پنجاب اور سندھ میں بلدیاتی انتخابات کا دوسرا مرحلہ بھی مکمل ہو گیا ہے۔ تیسرے مرحلے کی نوبت آئندہ چند روز میں آ جائے گی یا یہ کہیے کہ نوبت بج جائے گی۔ اس کے بعد چاروں صوبوں میں بلدیاتی ادارے کام شروع کر دیں گے۔ یہ وہ ادارے ہیں جو ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنے زیر تسلط علاقوں میں اس وقت قائم کرنا شروع کر دیے تھے، جب برصغیر پر انگریزوں کی باقاعدہ حکومت قائم نہیں ہوئی تھی۔ 1857ء کے بعد تو ان کی تشکیل ( یا تخلیق) کا باقاعدہ آغاز کر دیا گیا۔ انہی اداروں کے انتخابات نے ہندوستان کے مسلمانوں کو یہ احساس دلایا کہ وہ ووٹ کے میدان میں کم تر ہیں۔ مسلمانوں نے جب یہاں حکومت قائم کی تھی تو اس وقت طاقت کا سرچشمہ ''تلوار‘‘ تھی۔ جس کی تلوار میں کاٹ زیادہ ہوتی، وہ اپنے حریف کو ٹکڑے کرکے رکھ دیتا اور اس کے بعد اسی کے سہارے اپنا اقتدار قائم رکھتا۔ انگریزوں نے حریفوں کی جگہ تو اپنی فوجی طاقت ہی کی بدولت لی تھی، میدان جنگ میں اپنے مقامی حریفوں کو شکست دینے میں کامیاب ہوئے تھے، لیکن ان کے اپنے ہاں ووٹ کی طاقت تسلیم ہو چکی تھی۔ اس لئے اپنا سکّہ چلانے کے بعد انہوں نے نظم و نسق میں نچلی سطح ہی پر سہی، مقامی باشندوں کو شریک کار کرنے کے لئے اقدامات شروع کر دیے۔ بلدیاتی اداروں کے لئے جب (بہت محدود حق رائے دہی کے تحت) انتخابات کا انعقاد کیا گیا تو بڑے بڑے مسلمانوں کے طرّے نیچے ہو گئے۔ نتائج نے احساس دلایا کہ وہ یہاں تعداد میں کم ہیں اور اگر گنتی کے ذریعے اثر ورسوخ قائم ہونا ہے تو پھر ان کے دن گنے جا چکے۔ اس پر ہاہا کار مچی اور سرسید احمد خان سے صاحبان اثر ورسوخ نے ملنا اور اضطراب کا اظہار شروع کیا تو وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ ہندوستان برطانیہ کی طرح کا ملک نہیں ہے۔ یہاں تو کئی مذاہب کے لوگ آباد ہیں جو کئی نسلوں سے تعلق رکھتے اور کئی زبانیں بولتے ہیں۔ ہندوستان کا نظام اس طرح ترتیب پانا چاہیے جس میں مسلمانوں کو ان کی آبادی کے مطابق نمائندگی مل سکے کہ پچیس، تیس فیصد جب بھی پینسٹھ، ستر فیصد کے مقابلے میں آئیں گے منہ کی کھائیں گے۔ جداگانہ انتخاب کا مطالبہ اسی احساس کی کوکھ سے پیدا ہوا اور پھر اس کی کوکھ سے الگ وطن کے مطالبے نے جنم لیا۔ بات کچھ دور نکل گئی، عرض یہ کیا جا رہا تھا کہ جو بلدیاتی ادارے ''انگریز سامراج‘‘ نے انیسویں صدی کے نصف آخر میںاپنی ملکہ کا جھنڈا یہاں گاڑنے کے بعد قائم کرنا شروع کر دیئے تھے، اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ان کا تسلسل برقرار نہیں رکھا جا سکا۔ کئی سال کے طویل وقفے کے بعد سپریم کورٹ کے شدید دبائو نے حکمرانوں کو مجبور کیا کہ وہ بلدیاتی اداروں کی تشکیل کا آئینی تقاضا پورا کریں۔ آئین کس حد تک اختیارات انہیں منتقل کرنے کی تلقین کرتا ہے اور ہمارے مختلف صوبوں کے قوانین کیا حدود قائم کر رہے ہیں، یہ بحث کسی اور وقت کے لئے اٹھا رکھتے ہیں۔
بلوچستان میں امن و امان کی حالت بہت خراب تھی، انتظامیہ بھی کئی مقامات پر تتر بتر ہو چکی تھی، اس کے باوجود یا شاید اسی وجہ سے وہاں بلدیاتی ادارے دوسرے صوبوں سے بہت پہلے قائم کر دیے گئے۔ اس کا سہرا وہاں کے وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک کے ساتھ ساتھ سدرن کمانڈ کے (اب سابق) کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل ناصر جنجوعہ کو بھی جاتا ہے کہ جنہوں نے نچلی سطح تک لوگوں سے رابطے بحال کرنے کے لئے بلدیاتی اداروں کی تشکیل کو اولیت دی، اور یوں مقامی انتظامیہ کو عوامی سہارا فراہم کر دیا۔ بلوچستان کے بعد خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف نے سرگرمی دکھائی اور ایسا بلدیاتی قانون منظور کیا، جس کے تحت اختیارات کی منتقلی کو یقینی بنایا جا سکے۔
خیبرپختونخوا میں انتخابات ایک ہی دن منعقد ہوئے تھے، اس لئے بدامنی کی وسیع شکایات پیدا ہوئیں۔ اس تجربے نے الیکشن کمیشن کو پنجاب اور سندھ میں تین مرحلوں میں انتخابات کے انعقاد کی طرف مائل کیا اور سیاسی جماعتوں نے بھی اسے ٹھنڈے پیٹوں قبول کر لیا۔ اگر خیبرپختونخوا کا تجربہ سامنے نہ ہوتا تو پھر شاید مرحلہ وار انتخابات کو تسلیم کرنا ان کے لئے مشکل ہوتا۔ مرحلہ وار انتخابات میں شکایتوں کے ''پختون خواہی‘‘انبار نہیں لگائے جا سکے۔ تحریک انصاف اور اس کے رہنمائوں نے بہت کچھ کہنے کی کوشش کی، لیکن سچی بات یہ ہے کہ بہت کچھ کہہ نہیں پائے۔
پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار یہ انتخابات جماعتی بنیادوں پر منعقد ہوئے ہیں۔ اس سے پہلے جب بھی ان کا انعقاد ہوا، یہ غیر جماعتی ہی رہے۔ اس سے حکومت کو یہ سہولت فراہم ہو جاتی تھی کہ وہ ان بندگان آزاد کو بآسانی اپنے رنگ میں رنگ لیتی تھی۔ یہ آزاد ہوتے ہوئے بھی اس کی غلامی پر کمربستہ ہو جاتے تھے، لیکن اب جماعتوں نے باقاعدہ ٹکٹ جاری کیے۔یہ اور بات کہ کئی مقامات پر پارٹی ڈسپلن نافذ نہیں کیا جا سکا اور ٹکٹ یافتہ امیدواروں کے مقابلے میں انہی کی پارٹی کے لوگوں نے لنگر لنگوٹ کس لیے۔ کئی حلقے جماعتوں نے آزاد چھوڑ دیے۔ یہاں ان کے کارکنوں کو کھلی چھٹی تھی کہ جو جس سے جس طرح چاہے عہدہ برآ ہو سکے۔
مسلم لیگ (ن) نے پنجاب اور پیپلزپارٹی نے سندھ میں اپنی برتری برقرار رکھی ہے۔ حیدرآباد میں ایم کیو ایم کا جھنڈا اونچا رہا۔ تحریک انصاف اپنے دعووں اور نعروں کے مطابق اپنی طاقت نہیں منوا سکی۔ ان انتخابات نے اس کے قد کو لمبا نہیں رہنے دیا۔ سندھ میں پیپلزپارٹی کو بدین میں ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نے نیچا دکھایا اور ایک بڑی خبر بنائی ۔ بہت سے تبصرہ نگاروں نے پنجاب اور سندھ میں دو مختلف سیاسی جماعتوں کی کامیابی یا یوں کہیے کہ دونوں کی ناکامی کو سیاسی نظام کے لئے دھچکا قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے قومی سیاسی عمل کو صدمہ پہنچا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ پنجاب میں پیپلزپارٹی اور سندھ میں مسلم لیگ (ن) کا وجود بہت سمٹ گیا ہے۔ پنجاب کے حوالے سے پیپلزپارٹی کا معاملہ زیادہ تشویشناک ہے کہ بھٹو لہر یہاں سب سے زیادہ شدت سے اٹھی تھی۔ سندھ بھٹو مرحوم کی محبت کے حوالے سے بہت پیچھے رہ گیا تھا... لیکن یہ بات مدنظر رکھنی چاہیے کہ قوم کو دستور سازی کا مرحلہ درپیش نہیں ہے۔ اگر انتخابات دستور ساز اسمبلی کے لیے ہو رہے ہوتے، تو پھر یہ سیاسی فاصلہ منفی ہو سکتا تھا، لیکن ایک آئینی ڈھانچے کے اندر رہتے ہوئے کام کرنے والی جماعتوں کے علاقائی حلقے حالات پر وہ اثر نہیں ڈالتے جن کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ اس سے یہ نتیجہ البتہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان کسی نئے تجربے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اگر اس کے آئین سے چھیڑ چھاڑ کی گئی ،کسی مہم جوئی کا نشانہ بنانے کا خیال کسی کے دل میں پھر پرورش پا گیا تو اس ''پنگے‘‘ کے متحمل ہم نہیں ہو سکیں گے۔ سیاست کے فاصلے دل کے فاصلوں کو وسیع اور گہرا کر دیں گے۔
[یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ '' پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے]