گائوں‘‘ Sendکر دیا اور اس کا پاکستانی ایڈیشن شائع کرنے کی غیر مشروط اجازت بھی عطا کی‘‘
اسے شاعر کی منکسر المزاجی یا دریا دلی ہی کہا جا سکتا ہے جو حد درجے لائق تحسین ہے۔ یہ اہم اور وقیع مجموعہ کلام نظموں اور غزلوں پر مشتمل ہے جس کی کوئی 160غزلوں یعنی کم و بیش ایک ہزار اشعار میں سے میں نے یہ دس شعر آپ کے تفننِ طبع کے لیے نکالے ہیں جو پیش خدمت ہیں :
جن میں کھو جانے کا خدشہ تھا بہت
ہم نہ کھو پائے وہ میلے کھو گئے
پہلے ہر چیز تھی اپنی مگر اب لگتا ہے
اپنے ہی گھر میں کسی دوسرے گھر کے ہم ہیں
دیکھا ہوا سا کچھ ہے تو سوچا ہوا سا کچھ
ہر وقت میرے ساتھ ہے الجھا ہوا سا کچھ
دیس پردیس کیا پرندوں کا
آب و دانہ ہی آشیانہ ہے
گرجا میں‘ مندروں میں‘ اذانوں میں بٹ گیا
ہوتے ہی صبح آدمی خانوںمیں بٹ گیا
رستوں کا نام وقت کے چہرے بدل گئے
اب کیا بتائیں کس کو کہاں چھوڑ آئے ہیں
دو اور دو کا جوڑ ہمیشہ چار کہاں ہوتا ہے
سوچ سمجھ والوں کو تھوڑی نادانی دے مولا!
خود سے ملنے کا چلن عام نہیں ہے ورنہ
اپنے اندرہی چھپا ہوتا ہے رستہ اپنا
بدلنا چاہو تو دنیا بدل بھی سکتی ہے
عجب فتور سا ہر وقت سر میں رہتا ہے
کچھ دور چل کے راستے سب ایک ہو گئے
ملنے گئے کسی سے‘ مل آئے کسی سے ہم
لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس کتاب میں دس گیارہ ہی شعر قابلِ ذکر ہیں۔ اس کی وجہ ہماری کم ذوقی بھی ہو سکتی ہے‘ اور ‘ جذبۂ حسد تو ہر شاعر کے دل میں ہوتا ہی ہے‘ ورنہ اس کتاب کے اشعار تو 'جیہڑا بھنّو لال اے‘ کی مثال ہیں‘ نیز تنگی ٔ جا کا مسئلہ بھی ہے۔ لگتا ہے کہ زبان کی ترقی و توسیع کے لیے ندا فاضلی نے کچھ فنّی اور لسّانی تجربات بھی کئے ہیں۔ مثلاً صفحہ149پر چھپی ایک غزل کا شعر ہے ؎
اس سے دو چار بار اور ملیں
جس کو دل سے نہ بھلایا جائے
دونوں مصرعے اپنے اپنے وزن میں ہیں لیکن مطلع کے مصرعِ اوّل ع
کوئی ہنگامہ اٹھایا جائے
کے مطابق درج بالا شعر کا دوسرا مصرع اسی بحر میں ہے جبکہ پہلا مصرعہ وزن میں تو ہے لیکن اپنی بحربدل کر کسی اور بحر میں نکل گیا ہے۔ میرے ذاتی خیال میں بھی مصرعوں کو اس بات کی آزادی ہونا چاہیے کہ جب چاہیں‘ مٹر گشت کرتے ہوئے کسی اور بحر میں نکل جائیں!
صفحہ173پر چھپی غزل کا آخری شعر یوں ہے ؎
آوارگی شائستی ہوئی جاتی ہے ورنہ
اس دور میں گنجائش انکار بہت ہے
شاعر کا مطلب یہ ہے کہ شائستگی اگر شائستی ہوئی ہے تو اپنی مرضی سے ۔ ہمارے خیال میں بھی شعر کو کھلا چھوڑ دینا چاہیے۔
صفحہ 274پر چھپی غزل کا ایک مصرعہ ہے ع
تھوڑی بہت تو ذہن میں ناراضگی رہے
شاعر نے لفظ ناراضگی ''غالباً اس لیے باندھا ہے کہ بعد میں اسے سند کے طور پر پیش کیا جا سکے۔ ورنہ وہ خوب جانتے ہیں کہ صحیح لفظ ناراضگی نہیں ‘ناراضی ہے۔
صفحہ296پر چھپنے والی غزل کی بحر یا تو شاعر نے خود ایجاد کی ہے یا یہ غیر مروّج ہے۔ مطلع دیکھیے:
دیوار و در سے اتر کر پرچھائیاں بولتی ہیں
کوئی نہیں بولتا جب تنہائیاں بولتی ہیں
تاہم‘ اس پر پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ آپ اسے نثری غزل کے طور پر بھی پڑھ سکتے ہیں!
صفحہ 617 پر شائع ہونے والی غزل جس کا مطلع یہ ہے ؎
جس کے آگے سے ندی جاتی ہے
وہ حویلی بھی ڈبی جاتی ہے
اس کا دوسرا شعر یہ ہے ؎
وہ حقیقت جو تھی کہانی سی
اب کتابوں میں پڑھی جاتی ہے
اس شعر کا پہلا مصرع بھی آپ نے دیکھا کہ سیرسپا ٹا کر تا ہوا کسی اور بحر میں چلا گیا ہے
صفحہ 353 پر چھپی غزل کے دوسرے اور چھٹے شعر کے دو مصرعے دیکھیے ؎
ہوا نہ کوئی کام معمول سے
گزارے شب و روز کچھ اس طرح
بھٹکتی رہی یوں ہی ہر بندگی
ملی نہ کہیں سے کوئی روشنی
دونوں مصرعوں میں لفظ 'نہ‘ کو 'نا‘ کے وزن پر باندھنا بھی ایک انقلابی قدم ہے۔
پس سرورق شائع ہونے والی سعید الظفر صدیقی کی تحسینی رائے سے ہم حرف بہ حر ف متفق ہیں اور ہمیں یقین ہے کہ یہ کتاب بھارت کی طرح یہاں بھی بہت مقبول ہو گی کیونکہ دونوں ملکوں کے قارئین کم و بیش ایک ہی جیسے ہیں۔ سرورق کو ایک خوبصورت پینٹنگ سے سجایا گیا ہے جس میں شہر کی ہائی رائز عمارتیں اور ایک بیل گاڑی دکھائی گئی ہے۔
آج کا مقطع
نازاں ہوں اپنے عیبِ سخن پر ہزار بار
لازم ہے آدمی کو ظفرؔ کچھ ہنر تو آئے