حالیہ پیرس حملوں کے بعد فرانسیسی صدر، فرانکوس اولاندے نے نام نہاد د ولت ِ اسلامیہ عراق و شام، داعش، کے خلاف جنگ کا اعلان کردیا، تاہم وہ بھول گئے کہ فرانس تو ان دہشت گردوں کے خلاف گزشتہ ایک سال سے حالت ِ جنگ میں ہے۔ گزشتہ سال امریکی کولیشن کاحصہ بن کر ان کے خلاف کارروائی کرنے سے پہلے بھی فرانسیسی فضائیہ شام میں ان کے ٹھکانوں پر بمباری کرتی رہی تھی۔ اس سے بھی پہلے فرانسیسی فورسز لیبیا اور مالی میں فعال تھیں۔ اگرچہ مجھے داعش کی پیرس میں کی جانے والی دہشت گردی کاشدید صدمہ ہوا مگر حیرت نہیں۔ سیاست میں بھی نیوٹن کا تیسرا قانون لاگو ہوتا ہے۔۔۔۔ ہر عمل کا رد ِعمل برابر قوت کا ہوتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ سیاست میں رد ِعمل فوری اور فزکس کی طرح دوٹوک نہ ہو، اس کی شکل، جہت، وقت اور نوعیت بہت مختلف ہوسکتی ہے، لیکن ایک بات طے ہے کہ اس سے مفر ممکن نہیں، جلد یا بدیر، رد ِعمل ضرور آئے گا ، اور فریق ِثانی کی مرضی سے آئے گا۔
مشرق ِوسطیٰ میں جاری افراتفری، شورش اور تشدد کی لہر دراصل مغرب کی پالیسیوں اور افغانستان، عراق، شام اور لیبیا میں کی جانے والی جنگوں کا نتیجہ ہے۔ ان ریاستوں میں شیعہ اور سنی گروہوں کے درمیان بیلنس آف پاور کو برہم کرتے ہوئے امریکیوں اور ان کے اتحادیوں نے فرقہ واریت کے خونی جن کو بوتل سے آزاد کردیا ہے۔ خطے میں فرقہ وارانہ کشید گی میں ایک طرف ایران ہے تو دوسری طرف ایک اہم خلیجی ملک۔ داعش کی جڑیں شام میں ہونے والی خانہ جنگی کے ابتدائی ایام میں تلاش کی جاسکتی ہیں جب امریکہ، ترکی، کویت اور خلیجی ریاستیں بشار الاسد کا تختہ الٹنے کے لیے سنی انتہا پسند گروہوں کی مدد کررہی تھیں۔
ان معروضات کا مطلب داعش کی خونی کارروائیوں کا جواز فراہم کرنا نہیں ، صرف اس بات کی وضاحت کرنا مقصود ہے کہ اس خطے میں تشدد کا آتش فشاں کیسے اور کیوں پھوٹ پڑا؟ جہادی تحریک کس کی پشت پناہی سے شروع ہوئی، مال اور ہتھیار کہاںسے آئے اور ان کے مقاصد کیا تھے؟امریکہ کے عراق پر قبضے کے دوران القاعدہ نمودار ہوئی، لیکن اس کا ہدف صرف امریکی نہیں بلکہ اس نے مسلک کی بنیاد پر اہل ِتشیع کا خون بھی بہانا شروع کردیا۔ چنانچہ عراق میں اس نے امریکی اور عراقی فورسز کے علاوہ اہل ِ تشیع پر بھی حملے کیے۔ اس کے رد ِعمل میں امریکیوں نے اس کے رہنما ابو مصعب الزرقاوی (اردن کا تشدد پسند جنگجو)کو ہلاک کردیا۔ اُس کی ہلاکت کے بعد ابوبکر البغدادی سامنے آیا، تاہم اس وقت تک امریکی عراق سے جاچکے تھے اور القاعدہ کمزور ہوچکی تھی۔ تاہم جب شام میں خانہ جنگی شروع ہوئی تو البغدادی کی تنظیم کو وہاں پائوں رکھنے کی جگہ مل گئی۔ بہت جلد مہیب طاقت حاصل کرتے ہوئے وہ اُ ن تمام گروہوں سے کہیں زیادہ طاقتور ہوگئی جو اسد حکومت کے خاتمے کے لیے لڑرہے تھے۔ القاعدہ سے الگ ہونے کے بعد البغدادی نے اپنی تنظم کا نام دولت ِ اسلامیہ عراق و شام (داعش) رکھا اور آج کل یہ اسی نام سے مشہور ہے۔ اس کے بعد اس نے سرحد عبور کرتے ہوئے عراق کے دوسرے سب سے بڑے شہر موصل پر قبضہ کرلیا۔ ابوبکر البغدادی نے خود کو دنیا بھر کے مسلمانوں کا خلیفہ قرار دے دیا۔ موصل میں داعش کے جہادیوں کے ہاتھ امریکہ ہتھیاروں کی بھاری کھیپ لگ گئی جس میں ٹینک اور توپ خانہ بھی شامل تھا۔ اُنھوں نے عراق کے سٹیٹ بنک سے اربوں ڈالر بھی لوٹ لیے۔
اُس وقت سے لے کر اب تک داعش نے بہت موثر ذرائع استعمال کرتے ہوئے دنیا بھر سے نوجوان مسلمانوں کو اپنی صفوں میں شامل کیا ہے۔ درحقیقت اس تنظیم نے جدید ذرائع ابلاغ کا استعمال دیگر تنظیموں سے کہیں بڑھ کرکیا ہے۔ یورپ کی جدید ریاستوں، جیسا کہ بلجیم اور فرانس کے بہت سے نوجوان بھی اس میں شامل ہوئے۔ جب شام میں خانہ جنگی کی وجہ سے پناہ گزینوں کی بھاری تعداد نے یورپ کا رخ کیا تو شک ہے کہ داعش کے ارکان بھی ان کے روپ میں پناہ دینے والے ممالک، جیسا کہ فرانس، میں داخل ہوگئے ۔ فرانس میں یورپ
کی کسی بھی ریاست سے زیادہ مسلمان آباد ہیں۔ چونکہ اُن میں سے اکثر مقامی روایات کو اپنانے میں ناکام رہے ہیں، اس لیے نوجوان مسلمان خود کو معاشرے سے الگ تھلگ محسوس کرتے ہیں۔ اُنہیں ایسا لگتا ہے کہ جیسے اُن سے امتیازی سلوک کیا جارہا ہے۔ مسلم آبادی میں بے روزگاری کی شرح بہت زیادہ ہے۔ اُن میں سے اکثر تنگ آبادیوں میں رہتے ہیں جہاں پولیس بھی جانے سے گریزاں رہتی ہے۔ وقتاً فوقتاً ان علاقوں میں پرتشدد مظاہرے بھی پھوٹ پڑتے ہیں۔ ان کے نتیجے میں ان کی حالت سدھارنے کے وعدے سامنے آتے ہیں لیکن عملی طور پر کچھ نہیں کیا جاتا۔ ان حالات میں کچھ نوجوان جرائم کی راہ اپنالیتے ہیں۔ جب اُنہیں گرفتار کرکے جیل میں بند کیا جاتا ہے تو وہاں اُن کی ملاقات جہادی انتہا پسندوں سے بھی ہوجاتی ہے۔ وہ اس گرفتاری کا انتقام لینے کے لیے انتہا پسندی کا راستہ اختیار کرلیتے ہیں۔ کچھ نوجوانوں کے ذہن میں انٹر نیٹ کے ذریعے انتہا پسند ی کا زہر اتارا جاتا ہے۔ کچھ مساجداور مدرسے بھی ایسا کرتے ہیں۔ سکیورٹی فورسز اُن پر نگاہ رکھتی ہیں لیکن ان کی فعالیت مکمل طور پر ختم نہیں کی جاسکتی۔
فرانس اور بلجیم کی انٹیلی جنس ایجنسیوں پر شدید تنقید کی گئی ہے کہ وہ اپنے مسلمان شہریوں کو پیرس حملے میں ملوث ہونے سے روکنے میں ناکام رہی ہیں۔ اُن پر ان حملوں کی پیشگی اطلاع کو نظر انداز کرنے کا بھی الزام ہے۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ دہشت گردی کا خطرہ اب اتنا زیادہ ہے کہ ''دوستانہ برتائو‘‘ کرنے والی ایجنسیاں اس کا تدارک نہیں کرسکتیں۔ اب چونکہ رسی بہت دراز ہوچکی ہے، اس لیے ان ایجنسیوں کی واچ لسٹ پر ہزاروں انتہا پسند ہیں۔ ان سب کی سرگرمیوں پر نگاہ رکھنا مشکل ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کسی کوکم خطرناک سمجھ کر نظر انداز کیا جاتا ہے لیکن آگے چل کر وہی کسی حملے میں ملوث ہوجاتا ہے۔ پیرس حملوں کے موقع پر فرانس کے رہنمائوں نے وعدہ کیا ہے کہ وہ سکیورٹی قوانین سخت بنائیں گے۔ اس وقت تین ماہ کی ایمرجنسی نافذ ہے، بارڈر سیل کردیے گئے ہیں ہیں جبکہ Schengen معاہدے کے تحت یورپی یونین کے تمام شہریوں کی بلاویزہ داخلے کی سہولت کوبھی معطل کردیا گیا ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ معاہدے کو مستقل بنیادوں پر منسوخ کردیا جائے۔
حملوں کے بعد یورپ مختلف دکھائی دے رہا ہے۔ ہر چہرے پر خوف اور غصے کے جذبات پائے جاتے ہیں۔ اینجلا مرکل کی تارکین ِوطن کو جرمنی میں پناہ دینے کی نرم پالیسی پر نظر ِثانی کی جارہی ہے۔ امریکہ میں فرانس سے بھی زیادہ سخت رد ِعمل دیکھنے میں آیا۔ چوبیس ریاستوں کے گورنروں نے شامی تارکین ِوطن کے لیے اپنے دروازے بند کردیے۔ ایوان ِ نمائندگان میں ایک بل پیش کرتے ہوئے تارکین ِ وطن پر سخت نگاہ رکھنے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ ری پبلیکنز کے صدارتی امیدواروں کی طرف سے گرما گرم بیانات سننے کو مل رہے ہیں۔