14نومبرکو پیرس کے واقعے نے ایک بار پھر نائن الیون کی طرح امریکہ اور مغربی دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے،امریکہ اور یورپ کے حکمرانوں نے یک زبان ہو کر اسے اپنی حیات ، تہذیب و اقدار اور جمہوریت پر حملہ قرار دیا ہے ۔ ان کا ردِ عمل نائن الیون کی طرح شعلہ فشاں اور آتش بداماں ہے ، الفاظ غیظ و غضب سے بھرے ہوئے ہیں ۔ فرانس کے صدر فرانسیونکولس اولاندے نے کہا ہے کہ ہمارا انتقام بے رحم ہو گا ، کیتھولک مسیحی فرقے کے مذہبی پیشوا پوپ فرانسس نے اسے تیسری عالمی جنگ کا آغاز قرار دیا ہے ۔ نائن الیون کے سانحے کے بعد امریکی صدرجارج واکر بش نے بھی کسی تحمل اور تاَمُّل کے بغیر اسے صلیبی جنگ (Crusade)قرار دیا تھا ۔ اس سے معلوم ہوا کہ سیکولرازم کے تمام تر بلند بانگ دعووں کے باوجود مذہبی عصبیت اُن کی رگ و پے میں کہیں نہ کہیں پیوست ہے ، یہ ان کی جینز یعنی ذہنی ساخت کا جز وِ لا ینفک (Part & Parcel)ہے ۔''Geneکے معنی آکسفورڈ ڈکشنری میں یہ ہیں : موروثی فکری نہاد کی اکائی جو والدین سے اولاد کی طرف منتقل ہوتی ہے اوراس سے اولاد کی فکری ساخت تشکیل پاتی ہے ‘‘۔اس سیاق و سباق سے قطعِ نظر ہم دہشت گردی کے اس واقعے کی شدید مذمت کرتے ہیں اور یہ پوری انسانیت کے خلاف ناقابلِ معافی جرم ہے ۔
ہمارا آرمی پبلک اسکول پشاور کا سانحہ اس سے زیادہ دل کو دہلادینے والا تھا ،کیونکہ وہاں دہشت گردوں نے قصداً اور باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت چھوٹے بچوں کو نشانہ بنایا‘لیکن عہد ِ حاضر کا شِعار یہ ہے کہ زیر دست اقوام کی جان کو وہ حرمت حاصل نہیں ہے جو بالادست اقوام کی جان کو حاصل ہوتی ہے۔زیرد ست اقوام کے افراد کو غلطی سے بھی مار دیا جائے تو بھی وہ صرف تاَسُّف (Regret)کے حق دار ہوتے ہیں ، معذرت یا اپنی غلطی پر معافی مانگنے کو بھی اپنی شان کے خلاف سمجھا جاتا ہے ، جیساکہ قبائلی علاقے میں سلالہ چیک پوسٹ پر ہمارے فوجی جوانوں کو امریکیوں نے نشانہ بناکر موت سے ہمکنار کر دیا تھااورصرف اظہارِ افسوس پر اکتفا کی، معذرت پر کسی صورت میں آمادہ نہ ہوئے ۔
میری دانست میں اب وقت آگیاہے کہ امریکہ اور یورپ کے اہلِ فکر و نظراس پر غور کریں کہ مغربی اتحاد کے عراق پر حملے سے لے کر آج تک قتل وغارت اور دہشت وفساد کا خاتمہ ہوا ہے یا اس میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے ۔ عقلِ سلیم کا سبق تو یہی ہے کہ جب ظلم و ُعدوان اور دوسرے ممالک کی حرمتوں کو پامال کرنے کی فصل کاشت کریں گے تو عدل و انصاف اور امن و آشتی کے گل وگلزار نہیں کِھلیںگے ۔ اس لیے اگر امریکہ اور یورپ کی سیاسی قیادتیں اپنی حکمتِ عملی کا از سرِ نو جائزہ لیں تو شاید دنیا کو سلامتی نصیب ہو جائے ۔ عراق ، افغانستان ، لیبیا، مصر ، شام ، یمن اور سوڈان میں عالمی قوتوں نے بالواسطہ اور بلا واسطہ فوجی مداخلت کی یا اُن ملکوں کے اندر مصروفِ عمل تخریب کاروں کو مالی اور حربی وسائل فراہم کیے ، ترغیبات کے مختلف انداز اختیار کیے ، لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس کے نتیجے میں عالَمی سطح پر دہشت گردی ، تخریب کاری اور فساد کو فروغ ملا یا اس کا خاتمہ ہو گیا۔ نوشتۂ دیوار تو یہی ہے کہ عراق میں فوجی مداخلت کے بعد سے دہشت گردی کا دائرۂ کار اُفقی اور عمودی دونوں اعتبار سے بڑھتا چلا جار ہا ہے اور اس کا پھیلاؤ سمٹنے میں نہیں آرہا ۔
ہم صرف اس بات کی طرف توجہ دلانا چاہتے ہیں کہ شر کو ضرور جڑ سے اُکھاڑ پھینکیں ، پولیو کی طرح اس کا ایک جر ثومہ بھی زندہ نہ رہنے دیں تاکہ یہ مرض دوبارہ لوٹ کر نہ آجائے ۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ مرض کے اسباب کا بھی اِزالہ کیا جائے ،جب تک مرض کے اسباب کا اِزالہ نہیں کیا جائے گا ، اس کے دوبارہ نمودار ہونے کے امکانات بالکل معدوم نہیں ہوں گے اور کسی نہ کسی صورت میں خطرہ باقی رہے گا ۔ جب ہم اس جانب متوجہ کرتے ہیں تو امریکہ اور اہلِ مغرب تودر کنار ، ہمارے اپنے لبرل موڈریٹ اور سیکولر عناصر ہمیں ملامت کرتے ہیں کہ گویا ہم دہشت گردی کو جواز فراہم کر رہے ہوتے ہیں اور کسی نہ کسی درجے میں اسے Justifyکرتے ہیں ۔ حاشا و کلّا! ایسا ہر گز نہیں ہے ، ہم اگر مگر اور If & Butکا کوئی سابقہ یا لاحقہ یا شر ط (Provisio)لگائے بغیر غیر مشروط طور پر دہشت گردی کی ہر صورت کی مذمت کرتے ہیں اور اسے کوئی جواز عطا کرنے کے روادار نہیں ہیں اور نہ ہی اسے مذہب کی چھتری (Cover)تلے تحفظ دینا چاہتے ہیں ۔ ہمارا طے شدہ اور قطعی موقف یہ ہے کہ ہر دہشت گرد بلا تمیز مذہب و مسلک ور نگ و نسل انسانیت کا دشمن ہے اور کسی رورعایت کا حق دار نہیں ہے ۔
ہمارے علمائے اہلِ سنت تو اس حد تک حساس اور ہر صورت ِ فساد سے اس قدر متنفر و بیزار ہو چکے ہیں کہ اب قرآن ِ مجید کے تازہ ترین تراجم میں بھی یہ سوچ جھلک رہی ہے ۔ چناچہ ہمارے عہد کے عظیم مفسّر و محدّثِ وفقیہِ اعظم اور ہمارے دارالعلوم نعیمیہ کے شیخ الحدیث علامہ غلام رسول سعیدی اپنی تازہ ترین تفسیر'' تبیان الفرقان‘‘ میں فساد کے معنی دہشت گردی قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں : ''جب ان سے کہا جائے کہ زمین میں دہشت گردی نہ کرو تو کہتے ہیں : ہم تو صرف اصلاح کرنے والے ہیں ، سنو ! یہی لوگ (در حقیقت ) دہشت گرد ہیں ، لیکن انہیں اس کا احساس نہیں ہے ، (بقرہ : 11-12)‘‘۔
قرآنِ مجید نے قتل وغارت ، مسلح ڈاکہ زنی و لوٹ مار کو فساد فی الارض قرار دے کر سب سے بڑا جرم بتایا ہے اور اسے محاربہ یا حِرابہ یعنی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ِ مکرم ﷺ کے ساتھ جنگ سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ علامہ غلام رسول سعیدی ایک بار پھر فسادفی الارض کو دہشت گردی سے تعبیر کرتے ہوئے تبیان الفرقان میں آیاتِ قرانی کے ترجمے میں لکھتے ہیں : ''جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرتے ہیں اور زمین میں دہشت گردی کرتے ہیں ، اُن کی سزا یہی ہے کہ ان کو چُن چُن کر قتل کیا جائے یا اُن کو سولی پر چڑھایا جائے یا اُن کے ہاتھ اورپاؤں مخالف سمت سے (یعنی دایاں ہاتھ اور بایاں پاؤں یا دایاں پاؤں اور بایاں ہاتھ ) کاٹ دئیے جائیں یا ان کو ان کے وطن سے نکال دیا جائے، یہ اُن کی دنیا میں رُسوائی ہے اور آخرت میں ان کے لیے بڑا عذاب ہے ، سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے تمہارے گرفتارکرنے سے پہلے توبہ کر لی ، پس یاد رکھو کہ اللہ بہت بخشنے والے ، بے حد رحم فرمانے والے ہیں، (المائدہ :33-34)‘‘۔ میں نے یہ ترجمہ لکھا تو ایک صاحبِ علم نے پوچھا کہ ''چُن چُن کر ‘‘ کس لفظ کے معنیٰ ہیں ؟۔ علامہ محمود آلوسی اپنی تفسیر روح المعانی میں ''اَنْ یُّقَتَّلُوا اَوْ یُصَلَّبُوا‘‘کی تفسیر میں ہیں : ''یہ دونوں بابِ تفعیل کے صیغے ہیںاور تفعیل تکثیر کے لیے آتا ہے ، لہٰذا چاہیے کہ مجرم کو پہلے زندہ سولی پر چڑھایا جائے اور پھر نیزے مار مار کر قتل کیا جائے ، (روح المعانی ، جلد :4، جز : 6،صفحہ : 176)‘‘ ۔ یہی بات علامہ قاضی ثناء اللہ پانی پتی نے تفسیرِ مظہری میں لکھی ہے نیز علامہ صدیق بن حسن قنوجی اَنْ یُّقَتَّلُواکی تفسیر میں لکھتے ہیں : ''ایک کے بعد ایک کو قتل کیا جائے(اور چُن چُن کر قتل کرنے کے یہی معنی ہیں )، (فتح البیان، ج:2، ص: 253)‘‘۔ ہمارے ایک اور مقتدر و ممتاز عالِم علامہ محمد عبدالحکیم شرف قادری نے اپنے ترجمۂ قرآن''انوار الفرقان فی ترجمۃ القرآن ‘‘ میں ہر جگہ فساد فی الارض کے معنی دہشت گردی سے کیے ہیں۔
ہم سب جانتے ہیں کہ دہشت گردی کی اصطلاح کا بڑے پیمانے پر استعمال گزشتہ دو تین عشروں سے شروع ہوا ہے ، حالانکہ قتل و غارت کا سلسلہ عالَمِ انسانیت میں شروع ہی سے کسی نہ کسی صورت میں چلا آرہا ہے ۔اللہ تعالیٰ نے کسی ایک جرم کی اتنی سنگین سزا قرآنِ مجید میں یک جا کر کے صرف اسی مقام پر بیان کی ہے اور ظاہر ہے کہ یہ جرم دہشت گردی ہی ہے۔ اس میں جان کا اِتلاف ، مال کی لوٹ مار اور آبرو ریزی سمیت دہشت و خوف مسلط کرنے کی ساری صورتیں شامل ہیں۔ مفسرینِ کرام نے بتایا کہ کسی ایک مجرم کو کیا سزا دی جائے ، یہ اس کے جرم کی نوعیت پر منحصر ہے ۔ جرم کی نوعیت و سنگینی کے اعتبار سے ایک سے زائد سزائیں کسی ایک مجرم کے لیے جمع بھی ہو سکتی ہیں اور جرم ہی کی نوعیت کے اعتبار سے سزا میں تخفیف بھی ہو سکتی ہے ۔