بہادر عوام اور افواج کی قربانیاں
رنگ لا رہی ہیں۔صدر ممنون حسین
صدر ممنون حسین نے کہا ہے کہ ''بہادر عوام اور افواج کی قربانیاں رنگ لا رہی ہیں‘‘ کیونکہ عوام کے بہادر ہونے کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے کہ لوڈشیڈنگ سمیت اپنا کوئی بھی مسئلہ حل نہ ہونے کے باوجود حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے نہیں ہو رہے اور کسی غیبی طاقت کے منتظر ہیں جو ان کی جان خلاصی کروائے اور اگرچہ حکومت کی قربانیاں ابھی رنگ نہیں لا رہیںجو عوام اور افواج سے بھی زیادہ ہیں‘ تاہم امید ہے کہ وہ بھی جلد ہی رنگ لانا شروع کر دیں گی ‘جب مدارس کی رجسٹریشن اور ان کی پڑتال کا سلسلہ بالآخر شروع ہو جائے گا‘ دہشت گردوں کے سہولت کاروں کے خلاف بھی دل پر پتھر رکھ کرکارروائیاں ہونے لگیں گی اور نیشنل ایکشن پلان پر بھی سنجیدگی سے توجہ دینے کے کام کا آغاز ہو جائے گا جو حکومت کی دیگر منافع بخش کارروائیوں کی وجہ سے رکا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''دہشت گردی کے خلاف جنگ کامیاب ہو رہی ہے‘‘ جس پر حکومت مُبارکباد کی مستحق ہے۔ آپ اگلے روز کراچی میں پاکستان نیوی کے ایک کانووکیشن سے خطاب کر رہے تھے۔
زلزلہ متاثرین کو پائوں پر کھڑا کرنے
میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔وزیر اعظم
وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''زلزلہ متاثرین کو پائوں پر کھڑا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے‘‘ لیکن ظاہر ہے کہ ہم انہیں ایک ہی پائوں پر کھڑا کر سکتے ہیں جبکہ دوسرے پائوں پر انہیں خود ہی کھڑا ہونا ہو گا کیونکہ ہم خود ایک ہی پائوں پر کھڑے ہو کر سارا کچھ کر رہے ہیں جبکہ ایک ٹانگ پر کھڑا رہنا ویسے بھی عبادت اور چلّہ کشی وغیرہ کے طریقوں میں سے ایک ہے جبکہ دوسری ٹانگ ہم نے دوسروں کی ٹانگ میں اڑانے کے لیے مخصوص کر رکھی ہے‘اور ایک دنیا جانتی ہے کہ ہمارے سارے کام کسی طور بھی عبادت سے کم نہیں‘ ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ ''لوگوں کو تکلیف پہنچی ہے تو امداد کرنا حکومت کا فرض ہے‘‘ حالانکہ حکومت دیگر ضروری فرائض میں بھی بُری طرح مصروف ہے اور اب تو ہماری مصروفیات سے ایک دُنیا پُوری طرح آگاہ ہو چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''لوڈشیڈنگ دو اڑھائی سال میں ختم ہو جائے گی‘‘ اگرچہ انتخابات سے پہلے ہم نے اعلان کیا تھا کہ اسے چھ ماہ میں ختم کر دیں گے لیکن زندہ قوموں کے چھ ماہ چھ سال تک بھی پہنچ سکتے ہیں جبکہ اب تو قوم لوڈشیڈنگ کی عادی بھی ہو چکی ہے اور اصولی طور پر لوگوں کی عادتوں میں دخل اندازی نہیں کرنی چاہیے جو کہ ان کا جمہوری حق بھی ہے۔ آپ اگلے روز زلزلہ متاثرین سے خطاب کر رہے تھے۔
الیکشن ملتوی کرنا سازش‘ الیکشن کمیشن
کی ڈوریں ہلائی جا رہی ہیں۔ زرداری
سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ''الیکشن ملتوی کرنا ایک سازش ہے اور الیکشن کمیشن کی ڈوریں ہلائی جا رہی ہیں‘‘ جبکہ میرے خلاف بھی سازش کی گئی اور مجھے ملک سے باہر جانے پر مجبور کر دیا گیا اور پارٹی میرے بغیر بیوہ ہو کر رہ گئی ہے اور نہ صرف ذوالفقار مرزا نے بدین میں ہماری اینٹ سے اینٹ بجا دی ہے بلکہ ایان علی پر فرد جرم بھی عائد کر دی گئی ہے اور اوپر سے الیکشن کمیشن کی ڈوریں ہلائی جا رہی ہیں حالانکہ اس کی بجائے انہیں صاف احکامات بھی صادر کیے جا سکتے تھے کیونکہ ہم نے اپنے عہد میں جو کچھ بھی کیا‘ ماشاء اللہ علی الاعلان کیا اور ڈوریں وغیرہ ہلانے کا تکلف نہیں کیا جبکہ ڈاکٹر عاصم بے چارے کی ڈور ذرا زیادہ ہی ہلا دی گئی ہے حالانکہ اس کے ساتھ وعدہ کیا گیا تھا کہ 'ملک میں آ جائیں‘ انہیں کچھ نہیں کہا جائے گا‘ اس دروغ گوئی کا جتنا بھی ماتم کیا جائے کم ہے جبکہ مجھے بھی اندر خانے اسی طرح کی یقین دہانیاں کروائی جا رہی ہیں‘ لیکن میرے جِنّ سیانے ہیں۔ آپ اگلے روز کراچی سے اپنے لیے ایک بیان جاری کروا رہے تھے۔
پُرامن ماحول میں الیکشن کا کریڈٹ سیاسی
اور انتظامی ٹیم کو جاتا ہے۔ شہباز شریف
وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''پرامن ماحول میں الیکشن کا کریڈٹ سیاسی اور انتظامی ٹیم کو جاتا ہے‘‘ بلکہ یہ کہنا زیادہ صحیح ہو گا کہ سارا کریڈٹ انتظامی ٹیم ہی کو جاتا ہے کیونکہ باقی سارا کام بھی اسی کے ذمے تھا جو اس نے نہایت جانفشانی کے ساتھ سرانجام دیا جبکہ سب سے زیادہ وفاداری کا اظہار ہماری سرفروش پولیس نے کیا جس کے سہارے یہ حکومت چل رہی ہے ‘ اور جہاں تک سیاست کا تعلق ہے تواس کا تکلف ویسے ہی ختم کر دیا گیا ہے کیونکہ جو چیز قیمت ادا کر کے مل سکتی ہو‘اس کے لیے سیاسی طور پرسر کھپانے کی کیا ضرورت ہے اور جو گینگ ہم نے بنائے ہوئے ہیں‘ سیاسی خلا انہوں نے مکمل طور پر‘ پُر کر رکھا ہے جبکہ ملک عزیز میں ہر چیز کا ایک ریٹ مقرر ہے اور اگر جیب میں پیسے ہوں تو ہر چیز دستیاب ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''ہوائی فائرنگ کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی‘‘ کیونکہ اگر سیدھی فائرنگ ہی سے مسئلہ حل ہو سکتا ہو تو ہوائی فائرنگ کی کیا ضرورت ہے جیسا کہ ماڈل ٹائون میں کیا گیا تھا اور جس کی آج تک دھاک بیٹھی ہوئی ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔
قوم وزیر اعظم سے پوچھتی ہے
لبرل لفظ کیوں استعمال کیا۔ فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ قوم وزیر اعظم سے پوچھتی ہے کہ لبرل کا لفظ کیوں استعمال کیا‘ کیونکہ اگر معاشرے کو لبرل بنانا ہے تو ہم کدھرجائیں گے جبکہ اس طرح جناح صاحب کے نظریات کو رائج کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جنہوں نے ہماری سر توڑ مخالفت کے باوجود یہ ملک بنا تو دیا لیکن اس پر ان کے نظریات ٹھونسنے کی ہرگز اجازت نہیں دی جا سکتی ہے جس کا صاف مطلب یہ ہو گا کہ ضیاء الحق مرحوم و مغفور کے سارے کیے کرائے پر پانی پھر جائے اور بعض مدرسوں کی وجہ سے یہ جو رونق لگی ہوئی ہے ‘ اُسے بھی ختم کر دیا جائے‘ اور ‘ مُلک سنسان اور خاموش ہو کر رہ جائے اور اس طرح ملک کو لبرل بنا کر ہمارے دیس نکالے کا اہتمام کر دیا جائے‘ نہ ہمارا کوئی پرسان حال ہو اور نہ ہمارا کوئی مسئلہ حل ہو سکے اور ظاہر ہے کہ یہ علمائے کرام کے خلاف ایک سازش ہے کیونکہ ہماری لُغت کے مطابق لبرل اور سیکولر کا مطلب لادین ہے۔ آپ لوگ مانسہرہ میں وفود سے ملاقات کر رہے تھے۔
آج کا مقطع
غالب کے ساتھ میرا جھگڑا نہیں ظفرؔ کچھ
میں ہر طرح سے اپنی اوقات جانتا ہوں