سندھ کے ایک بہت بڑے وڈیرے اور قومی سطح کے سیاستدان سے جب وزیراعظم نوازشریف کی ملاقات ہوئی تو وہ بڑی عزت سے پیش آئے۔سیاست میں رہنمائی کے طالب ہوئے اور حسب عادت پوچھا :''میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں؟‘‘ وہ بڑے اطمینان سے بولے ''بس جی! بنک کے کچھ افسر تنگ کر رہے ہیں‘ انہیں کہہ دیجئے کہ میرے معاملات کو دیکھ لیں۔‘‘ وزیراعظم نوازشریف نے پوچھا ''انہیںکیا دیکھنے کے لئے کہوں؟‘‘ ''میں نے شوگرمل لینے کے لئے دو بنکوں سے کچھ قرض لیا تھا۔ اب یہ لوگ واپسی کا تقاضا کرتے ہیں۔‘‘ میاں صاحب حیران ہو گئے اور کہا ''قرض تو واپس دینا پڑتا ہے۔‘‘ وڈیرہ سائیں بہت پریشان ہوئے اور کہا ''ہم سے تو کبھی کوئی دی ہوئی رقم واپس نہیں مانگتا۔ پتہ نہیں اب بنک والوں کو کیا ہو گیا ہے؟‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ آرام سے رخصت ہو گئے۔ کسی سندھی وڈیرے سے نوازشریف کا یہ پہلا واسطہ تھا۔ اب واسطہ ہی واسطہ ہے۔ جب ضرورت پڑتی ہے‘ ممتاز بھٹو کو بلا لیتے ہیں۔ آصف زرداری تو بقول شورش کاشمیری‘ ان کی جیب کی گھڑی اور ہاتھ کی چھڑی بن چکے ہیں۔ پیرپگاڑا کو اللہ بخشے‘ ان کا تو کھانے کی دعوت قبول کرنے کا بھی ریٹ تھا۔ رقم ایڈوانس دے کرپیر صاحب سے دعوت میں آنے کی رضامندی حاصل کی جاتی تھی۔ صرف ایک ایسا کھانا تھا جس میں پیر صاحب بلامعاوضہ تشریف لائے۔ وہ میرے ہم عصر(شاید مجھ سے جونیئر) اظہرسہیل کا تھا۔اس نے پیر صاحب کوایسا گھیرا کہ وہ اس کے چھوٹے سے فلیٹ کے چھوٹے سے کمرے میں‘ ڈنر کے لئے تشریف لے آئے۔ غالباً اس ڈنر میں چوہدری انور عزیز بھی شریک تھے۔ یہ قصہ مجھے کیوں یاد آیا؟
آج مخدوم امین فہیم کی رحلت کی خبر ملی تو ماضی کے کئی مناظر ذہن میں آ گئے۔ سندھ میں پیرحضرات کی دو بڑی گدیاں ہیں۔ ایک پیر صاحب پگاڑا شریف اور دوسرے مخدوم محمد زمان طالب المولیٰ۔ پیرپگاڑا حروں کے رہنما ہیں‘ جو ایک جنگجو فورس ہے اور پاک فوج کے ساتھ مل کر سرحدوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ اس خدمت کا بھاری معاوضہ پیرصاحب پگاڑا کو ملا کرتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ پیر صاحب نے کبھی فوج سے تعلقات نہیں بگاڑے ۔
بھٹو صاحب نے پارٹی بنائی تو وہ فوجی حکمران ایوب خان کے خلاف تھی۔ ظاہر ہے‘ پیرصاحب پگاڑا تو اس پارٹی کا ساتھ نہیں سکتے تھے۔ ان کے مقابلے کی دوسری گدی مخدوم طالب المولیٰ کی تھی۔ ان کی جماعت کا نام سروری تھا اور مریدوں کی تعداد پیرصاحب پگاڑا کی نسبت بہت زیادہ تھی۔ جب پارٹی بنانے کا فیصلہ کیاتو بھٹو صاحب مخدوم طالب المولیٰ کی خدمت میں حاضر ہو گئے اور درخواست کی کہ وہ ان کی سیاسی پارٹی کی سرپرستی فرمائیں۔ درویش منش طالب المولیٰ نے رضامندی ظاہر کر دی۔ بھٹو صاحب نے انہیں پارٹی کا وائس چیئرمین بنا دیا۔ وہ عملی سیاستدان نہیں تھے‘ لیکن بھٹو صاحب کی پارٹی کے معاملات میں حسب ضرورت ان کی مدد کر دیا کرتے۔ یہ مدد سیاسی معاملات میں ہوا کرتی۔ایوب خان ‘بھٹو پر جب بھی سیاسی دبائو ڈالتے‘ مخدوم طالب المولیٰ سامنے آ کھڑے ہوتے اور ایوب خان کو ہمت نہ پڑتی کہ سروری جماعت کے ساتھ ٹکر لے سکیں۔
1970ء کے انتخابات کا اعلان ہوا تو پیپلزپارٹی ‘جو انقلابی نعروں کے ساتھ سیاست میں داخل ہوئی تھی‘ اس میں بہت سے انقلابی ‘انتخابات میں شرکت کے خلاف تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ ہمیں انتخابی سیاست سے کنارہ کشی کر کے انقلابی سیاست کرنی چاہیے۔ اس پر کھلی بحث کے لئے کنونشن منعقد کرنے کا فیصلہ ہوا‘ مگر کنونشن کہاں بلایا جائے؟ فوجی حکومت میں کسی انقلابی جماعت کا کنونشن منعقد کر لینا آسان کام نہیں تھا۔ یہ مسئلہ مخدوم طالب المولیٰ کو بتایا گیا‘ انہوں نے ہالہ میں اپنی ذاتی عمارت کانفرنس کے لئے پیش کر دی۔ ساتھ ہی کنونشن کے اردگرد اپنے مریدوں کی فورس کو متعین کر دیا۔ اس طرح پیپلزپارٹی کے اندر کھل کر بحث ہوئی کہ ہمیں انتخابات میں حصہ لینا چاہیے یا نہیں؟ انقلابی گروپ کی قیادت معراج محمد خاں اور طارق عزیز کر رہے تھے جبکہ بھٹو صاحب انتخابات میں حصہ لینے کے خواہش مند تھے۔ انہوں نے تمام مخالفانہ تقریریں سننے کے بعد جب تقریر کی تو تمام حاضرین مسحور ہو کر رہ گئے۔ ان دنوں بھٹو صاحب کی یہ پوری تقریر روزنامہ ''مساوات‘‘ میں شائع ہوئی۔ سیاست کے طالب علموں کو چاہیے کہ موقع ملے تو اس کا مطالعہ ضرور کریں۔ یہ تقریر پاکستان کی سیاسی تاریخ کا قیمتی اثاثہ ہے۔ اگر ہالہ کانفرنس میں انتخابات کے بائیکاٹ کا فیصلہ ہو جاتا توملک بھر کی ٹریڈیونینیں بغاوت کے لئے تیار تھیں۔ اسے تو خیر بھٹو صاحب نے روک دیا‘ لیکن جب مجیب الرحمن نے بنگال پر قبضہ کیا تو لائل پور میں مزدوروں نے شہر پر قبضہ کر کے انتظامی امور سنبھال لئے تھے اور بغاوت کی یہ لہر دوسرے شہروں میں پھیلنے لگی۔ بھٹو صاحب کو اپیل کر کے یہ بغاوت روکنا پڑی۔ مخدوم امین فہیم کا ذکر آیا تو ہالہ کانفرنس کا یاد آنا لازم تھا۔
پیپلزپارٹی کے لئے مخدوم آف ہالہ کی خدمات کا علم بہت کم لوگوں کو ہے۔ ایک طرف پیرپگاڑا کی مسلح طاقت تھی اور وہ بھٹو صاحب کی بدترین مخالفت کر رہے تھے۔ دوسری طرف مخدوم طالب المولیٰ کی سروری جماعت کی بھاری اکثریت بھٹو صاحب کی مددگار تھی۔ اسی طاقت کی بنیاد پر بھٹو صاحب اور ان کے ساتھی‘ پیر پگاڑاکی مسلح طاقت کا سامنا کر کے بھی‘ سیاسی سرگرمیاں جاری رکھنے میں کامیاب رہے۔ ایک موقع پر بھٹو صاحب نے سانگھڑ میں جا کر جلوس نکال دیا۔ سانگھڑ پیر پگاڑا کا مرکز تھا۔ انہوں نے اسے اپنے لئے چیلنج سمجھا اور جلوس جب بازارمیں جا رہا تھا تو اس پر فائرنگ شروع کر دی گئی۔ سب سے پہلے نورے نے دھکا دے کر بھٹو صاحب کو زمین پر گرایا اور ان کے اوپر لیٹ گیا۔ ساتھ ہی بھٹو صاحب کے شیدائی ایک کے بعد ایک کر کے‘ بھٹو صاحب اور نورے کے اوپر گر گئے۔ اتنی دیر میںپیپلزپارٹی کے انقلابیوں نے مزاحمت کی تیاری کر لی اور پولیس نے آ کرفریقین کو ایک دوسرے سے الگ کر دیا۔
میں یہ سب باتیں اس لئے لکھ رہا ہوں کہ پیپلزپارٹی کے ابتدائی دنوں میںمخدوم امین فہیم کے خاندان نے ہی اس جماعت کو ایوبی آمریت اور مخالف جاگیرداروں کے حملوں سے بچا کر نشوونما پانے کے مواقع مہیا کئے۔ یہ دونوں باپ بیٹے بڑے بڑ ے دعوے کرنے کے قائل نہیں تھے۔ مخدوم صاحب کل تک زندہ تھے۔ کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس نے مخدوم صاحب کو بڑے بڑے دعوے کرتے ہوئے سنا ہو۔جو لوگ آج بھٹو صاحب کی شہادت اور پیپلزپارٹی کی قربانیوں کے پھل کھا رہے ہیں‘ اگر انہیں مخدوم آف ہالہ کی مہربانیوں کا علم ہوتا اور وہ یہ جانتے کہ بھٹو صاحب اور پیپلزپارٹی کو سروری جماعت نے کس طرح اپنے سینے گولیوں کے سامنے کر کے آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کئے تومخدوم امین فہیم کی عزت ‘ ان کے مقام و مرتبے اور خدمت کی بنیاد پر کی جاتی۔ لیکن جو قبضہ گروپ‘ بھٹو خاندان کے سیاسی اثاثوں کو ہتھیا کے بیٹھ گیا ہے‘ اس نے مخدوم صاحب مرحوم کے ساتھ جو سلوک کیا‘ اسے پیپلزپارٹی کے سچے کارکن کبھی معاف نہیں کریں گے۔ میں مخدوم امین فہیم کی رحلت کے موقع پر آج یہ دعویٰ کر رہا ہوں کہ پیپلزپارٹی نے اگر کبھی دوبارہ سیاسی طاقت حاصل کی‘ تو وہ اس کے کارکنوں کے دم قدم پر ہو گی اور اس پیپلزپارٹی میں زمینوں اور سرکاری خزانوں پر قبضہ کرنے والوں کے لئے کوئی جگہ نہیں ہو گی۔ بھٹو صاحب کی ایک نشانی ‘مخدوم امین فہیم تھے۔ انہیں ان کی زندگی میںہی بھلا کے رکھ دیا گیا تھا۔ اب وہ مٹی کے پردے میں چلے گئے ہیں۔ پیپلزپارٹی جب بھی دوبارہ جنم لے گی اور مجھے یقین ہے کہ ضرور لے گی‘ کیونکہ پاکستان میں پارٹیوں کے وجود مٹ گئے ہیں اور جو لوگ پارٹی منظم کرنے کی طاقت رکھتے ہیں‘ وہ پیپلزپارٹی کے بچے بچائے اثاثوں میں سے ہی نکلیں گے۔ انہی گلیوں میں سے‘ انہی کوچوں سے‘ جہاں پیپلزپارٹی کے نام پر عیاشی کرنے والوں کی کاروں پر پتھر پڑیں گے۔بھٹو سے پیار کرنے والے‘ یہ دیکھ کر روتے ہوں گے کہ ان کے رہنما کے نواسے کو کس طرح گلی گلی بیچا جا رہا ہے؟